سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس: اگر کوئی آرمی افسر آئین معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے ؟ آئینی بینچ کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس: اگر کوئی آرمی افسر آئین معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے ؟ آئینی بینچ کا سوال WhatsAppFacebookTwitter 0 13 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف اپیل کی سماعت میں آئینی بینچ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کوئی آرمی آفیسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے ؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز میں وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن59(4) کو بھی کالعدم قرار دیا ہے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سویلینزکا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31 ڈی کے تحت آتا ہے، فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے، جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 31 ڈی تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے، فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آئین تو بہت سے ٹربیونلز کی بھی توثیق کرتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہےکہ کون سے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں، مسئلہ یہاں پروسیجر کا ہےکہ ٹرائل کون کرے گا۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل ہی ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ اگر کوئی آرمی افسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے؟ آرمی ایکٹ میں کیا آئین معطل کرنے کی سزا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا آئین کے آرٹیکل 6 میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے، آئین کا آرٹیکل 6 ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے، آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی، کیا غیرآئینی اقدام پر ججزبھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں، اس موقع پرجسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام لیے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیئے گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگرملٹری ٹرائل میں قانون شہادت کی خلاف ورزی ہو تو کیا ہوگا، جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ ہمیں کیسے پتا چلےگا قانون شہادت کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، فیصلہ ہم نےجب دیکھا ہی نہیں تو کیا ہم ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں، اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کےفیصلےموجود ہیں،ق انونی تقاضے پورے نہ ہوں تواعلیٰ عدلیہ جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ملٹری ٹرائل میں شواہد کا معیار کیا تھا، فیلڈکورٹ مارشل میں کیاگواہان پرجرح کی اجازت تھی؟ کیادفاع میں گواہ پیش کرنےکاحق دیا گیا؟
اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 کی شق3 کے فیصلے کے خلاف اپیل زیرسماعت ہے، سپریم کورٹ اپیل میں ٹرائل نہیں دیکھ سکتی، شواہدکے معیار کا جائزہ لینے سے قبل سپریم کورٹ کو اختیار سماعت بھی مدنظر رکھنا ہے، اس پر جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ پھر بھی ہم جائزہ تو لے سکتے ہیں ناں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا احترام کےساتھ کہنا چاہتا ہوں آپ کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت پہلےسویلین عدالتوں میں ٹرائل چلتا تھا، جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم 11اگست 2023میں ہوئی، واقعہ مئی 2023کاہے، کیا قانون کا اطلاق ماضی سے کیا گیا؟ اس پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ جی ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے کہا کہ مناسب ہوگا کل تک اپنے دلائل مکمل کرلیں، کون سے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اورکیوں ہوئے، اسے مختصر رکھیےگا، ججز سے متعلق سوالات ہوئے تو آخر میں اس کو بھی دیکھ لیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سویلینز کےملٹری کورٹ میں ٹرائلز کے خلاف اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف اپیل کی سماعت میں آئینی بینچ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کوئی آرمی آفیسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے ؟
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی جس سلسلے میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز میں وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن59(4) کو بھی کالعدم قرار دیا ہے، اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سویلینزکا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31 ڈی کے تحت آتا ہے، فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے، جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 31 ڈی تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے، فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آئین تو بہت سے ٹربیونلز کی بھی توثیق کرتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہےکہ کون سے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں، مسئلہ یہاں پروسیجر کا ہےکہ ٹرائل کون کرے گا۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل ہی ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ اگر کوئی آرمی افسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے؟ آرمی ایکٹ میں کیا آئین معطل کرنے کی سزا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا آئین کے آرٹیکل 6 میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے، آئین کا آرٹیکل 6 ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے، آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی، کیا غیرآئینی اقدام پر ججزبھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں، اس موقع پرجسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام لیے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیئے گئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگرملٹری ٹرائل میں قانون شہادت کی خلاف ورزی ہو تو کیا ہوگا، جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ ہمیں کیسے پتا چلےگا قانون شہادت کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، فیصلہ ہم نےجب دیکھا ہی نہیں تو کیا ہم ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں، اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کےفیصلےموجود ہیں،ق انونی تقاضے پورے نہ ہوں تواعلیٰ عدلیہ جائزہ لے سکتی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ملٹری ٹرائل میں شواہد کا معیار کیا تھا، فیلڈکورٹ مارشل میں کیاگواہان پرجرح کی اجازت تھی؟ کیادفاع میں گواہ پیش کرنےکاحق دیا گیا؟
اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 کی شق3 کے فیصلے کے خلاف اپیل زیرسماعت ہے، سپریم کورٹ اپیل میں ٹرائل نہیں دیکھ سکتی، شواہدکے معیار کا جائزہ لینے سے قبل سپریم کورٹ کو اختیار سماعت بھی مدنظر رکھنا ہے، اس پر جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ پھر بھی ہم جائزہ تو لے سکتے ہیں ناں؟ خواجہ حارث نے جواب دیا احترام کےساتھ کہنا چاہتا ہوں آپ کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت پہلےسویلین عدالتوں میں ٹرائل چلتا تھا، جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم 11اگست 2023میں ہوئی، واقعہ مئی 2023کاہے، کیا قانون کا اطلاق ماضی سے کیا گیا؟ اس پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ جی ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے کہا کہ مناسب ہوگا کل تک اپنے دلائل مکمل کرلیں، کون سے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اورکیوں ہوئے، اسے مختصر رکھیےگا، ججز سے متعلق سوالات ہوئے تو آخر میں اس کو بھی دیکھ لیں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے سویلینز کےملٹری کورٹ میں ٹرائلز کے خلاف اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ملٹری کورٹ میں ٹرائل کا ملٹری
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سینیارٹی تنازع، سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ سماعت کرے گا
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ کل ساڑھے گیارہ بجے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی سینیارٹی پر ہونے والے تنازع سے متعلق درخواست پر سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ کے سامنے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے، تین ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر اور ٹرانسفر ہونے والے ججوں کو کام سے روکنے کے لیے دائر 7 آئینی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بنچ کل ساڑھے گیارہ بجے سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس صلاح الدین پہنور اور جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کے خلاف مخلتف درخواستیں دائر کی گئی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت پانچ ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججوں کے ٹرانسفر کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی ہے، آئینی درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں اس حوالے سے مجموعی طور پر سات آئینی درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