Express News:
2025-04-15@06:46:44 GMT

مذاکرات، ہچکچاہٹ اور سیاسی مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے مذاکرات اور اختلافات کے درمیان متوازن رہتی ہے، لیکن موجودہ سیاسی منظرنامہ انتہائی حساس اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان جاری مذاکرات کے تناظر میں ہونے والا اجلاس بے نتیجہ رہا۔ اہم سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو تحریری صورت میں پیش کرنے سے کیوں گریز کررہی ہے، اور اس ہچکچاہٹ کے پیچھے ممکنہ وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟

تحریری مطالبات ہمیشہ ایک مضبوط دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں، جو بعد میں بطور حوالہ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو شاید یہ خدشہ ہو کہ ان کے تحریری مطالبات کو مستقبل میں ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ان مطالبات کو اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرے، جس سے پی ٹی آئی کے موقف کو نقصان پہنچے۔

پی ٹی آئی کے بنیادی مطالبات میں 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن، سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور مقدمات کے خاتمے جیسی حساس امور شامل ہیں۔ ان مطالبات کو تحریری صورت میں پیش کرنا شاید پارٹی کےلیے مشکل ہو، کیونکہ یہ عوامی اور عدالتی دائرہ کار میں تنازع کا باعث بن سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت اور مذاکراتی ٹیم کے اندر ممکنہ اختلافات بھی اس ہچکچاہٹ کی وجہ ہوسکتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور جیسے رہنما عمران خان کے حوالے سے بنی گالہ منتقلی کی آفر لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر مختلف حلقے مختلف حکمت عملیاں تجویز کر رہے ہیں۔

عمران خان کے مطالبات میں شامل مقدمات کا خاتمہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ اگر واقعی سیاسی کارکنان شرپسندی میں ملوث تھے تو عدالتوں سے ان مقدمات کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی شاید ان نکات پر حکومت کے ساتھ کوئی کمزور مؤقف اپنانا نہیں چاہتی۔

عمران خان کی ممکنہ ہاؤس اریسٹ میں بنی گالہ منتقلی بھی موجودہ مذاکرات کا ایک اہم پہلو ہے۔ ان کی بہن کے مطابق یہ پیشکش علی امین گنڈاپور کے ذریعے پہنچی، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تجویز حکومت کی جانب سے کسی ممکنہ رعایت کا اشارہ ہے یا پارٹی کے اندر کسی نئے فیصلے کا۔ عمران خان کو بنی گالہ میں محدود رکھنے کی پیشکش نہ صرف ان کی ذاتی حفاظت کےلیے ایک اقدام ہوسکتی ہے بلکہ ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی پالیسی پر ہے۔ اس عمل میں دونوں فریقین کو اپنے مؤقف میں نرمی دکھانی ہوگی۔ مذاکرات کے اہم نکات میں 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ، سیاسی قیدیوں کی رہائی، اور مقدمات کا خاتمہ شامل ہیں۔ تاہم، یہ نکات تبھی موثر ثابت ہوں گے جب دونوں فریقین ان پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔

عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ 13 جنوری کو متوقع ہے۔ یہ کیس نہ صرف عمران خان بلکہ پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کےلیے بھی اہم ہے۔ اس مقدمے میں تاخیر کے پیچھے شاید مذاکراتی عمل کے لیے وقت پیدا کرنا ہوسکتا ہے تاکہ دونوں فریقین کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچ سکیں۔

