Express News:
2025-01-18@19:39:50 GMT

آسٹریلوی بلے باز اسٹیو اسمتھ کا اگلا ہدف کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

کراچی:

آسٹریلوی بلے باز اسٹیو اسمتھ نے 2028 اولمپکس میں شرکت کو ہدف بنا لیا، وہ ٹی 20 فارمیٹ کی بدولت کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں شریک ہونے کی امید رکھتے ہیں۔

اسٹیو اسمتھ نے حال ہی میں بگ بیش میں سنچری بنا کر واپسی کی ہے، وہ گزشتہ برس آسٹریلیا کی جانب سے ٹی 20 میں جگہ نہیں بنا سکے تھے۔

انہوں نے گزشتہ دن پرتھ اسکورچرز کے خلاف سڈنی سکسرز کی جانب سے 64 بالز پر 121 کی ناقابل شکست اننگز کھیلی۔

آسٹریلوی بیٹر 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں شرکت کی آرزو رکھتے ہیں، جہاں ایک صدی بعد کرکٹ کی اولمپکس میں واپسی ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

’’ساؤتھ چائنا سی‘‘ سے متصل ممالک کی کواڈ میں عدم شرکت کی وجوہات

فلپائن نے حال ہی میں چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنوبی چین کے سمندر میں واقع متنازع جزیروں پر فلپائنی ماہی گیروں کو ہراساں کر رہا ہے۔ چین نے اس تناؤ کے دوران اپنے سب سے بڑے کوسٹ گارڈ جہاز کو فلپائن کے سمندری علاقے میں بھیجا ہے، جسے فلپائنی حکام نے ’’مانسٹر شپ‘‘ قرار دیا ہے۔ اس اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کیا ہے۔ فلپائن کے لیے، جو امریکا کا اہم اتحادی ہے، اب یہ کشیدگی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، خصوصاً اس وقت جب چینی جہاز فلپائن کے خصوصی اقتصادی زون (EEZ) میں داخل ہو چکے ہیں۔ فلپائن نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے جہاز کو واپس بلائے، کیونکہ یہ جہاز فلپائنی ماہی گیروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ تاہم، چین نے اپنے اقدامات کو قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ علاقہ چینی حدود میں واقع ہے۔ واضح رہے کہ چین کا ساؤتھ چائنا سی کے 900 کلومیٹر پر مشتمل حدود پر یہ دعویٰ ہے کہ وہ چینی حدود میں آتی ہیں اور اسے سفارتی زبان میں نائن ڈیش لائن کہا جاتا ہے۔ اس منظر نامے میں جاپان کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ جاپان بھی جنوبی چین کے سمندر کے تنازعات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ جاپان کے لیے، جو چین کے ساتھ علاقائی اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات رکھتا ہے، جنوبی چین کے سمندر میں کشیدگی کا بڑھنا تشویش کا باعث ہے۔

جاپان نے نہ صرف اپنے اتحادیوں کے ساتھ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے خلاف کھل کر اپنی مخالفت کی ہے، بلکہ کواڈ (QUAD) کے پلیٹ فارم کے ذریعے چین کے اثر رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ کواڈ میں جاپان، امریکا، بھارت اور آسٹریلیا شامل ہیں، اور یہ گروپ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری اور اقتصادی سرگرمیوں کیخلاف ایک تزویراتی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ اس معاملے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس سمندری علاقے سے متصل دیگر ممالک جن میں فلپائن بھی شامل ہے نے جنوبی چین کے سمندر پر چین کے ساتھ تنازعات رکھنے کے باوجود کواڈ (QUAD) اتحاد کا حصہ بننے سے گریز کیا ہے، حالانکہ فلپائن امریکا کا اہم اتحادی ہے اور جنوبی چین کے سمندر میں چین کے ساتھ تنازعے میں براہِ راست ملوث ہونے کے باوجود فلپائن نے اپنی خارجہ پالیسی میں متوازن رویہ اختیار کرتے ہوئے چین کے ساتھ تنازعات کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی بھی ایسے اتحاد میں شمولیت سے گریز کیا ہے جسے چین مخالف سمجھا جائے۔ تاہم، فلپائن امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے (Mutual Defense Treaty) میں شامل ہے۔ فلپائن کے علاوہ دیگر ممالک ویتنام، ملیشیا، برونائی، اور انڈونیشیا بھی کواڈ میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ چین کے ساتھ اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو متاثر کرنا نہیں چاہتے۔ ان کی ترجیح یہ ہے کہ ان تنازعات کو سفارتی ذرائع سے حل کیا جائے اور کسی بھی بڑی طاقت کے ساتھ مکمل وابستگی سے بچا جائے۔

