پی ٹی آئی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کی بات جب چلی تو میں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ اگر ان مذاکرات کو کامیاب ہونا ہے اور اس سے تحریک انصاف نے اپنی سیاست کے لیے کوئی آسانیاں پیدا کرنی ہیں تو پھر اس کی شرط یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے ٹوئٹر اکائونٹ کے ساتھ ساتھ اپنے پارٹی کے سوشل میڈیا کو خاص طور پر فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملوں سے روکناپڑے گا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ نہ عمران خان خاموش رہ سکے نہ ہی اُن کا سوشل میڈیا رکا۔ اُن کا ٹوئٹر اکائونٹ اپنی پرانی ڈگر پر ہی چلا اور اُن کے ایک ٹوئٹ نے مذاکرات کے ماحول اور اس کے مستقبل کے بارے میں سنگین شکوک و شہبات پیدا کر دیے ہیں۔خان صاحب نے جب مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا دی تو پھر ایسے جارحانہ ٹوئٹ اور بیانات دینے کی کیا ضرورت تھی۔
یہ تو کسی عام شخص کو بھی معلوم ہے کہ اگر عمران خان فوج اور اُس کی اعلیٰ قیادت کے حوالے سے اپنا رویہ نہیں بدلتے تو پھر مذاکرات کا نتیجہ نہیں نکل سکتا لیکن اس کے باوجود عمران خان نہیں رکے۔
تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات نہیں ہو رہی جس کا حکومتی کمیٹی نے اُن سے وعدہ کیا تھا۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ حکومت تو بے بس ہے، اس کے تو اختیار میں ہے ہی کچھ نہیں۔
اس پر حکومتی کمیٹی کے ایک اہم رکن کا کہنا تھا کہ حکومت کے اختیار میں جو کچھ ہے یہ معاملہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔ جب حقیقت یہی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسے مذاکرات کی کامیابی کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف فوج سے اپنی لڑائی کو ختم کریں۔
اسٹیبلشمنٹ کتنی طاقت ور ہے یا اس کا موجودہ حکومت یا ماضی کی حکومتوں پر کتنا اثرورسوخ رہا یہ سب کو معلوم ہے۔ یہ بھی سب مانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک ہائبرڈ نظام چل رہا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کلیدی ہے۔ تو اس کے باوجود عمران خان کیوں ایک ایسے عمل کا حصہ بن رہے ہیں جس سے ہائبرڈ نظام ہی مضبوط ہو رہا ہے اور سیاستدانوں کیلئے اسپیس کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
پہلے تو خان صاحب اپنے سیاسی حریفوں سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ کہتے تھے بات تو صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی ہو گی کیوں کہ موجودہ حکومت تو محض کٹھ پتلی ہے۔ اب جب کٹھ پتلیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ پر حملے جاری رکھ کر کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔
یا تو عمران خان اپنے اُس غصے پر قابو پانے پر مکمل طور پر بے بس ہیں جس نے اُنہیں اور اُن کی سیاسی جماعت کو اس حال پر پہنچادیا یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر وہ فوج کو اپنے حق میں جھکا سکتے ہیں تو یہ تجربہ تو اُنہوں نے پچھلے دو ڈھائی سال سے کر لیا اور اس سے اُن کا نقصان ہی نقصان ہوا۔ اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اتنا آگے جا سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے ناراض ہو جائے جس کا فائدہ تحریک کو ہو سکتا ہے تو ایسا بھی کچھ نہیں ہونے والا۔
خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تحریک انصاف کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنے ماضی بالخصوص گزشتہ دو ڈھائی سال کی الزامات، انتشار، جلائو گھیرائو ، فوج سے ٹکرائو، ملکی معیشت پر حملوں کی منفی سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے لیے پولیٹکل اسپیس پیدا کرے۔
اس منفی سیاست نے سب سے بڑا نقصان تحریک انصاف کا ہی کیا اور عمران خان کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنا۔اب بھی موقع ہے کہ عمران خان اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کریں۔
اگر وہ خاموش ہوتے ہیں تو مذاکرات سے تحریک انصاف اور عمران خان کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مذاکرات کا جوبھی نتیجہ نکلے گا اور تحریک انصاف اور عمران خان کو اگر کوئی رعایت ملے گی تواس میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ضرور شامل ہو گی۔
اس لیے ضروری کہ عمران خان اور تحریک انصاف اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی سیاست کے مستقبل کے لیے رستہ ہموار کریں۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اور تحریک انصاف کہ عمران خان کے ساتھ کے لیے ہیں تو ہیں کہ اور اس
پڑھیں:
حکومت سے مذاکرات ختم، مگر پاکستان کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوسکتی ہے، شیخ وقاص اکرم
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان و رکن قومی اسمبلی شیخ وقاص اکرم کہتے ہیں کہ ‘غیر سنجیدہ’ حکومتی کمیٹی سے مذاکرات مکمل طور پر ختم ہیں جبکہ اگر اسٹیبلشمنٹ سے ہوتے ہیں تو کسی ڈیل کے لیے نہیں پاکستان کے مستقبل کے لیے کریں گے۔
