سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیل کی سماعت
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اس موقع پر مختلف قانونی نکات پر بحث کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں جو جرائم ذکر ہیں، ان کا اطلاق صرف فوجی افسران پر ہوتا ہے۔
سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت کیا جا سکتا ہے، تاہم عدالت نے اس پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ یہ سیکشن فوجیوں سے متعلق ہے جو اپنے فرائض سے منحرف ہوں۔
عدالت نے فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت اور ان میں سویلینز کے ٹرائل کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات کیے، خاص طور پر 9 مئی کے واقعات اور آرمی ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترامیم کے حوالے سے۔ ججز نے اس بات پر بھی بحث کی کہ کیا یہ ترامیم ماضی کے واقعات پر لاگو کی جا سکتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی، اور وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو مزید دلائل دینے کا وقت دیا۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
9 مئی مقدمات میں نامزد ملزمان کی ملٹری کورٹ سے سزاؤں کیخلاف اپیلیں
پشاور:ملٹری کورٹ سے سزاؤں کے خلاف 27 ملزمان نے اپیلیں دائر کردیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق 9 مئی واقعات میں نامزد خیبر پختونخوا سے 27 ملزمان نے ملٹری کورٹس سے سزاؤں کے کے خلاف کورٹ آف اپیل میں قاضی انور ایڈووکیٹ اور بیرسٹر سرور مظفر شاہ کی وساطت سے اپیلیں دائر کی ہیں۔
کورٹ آف اپیل میں دائر کی گئی اپیلوں میں ملزمان کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 9 مئی مقدمات میں اپیل کنندگان گرفتار ہوئے اور ان کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں چلا۔ 4جنوری کو ملٹری کورٹ نے ملزمان کو سزائیں سنادیں۔
اپیل میں کہا گیا کہ ملزمان کو پوری صفائی کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی ٹرائل کے دیگر قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ اپیل کنندگان کے خلاف منصفانہ مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ملٹری کورٹ میں سویلینز کا ٹرائل چلانا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جب کہ اپیل کنندگان کو ٹرائل کے دوران بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔
اپیل آف کورٹ میں دائر اپیل میں استدعا کی گئی کہ تمام اپیلوں کو منظور کیا جائے اور تمام ملزمان کو الزامات سے بری کیا جائے۔