اگر کوئی آرمی آفیسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے؟جسٹس مسرت ہلالی کا خواجہ حارث سے استفسار
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ اگر کوئی آرمی آفیسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے؟خواجہ حارث نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 6میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے،آئین کاآرٹیکل 6ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے،آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی،دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4)کو بھی کالعدم قرار دیاہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کااطلاق فوجی افسران پر ہوگا، خواجہ حارث نے کہاکہ سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31ڈی کے تحت آتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ سیکشن 31ڈی توفوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے،خواجہ حارث نے کہاکہ فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے۔
فلم مولاجٹ کے فلمساز سرور بھٹی انتقال کرگئے
جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ آئین تو بہت سے ٹریبونلز کی بھی توثیق کرتا ہے،دیکھنا صرف یہ ہے کہ کون سے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں،مسئلہ یہاں پروسیجر کا ہے کہ ٹرائل کون کرے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا سویلین کاملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہےَخواجہ حارث نے کہاکہ ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل ہی ہوتا ہے،جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اگر کوئی آرمی آفیسر آئین کو معطل کرتا ہے تو کیا سزا ہے؟خواجہ حارث نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 6میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے،آئین کاآرٹیکل 6ہزار قانون پر فوقیت رکھتا ہے،آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی،کیا غیرآئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6کے زمرے میں آتے ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام لئے گئے تھے،سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیئے گئے۔
دنیا کے 7 ممالک سے 52 پاکستانیوں کو بے دخل کر دیا گیا
بعدازاں سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائلز کیخلاف اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس مسرت ہلالی ا ئین کو معطل فوجی عدالتوں ا رمی ایکٹ نے کہاکہ ا کی سزا ہے کرتا ہے ہے جسٹس
پڑھیں:
سویلینز کے ملٹری ٹرائل،’’آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق 9 مئی واقعات پر نہیں ہوسکتا‘‘جسٹس نعیم اختر افغان کے ریمارکس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق نو مئی کے واقعات پر نہیں ہوسکتا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی، بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج بھی دلائل دیئے۔
تحریک انصاف نے حکومت کو اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کردیئے،اہم نقاط سامنے آ گئے
وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے آج بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سیکشن 2 ڈی ون اگر درست قرار پاتا ہے تو نتیجہ کیا ہوگا؟قانون کے سیکشنز درست پائے تو یہ ٹرائل کیخلاف درخواستیں نا قابل سماعت تھیں، ملٹری ٹرائل میں پورا پروسیجر فالو کیا جاتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نے آپ سے ملٹری ٹرائل والے کیسز کا ریکارڈ مانگا تھا، عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلہ ہوا، عدالت کو یہ ریکارڈ دینے سے انکار کر دیا گیا، حکومتی وکیل کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔
آرمی چیف سے بیرسٹر گوہر کی ملاقات، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ساری کہانی سنا دی
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم اگست 2023 میں ہوئی تھی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق نو مئی کے واقعات پر نہیں ہوسکتا۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس بات سے متفق ہوں اطلاق ماضی سے نہیں ہوسکتا، اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس عائشہ ملک کے نوٹ میں لکھا کہ کسی مجسٹریٹ نے فوج کو ملزمان کی حوالگی کی وجوہات پر مبنی حکم نامہ نہیں لکھا، اگر کوئی حکم نامہ ہے تو ریکارڈ پر لے آئیں، اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ حکم نامے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حصہ ہیں کل ان پر روشنی ڈالوں گا۔
این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے سندھ اور بین الاقوامی نمائندوں کا پی ڈی ایم اے ہیڈ آفس کا دورہ
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ایف آئی آرز میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں تھیں، 28 ملزمان کو سزائیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 3 اور 7 کے تحت ہوئیں، ترمیم سے پہلے والا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا تھا اس کا جائزہ لیں گے۔
مزید :