تزویراتی ماہرین کی رائے میں ان ممالک کی کواڈ میں عدم شرکت کی مخصوص وجوہات میں ان ممالک کا چین پر اقتصادی انحصار بھی ہے، ان ممالک کی معیشتیں بڑی حد تک چین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر انحصار کرتی ہیں۔ مثلاً ویتنام چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس کے علاوہ ملیشیا چین میں بڑے سرمایہ کاروں میں شامل ہے۔ مزید برآں برونائی کی معیشت کا زیادہ تر انحصار چین سے تیل و گیس کی خریداری پر ہے اور انڈونیشیا بھی چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ چنانچہ کواڈ میں شمولیت سے چین کے ساتھ ان کے تجارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا علاقائی قیادت کا دعویٰ کرتا ہے اور کسی اتحاد کے بجائے آزادانہ پالیسی اختیار کرتا ہے۔

یہ ممالک عموماً غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی بھی بڑی طاقت کے ساتھ کھلے تنازعے سے بچا جا سکے۔ آسیان ممالک کی رکنیت انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات رکھیں۔ دوسری جانب ان ممالک کو یہ خدشہ بھی ہے کہ کواڈ میں شامل ہونے سے خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور چین کی جانب سے جوابی کارروائی کی صورت میں معاشی پابندیاں یا فوجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق کواڈ میں عدم شرکت کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ممالک اپنے داخلی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، جیسے کہ ویتنام کمیونسٹ حکومت کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے اندرونی ترقی پر زور دیتا ہے۔ دوسری جانب ملیشیا کی توجہ اپنی معاشی اصلاحات کی جانب مبذول ہے، اور برونائی اپنی توانائی کی صنعت کو مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ان ممالک کی کواڈ میں عدم شرکت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ کواڈ کی طویل المدتی حکمت عملی پر بھی شکوک و شبہات رکھتے ہیں، انہیں یہ خدشہ ہے کہ کواڈ امریکا کی قیادت میں کام کر رہا ہے اور اس کا مقصد خطے میں چین کو دبانا ہے، جو ان ممالک کے لیے غیر مستحکم ثابت ہو سکتا ہے۔ خطے میں امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ چین اور ان ممالک کے درمیان بات چیت جاری رہے، اور کواڈ اپنی حکمت عملی کو مزید جامع اور خطے کی ضروریات کے مطابق بنائے۔ کواڈ میں شامل نہ ہونے کی وجوہات ایک طرف ان ممالک کی اقتصادی وابستگی اور غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کی ترجیح ہیں، تو دوسری طرف یہ ممالک اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ خطے میں امن و استحکام برقرار رہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریبات چار روز جاری رہیں گی
  • ہیم ٹیکسٹائل میں 65ممالک کے 3000نمائش کنندگان کی شرکت
  • استنبول نمائش میں شرکت کا تجربہ انتہائی خوشگوار رہا
  • ٹرمپ حلف برداری: چینی نائب صدر کی شرکت کے اعلان کو تجزیہ کار غیر معمولی کیوں قرار دے رہے ہیں؟
  • شاہد آفریدی کی ارشد ندیم سے جیولین تھرو سیکھنے کی ویڈیو وائرل
  • ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کاواشنگٹن میں اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کیساتھ ملاقات کے موقع پر فوٹو
  • ’’ساؤتھ چائنا سی‘‘ سے متصل ممالک کی کواڈ میں عدم شرکت کی وجوہات
  • ٹرمپ کو سزا دلوانے کے لیے کافی ثبوت تھے، خصوصی وکیل کا دعویٰ
  • حزب اللہ کے حامی امام کا ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا اعلان
  • بچوں سے زیادتی ایک کمیونٹی یا مذہب کا مسئلہ نہیں، جمائما گولڈ اسمتھ