پاکستان اس وقت سنگین اقتصادی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ مذاکرات کی ناکامی ملک کو مزید انتشار کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ دونوں فریقین کو ہٹ دھرمی ترک کرکے ملکی مفاد کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ موجودہ حالات میں ایک قابل قبول معاہدے پر پہنچنا ہی سیاسی استحکام اور اقتصادی بحالی کا راستہ ہموار کرسکتا ہے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اعتماد کی بحالی کےلیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ اس کے بغیر مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ فوج، عدلیہ، اور دیگر ادارے مذاکرات میں غیر جانبدار رہ کر ایک سہولت کار کا کردار ادا کریں تو سیاسی بحران کو کم کیا جا سکتا ہے۔ عوام کی جانب سے دونوں فریقین پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں فریقین کو اپنی اپنی ہچکچاہٹ اور تحفظات کو پس پشت ڈال کر مل بیٹھنا ہوگا۔ مذاکرات کی کامیابی کےلیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کو واضح طور پر تحریری شکل میں پیش کرے، اور حکومت ان مطالبات کو سنجیدگی سے لے۔ یہ وقت ہٹ دھرمی کا نہیں بلکہ اتحاد اور سمجھوتے کا ہے تاکہ ملک کو سیاسی انتشار سے بچایا جا سکے۔

موجودہ حالات میں کوئی بھی فیصلہ یا معاہدہ، چاہے وہ کتنا ہی نامکمل کیوں نہ ہو، ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے ایک اہم قدم ہوسکتا ہے۔
 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ٹی آئی کے مطالبات کو کے درمیان حکومت اور ملک کو

پڑھیں:

اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبا کی نگرانی سے انکار، ہارورڈ یونیورسٹی کی  2.3 ارب ڈالر کی امداد بند

واشنگٹن: امریکا کی معروف اور بااثر ہارورڈ یونیورسٹی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے متنازع مطالبات ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد وفاقی حکومت نے یونیورسٹی کی 2.3 ارب ڈالر کی امداد منجمد کر دی ہے۔

امریکی محکمہ تعلیم کے مطابق، ہارورڈ کی 2.2 ارب ڈالر کی گرانٹس اور 60 ملین ڈالر کے معاہدے روک دیے گئے ہیں۔ اس اقدام سے ملک کی سب سے امیر یونیورسٹی اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان ایک نیا تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

جمعے کے روز ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کو ایک خط بھیجا جس میں کہا گیا کہ وہ طلبہ اور اساتذہ کے اختیارات محدود کرے، بیرونِ ملک سے آئے طلبہ کی خلاف ورزیاں رپورٹ کرے اور ہر شعبے پر نگرانی کے لیے بیرونی ادارہ مقرر کرے۔

تاہم ہارورڈ یونیورسٹی نے ان مطالبات کو غیر آئینی اور قانونی اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔

ہارورڈ کے قائم مقام صدر ایلن گاربر نے کہا: “کسی حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ نجی ادارے کو بتائے کہ وہ کیا پڑھائے، کن موضوعات پر تحقیق کرے یا کس کو داخلہ دے۔”

یاد رہے کہ مارچ میں ٹرمپ انتظامیہ نے یہود مخالف رویے روکنے میں ناکامی پر ہارورڈ کی 8.7 ارب ڈالر کی ممکنہ گرانٹس کا بھی جائزہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

 

متعلقہ مضامین

  • ہارورڈ یونیورسٹی کا ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار
  • ٹرمپ انتظامیہ کے مطالبات ماننے سے انکار پر ہارورڈ یونیورسٹی کے فنڈز منجمد
  • اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبا کی نگرانی سے انکار، ہارورڈ یونیورسٹی کی  2.3 ارب ڈالر کی امداد بند
  • مستونگ، بی این پی کی آل پارٹیز کانفرنس، 9 مطالبات پیش کئے گئے
  • حکومت سندھ کی بے حسی؛ گریس مارکس کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار، طلبہ کا مستقبل داؤ
  • ٹیرف جنگ کا مستقبل کیا ہے؟
  • سیاسی جدوجہد کا مقصد مذاکرات ہی ہوتے ہیں، سلمان اکرم راجا
  • اختر مینگل کا دھرتنے کے مقام پر کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ
  • اختر مینگل نے مطالبات کی منظوری تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا: راحیلہ درانی
  • شیخ رشید کا اہم بیان : مذاکرات جاری ہیں مگر تفصیلات سیاسی جماعتیں ہی بتا سکتی ہیں