القادر ٹرسٹ کیس نہیں، ایجنڈا ہے جس سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، بابر اعوان
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان نے کہا ہے کہ القادر ٹرسٹ کیس نہیں، ایجنڈا ہے جس سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو ٹرسٹ کی پراپرٹی پر ایک علم کا شہر آباد کرنے کے مقدمہ میں سزا دی جا رہی ہے، یہ کیس نہیں، یہ ایجنڈا ہے جس سے بانی اور پی ٹی آئی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ سب سیاست ہے، سزا سے پہلے کیا فرق پڑا تھا۔
بابر اعوان نے کہا کہ بشری بی بی یا نوجوانوں کو جو ملٹری کسٹڈی میں بھی رہے، جو نوجوان ملٹری کسٹڈی میں رہے، معافی بھی نہیں مانگی، ان کا باہر نکلنے پر شاندار استقبال کیا گیا، جو کچھ ہو رہا ہے یہ کینگرو کارروائی ہے، ایسا مقدمہ جس کا فیصلہ جج نے سنانا ہے وہ سوشل میڈیا پر پہلے ہی سنایا جا چکا ہے۔
9 مئی اور 26 نومبر پرکمیشن کے معاملے میں پیشرفت نہ ہوئی تو مذاکرات ختم ہوجائیں گے: شوکت یوسفزئی
انہوں نے کہا کہ نجومی سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی سزا کا اعلان کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ بہت لمبا 72 صفحوں والا فیصلہ آئے گا، یہ کیسی عدالت ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسا نظام انصاف ہے؟ سپریم کورٹ بھی اس پر خاموش ہے، یہ جلدی میں اس لیے ہیں کہ گلوبل اور ریجنل تبدیلیاں آ رہی ہیں، عارضی نظام حکومت اور فرضی فارم 47 والوں کا کوئی مستقبل باقی نہیں رہا، ان کا ٹائم آگیا ہے۔
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی
پڑھیں:
القادر ٹرسٹ کیس۔ کرپشن کی ننگی داستان
القادر ٹرسٹ کا ذکر آج کل زبان زد عام ہے۔ کیونکہ 2023 میں نیب نے اس کیس میں عمران خان نامی مرکزی ملزم بمعہ دیگر کے خلاف اس میں ہوئی کرپشن کی وجہ سے کارروائی کا آغاز کیا۔ اب اس کیس کا فیصلہ جو پچھلی کئی تاریخوں سے ملتوی کیا جا رہا تھا، آج بروز جمعہ متوقع ہے۔ بہت کم لوگ اس کیس میں ہوئی قوانین کی خلاف وزیوں اور کرپشن کے بارے میں جانتے ہیں۔ اکثر نے اسکا صرف نام سن رکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کیس کو اپنے قارئین کے لیے آسان زبان میں تحریر میں لایا جائے تاکہ عام عوام بھی اسے سمجھ سکیں کہ اس کیس کی بنیاد کیا ہے اور کیوں اس میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی، کیس چلایا گیا اور اب فیصلہ آ رہا ہے۔
یہ کیس تقریباً ساڑھے چار سو کنال سے زائد زمین سے متعلق ہے جو ملک ریاض نامی ایک پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے القادر یونیورسٹی کو عطیہ کی گئی۔ بظاہر تو ایک نجی یونیورسٹی بنانے کے لیے عطیہ میں دی گئی زمین میں کرپشن کا عنصر پیدا نہیں ہوتا لیکن یہاں معاملات اس وقت پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب یہ زمین ایک خالصتاً دنیا دار ملک ریاض جو بحریہ ٹاؤن کا مالک اور اپنے ناجائز کام پیسے کے زور پر اور رشوت دے کر کرانے کے لیے مشہور ہے۔ وہ بھلا کیوں بغیر کسی لالچ کے اپنی اربوں روپے مالیتی ساڑھے چار سو کنال اراضی ایک نجی یونیورسٹی کے لیے عطیہ کرے گا؟ ابھی اسی سوال کا جواب تلاش کیا جا رہا تھا کہ یہاں ایک اور سکینڈل سامنے آ گیا جس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی، جو برطانیہ میں آرگنائزڈ کرائم کی روک تھام، منی لانڈرنگ اور دولت سے متعلقہ جرائم کی چھان بین اور انہیں کنٹرول کرنے پہ مامور ہے، کے انٹرنیشنل کرپشن یونٹ نے اسی ملک ریاض اور اس کے بیٹے علی ریاض کی یو کے میں خریدی گئی جائیدادوں اور اس مد میں آنے والے پیسوں سے متعلق انکوائری کی تو ثابت ہوا کہ دونوں باپ بیٹا منی لانڈرنگ جیسے گھناؤنے فعل میں ملوث تھے اور یو کے میں انکی طرف سے لایا گیا بیشتر پیسہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے کمایا اور پھر یو کے منتقل کیا گیا تھا۔ چنانچہ سال سے زائد عرصے پہ محیط تحقیقات کے بعد دونوں باپ بیٹے یعنی ملک ریاض اور اسکے بیٹے علی ریاض کو ملزمان ڈیکلئر کیا گیا اور ان کی یو کے میں موجود جائیداد اور بنک اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا گیا۔
اب یہاں اس پراپرٹی ٹائیکون کی مدد کو اس وقت کی عمران خان نامی ملزم کی قیادت میں قائم حکومت سامنے آئی۔ عمران خان نامی ملزم کی کابینہ کا حصہ ایک شخص جو کہ یو کے کا باسی تھا۔ وہ یو کے پہنچا اور یو کے کی نیشنل کرائم ایجنسی سے رابطہ کر کے اس پراپرٹی ٹائیکون، اس کے بیٹے اور یو کے کی ایجنسی کے درمیان ایک معاہدہ کرایا۔ اس سیٹلمنٹ کی رو سے دونوں نے نیشنل کرائم ایجنسی کو نا صرف انکی تفتیش پہ آنے والا خرچہ دیا بلکہ 190 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم جو قریب 60 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں، اور جن کو برطانوی قانون کے تحت حکومت پاکستان کو واپس ادا کرنا طے ہوا۔ لیکن پھر اصل کہانی سامنے آئی کہ یہ پیسہ جو پاکستانی حکومت کو قومی خزانے میں واپس کیا جانا تھا۔ وہ ملک ریاض کیخلاف سپریم کورٹ کے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں فیصلے جس میں اس پراپرٹی ٹائیکون کو سپریم کورٹ نے 460 ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ عمران خان نامی ملزم کی حکومت نے پیسے واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے مالک کے ذمہ واجب الادا 460 ارب روپے جرمانے کی مد میں جمع کرا کر ایڈجسٹ کرا دیئے۔ یہ کام کرنے کے لیے 3 نومبر 2019 کو کابینہ کے اجلاس میں ایک بند لفافہ پیش کیا گیا اور کابینہ کے اراکین کو کہا گیا کہ آپ اس لفافے میں موجود ایگریمنٹ یا دستاویز کو بغیر دیکھے یا پڑھے منظور کر دیں۔ جس کو کچھ بحث مباحثے کے بعد کابینہ نے منظور کر دیا۔ اسی دستاویز کی رو سے یہ رقم حکومت پاکستان کے قومی اکاؤنٹ میں جانے کی بجائے ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں موجود اکاؤنٹ جس میں اس نے جرمانہ کی رقم جمع کرانا تھی، پہنچا دی گئی۔
اس کے بعد نیب کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس رقم کے سپریم کورٹ میں جمع ہونے کے بعد بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض نے اربوں روپے مالیتی 458 کنال زمین عمران خان نامی ملزم کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام عطیہ کر دی گئی۔ اس موقع پہ مبینہ طور پہ ریکارڈ ہوئی ایک کال بھی سامنے آئی کہ جس میں اس پراپرٹی ٹائیکون کی اپنی بیٹی سے بات ہو رہی تھی اور وہ ایک تیسری خاتون فرح گوگی کا نام لیکر کہ رہی تھی کہ اس نے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی کو دی گئی ہیرے کی انگوٹھی میں ہیرے کا سائز بہت چھوٹا ہے لہٰذا کم از کم پانچ کیرٹ ہیرے والی انگوٹھی بھجوائی جائے۔ یہ کہ بشریٰ بی بی نے کہا ہے کہ آپ (یعنی پراپرٹی ٹائیکون) کا حکومت میں پھنسا ہوا کوئی کام اگلے کچھ دن میں ہو جائیگا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پہ ہے کہ پہلے یہ زمین زلفی بخاری جو کہ مرکزی ملزم عمران خان (اس وقت کا وزیر اعظم) کا مشیر خاص تھا اس کے نام لگوائی گئی اور جونہی زمین ٹرانسفر ہو گئی فوری طور پہ ٹرسٹ بنا کر اس نے یہ زمین عمران خان اور اس کی اہلیہ (دونوں ٹرسٹ کے مالک اور ٹرسٹی) کے نام لگوا دی۔ عمران خان کی اہلیہ (وہی خاتون جو پانچ کیرٹ والی ہیرے کی انگوٹھیاں مانگ رہی تھی) اس ضمن میں حکومت کچھ دستاویز بھی سامنے لائی جن میں ایک معاہدے کے تحت ملک ریاض نے اربوں روپے مالیت کی اراضی اس وقت کے وزیر اعظم اور القادر ٹرسٹ کیس کے مرکزی ملزم عمران خان کی اہلیہ اور شریک ملزمہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی، اس معاہدے میں القادر ٹرسٹ کی جانب سے بشریٰ بی بی کے دستخط بھی موجود ہیں۔ یہاں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ملک ریاض اور عمران خان و بشریٰ بی بی کے درمیان ہوئی ڈیل کے تحت صرف القادر ٹرسٹ کی زمین ہی نہیں دی گئی بلکہ بشریٰ بی بی کی فرح گوگی نامی سہیلی کے نام ملک ریاض کے صاحبزادے کی طرف سے اربوں روپے مالیتی 240 کنال کا ایک اور قطعہ اراضی جو بنی گالہ اسلام آباد میں واقع ہے وہ بھی ٹرانسفر ہوئی۔ اب یہاں کئی سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔
ایک پراپرٹی ٹائیکون کے سپریم کورٹ میں موجود جرمانہ ادا کرنے والے اکاؤنٹ میں برطانیہ سے آئے اور حکومت کو ملے 60 ارب کیوں بھیجے گئے؟ اور اسطرح حکومت و قومی خزانے کو 60 ارب روپے کی خطیر رقم سے کیوں محروم کیا گیا؟ کرپشن مقصود نہ تھی تو کابینہ اجلاس میں بھی اس معاملے کو اتنا خفیہ کیوں رکھا گیا کہ کابینہ کے کسی رکن کو دستاویزات دکھائی گئیں اور نہ کسی تفصیل سے آگاہ کیا گیا؟ ملک ریاض سے ہیرے کی انگوٹھی کیوں مانگی گئی؟ بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح گوگی نامی خاتون کے نام بنی گالہ میں 240 کنال اراضی کیوں ٹرانسفر کی گئی۔ جرم نہ کیا تھا تو عمران خان اور ان کی اہلیہ و دیگر نامزد ملزمان ایک سال تک نیب کی اس انکوائری سے کیوں بھاگتے رہے؟ کیوں ہائی کورٹ سے بار بار نیب کی اس ضمن میں جاری تحقیقاتی کارروائی رکوانے کے لیے سٹے لیتے رہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کا جھانسہ دے کر عمران خان نامی مرکزی ملزم، اس کی اہلیہ اور دیگر ملزمان نے کرپشن کی انتہا کر دی۔ اپنے اعمال سے نہ صرف قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا نقصان پہنچایا بلکہ اپنی اور ملک ریاض کی درمیان ہوئی ڈیل کے نتیجے میں اس رقم کے عوض اربوں روپے مالیتی زمین اور دیگر قیمتی تحائف وصول کیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آج نیب اس ضمن میں عدالت میں ٹھوس شواہد پیش کر کے ملزمان کو ان کے غیر قانونی اقدامات اور کیے کی سزا دلا پائے گی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ ملزمان کی ملی بھگت کی اک عجیب اور کرپشن سے لتھڑی ہوئی داستان ہے۔