کیا آرمی ایکٹ میں بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی پر لاگو کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس حسن اظہر رضوی نے سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں کہا ہے کہ دیکھنا چاہتے ہیں کیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیے گئے یا نہیں؟پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی پرلاگو کیا جاسکتا ہے؟
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی ، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کونسے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اور کیوں ہوئے ؟ اپنے دلائل منگل تک مکمل کرلیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آرمی ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پرہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سویلنز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31 ڈی کے تحت آتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سیکشن 31 ڈی تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پراکسانے سے متعلق ہے، فوجی عدالتوں میں کون سا کیس جائے گا یہ دیکھنا ہے۔
وکیل نےبتایا کہ آئین کو معطل کرنے کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 میں ہے جو ہرقانون پرفوقیت رکھتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ مارشل لا کی توثیق کرتی رہی، کیا غیرآئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں؟ جسٹس محمد علی مظہربولے پرویز مشرف کیس میں ججزکے نام دیے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججزکے نام نکال دیے گئے۔
جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ کیا ہم فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کاجائزہ لےسکتے ہیں؟ کیا ہمیں دکھایا جائے گا کہ ٹرائل میں قانون پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟ جسٹس امین الدین نے کہا کہ اگرضرورت ہوئی توعدالت آپ سے ریکارڈ مانگ لے گی، سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہیں جس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے۔
جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیے کہ بینچ سربراہ سے معذرت کے ساتھ ملٹری کورٹس کے فیصلوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، ضابطہ فوجداری میں بھی لکھا توسب ہے لیکن قانون کے مطابق ٹرائل نہ ہونے پر ہی اپیل ہوتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے بتایاکہ موجودہ کیس میں ٹرائل روکے بھی سپریم کورٹ نے تھے اور فیصلے سنانے کی مشروط اجازت بھی سپریم کورٹ نے ہی دی، دیکھنا چاہتے ہیں کیا ملزمان کواپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیے گئے یا نہیں؟ پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہاکہ تمام مقدمات تو نہیں ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھا سکتے ہیں تاہم عدالت شواہد کا میرٹ پرجائزہ نہیں لے سکتی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ ہم کسی سے ذکر نہیں کریں گے لیکن عدالت جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات میں اگست 2023 کو ترمیم کی گئی،کیا بعد میں کی گئی ترامیم کو 9 مئی واقعات پرلاگو کیا جاسکتا ہے؟ عدالت نے سماعت ایک روز کیلئے ملتوی کردی
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس حسن اظہر رضوی نے آرمی ایکٹ نے کہا کہ نے کہاکہ دیے گئے کی گئی
پڑھیں:
9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، سوال ٹرائل کا ہے کہ کہاں ہو گا؟ جسٹس جمال مندوخیل
— فائل فوٹوسپریم کورٹ میں سویلین کے ملٹری کورٹس میں ٹرائلز کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ 9 مئی کا جرم تو ہوا ہے، عدالتی فیصلے میں 9 مئی کے جرم پر کلین چٹ نہیں دی گئی، سوال ٹرائل کا ہے کہ ٹرائل کہاں پر ہو گا؟
انہوں نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے کیسز آرمی کورٹ میں نہیں چلیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہیں، اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہو گا تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا۔
اس موقع پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ احتجاج اور حملے میں فرق ہے، سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، ریاستی املاک پر حملہ اور ریاست کی سیکیورٹی توڑنا سیاسی سرگرمی نہیں۔
فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالیجسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس نکتے پر بھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ 21 جولائی 2023ء کے آرڈر میں صرف 9 مئی کی بات کی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف کیا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی۔
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ پولیس اہلکار کی وردی پھاڑنا جرم ہے، یہاں کور کمانڈر لاہور کا گھر جلایا گیا، ایک دن ایک ہی وقت مختلف جگہوں پر حملے ہوئے، عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا، ماضی میں لوگ شراب خانوں یا گورنر ہاؤس پر احتجاج کرتے تھے، پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مختلف شہروں میں ایک وقت پر حملے ہوئے، جرم سے انکار نہیں ہے۔
’پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہیں ہوا‘جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو ملٹری ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ پارلیمنٹ سب سے سپریم ہے، کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی؟
جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ سپریم کورٹ پر بھی حملہ ہوا وہ بھی سنگین تھا، اسےبھی شامل کریں۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہاں بات 2 ون ڈی ون کی ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کو 8 سے زیادہ ججز نے درست قرار دیا، 21 ویں ترمیم کیس میں اکثریت ججز نے ایف بی علی کیس کو تسلیم کیا ہے۔
آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیس، آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں: عدالتسپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ 9 ججز کا ہے، لیاقت حسین کیس میں ایف بی علی کیس کی توثیق ہوئی، کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی فیصلے پر جوڈیشل ریویو ہونا چاہیے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے دی آرمی ایکٹ کی شقوں پر فیڈریشن کو مکمل سنا ہی نہیں گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 21 ویں ترمیم کیس میں کسی جج نے ایف بی علی کیس پرجوڈیشل نظرِ ثانی کی رائے دی، آرمی ایکٹ کی شقوں پر اٹارنی جنرل کو کیا 27 اے کا نوٹس دیا گیا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی کے نوٹ سے تو لگتا ہے اٹارنی جنرل کو سنا ہی نہیں گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز ٹرائل کے مقدمے کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