پشاور میں وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں شیخ وقاص اکرم نے پی ٹی آئی حکومت مذاکرات، پی ٹی آئی امور اور موجودہ سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
حکومتی کمیٹی غیر سنجیدہ تھی
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما نے پی ٹی آئی اور حکومت مذاکرات کو ختم کرنے کا ذمہ دار حکومت اور حکومتی کمیٹی کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی غیر سنجیدہ تھی اور غیر سنجیدگی بے اختیار ہونے کی بھی علامت ہے۔ ‘کمیٹی پی ٹی آئی ممبران کو جیل میں عمران خان سے ایک ملاقات نہیں کرا سکی، مذاکرات کیا کرے گی۔’
یہ بھی پڑھیےوقاص اکرم نے قیادت کے بغیر احتجاج کے لیے نہ نکلنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کو بیوقوف قرار دے دیا
انہوں نے کہا کہ صوبے میں وزیر اعلیٰ ان کا، آئی جی پولیس اور وزیر جیل خانہ جات ان کا، پھر بھی خان سے ملاقات نہیں کرا سکے۔ پی ٹی آئی نے مذاکرات صرف حکومتی کمیٹی اور حکومتی غیر سنجیدگی کی وجہ سے ختم کیے نہ کہ عدالتوں سے سزا اور سیاسی کیسز کی وجہ سے۔
‘جس دن مذاکرات ہو رہے تھے، اسی دن خان صاحب اور بشریٰ بی بی کو سزا ہوئی۔ ہم نے پھر بھی مذاکرات کا عمل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اور انہیں سزاؤں سے مشروط نہیں کیا۔’
شیخ وقاص اکرم نے واضح کیا کہ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے کوئی رابطے نہیں ہیں اور نہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی رابطے ہو رہے ہیں۔
‘اس وقت مذاکرات ختم ہیں۔ کسی کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو رہے نہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی کا رابطہ ہے۔’
اسٹیبلشمنٹ سے بات پاکستان کی مستقبل کے لیے ہو سکتی ہے
شیخ وقاص اکرم نے بتایا کہ اس وقت پی ٹی آئی احتجاج کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کی جماعت میں تمام فیصلے عمران خان کی مرضی اور مشاورت سے ہوتے ہیں۔ اگر مذاکرات ہوئے بھی تو عمران خان کی مرضی یا اجازت سے ہی ہوں گے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ با اختیار حلقوں سے مذاکرات کی گنجائش ہے۔اگر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوئے تو کسی ڈیل کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی مستقبل کے لیے کریں گے۔
‘ اسٹیبلشمنٹ سے بات کے لیے پہلے عمران خان سے مشاورت ہو گی۔ ان کی اس حوالے سے واضح ہدایت ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے تو کسی قسم کی ڈیل کے لیے بلکہ پاکستان کی مستقبل کے لیے کریں گے۔’
ہم خیال اور دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے جاری ہیں
شیخ وقاص اکرم نے بتایا کہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی فعال اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ہم اسمبلی میں اور باہر احتجاج کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے تمام اپوزیشن اور ہم خیال سیاسی جماعتوں سے رابطے جاری ہیں۔ اور اس حوالے مولانا فضل الرحمان سے بھی رابطے ہیں۔
یہ بھی پڑھیےلوگوں نے فرض کرلیا کہ شاید پی ٹی آئی حکومت کے سامنے لیٹ گئی ہے، شیخ وقاص اکرم
انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کی کوشش ہے کہ اپوزیشن ایک پیج پر ہو۔ اس مقصد کے لیے فضل الرحمان سے رابطے کی ذمہ داری اسد قیصر کو دی گئی ہے۔
‘ہم تو ان کے پاس جائیں گے وہ آتے ہیں یا نہیں یہ ان کا فیصلہ ہے۔ 26 ویں ترمیم کے لیے بھی ان کے پاس گئے تھے۔’
آٹھ فروری کو کیا دوبارہ اسلام آباد دھرنا ہوگا؟
شیخ وقاص اکرم نے بتایا کہ ان کی جماعت اس وقت آٹھ فروری کے لیے بھر پور تیاری کر رہی ہے اور خان صاحب کی ہدایت کے مطابق احتجاج ہوگا۔آٹھ فروری کو بڑا جلسہ ہوگا جبکہ تمام اضلاع اور بڑے شہروں میں مظاہرے ہوں گے۔
‘آٹھ فروری کو اسلام آباد کی جانب مارچ یا دھرنا نہیں ہوگا، خیبرپختونخوا میں بڑا جلسہ ہو گا، جبکہ باقی تمام شہروں میں مظاہرے ہوں گے۔’
انہوں نے کہا خیبر پختونخوا کے نئے صدر جنید اکبر خان جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان کی جماعت احتجاج کر رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا تحریک کے لیے بڑی قربانیاں دینا پڑتی ہیں اور ان کی جماعت اور رہنما بھی قربانی دے رہے ہیں لیکن اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔
’ہم حقیقی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور حقیقی آزادی ایک دن میں نہیں مل سکتی ہے۔‘
اسلام آباد احتجاج کے لیے پنجاب سے آنا آسان نہیں
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما نے پی ٹی آئی مظاہروں اور مارچ کے دوران پنجاب سے ورکرز کے نہ نکلنے کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ ہر احتجاج پہ پنجاب سے ورکرز اور رہنما نکلے ہیں ‘یہ کہنا کہ پنجاب سے لوگ نہیں آئے زیادتی ہے، ہاں یہ مانتا ہوں کہ وہاں سے کم نکلے۔‘
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ آٹھ فروری کے بعد خیبر پختونخوا میں حکومت بننے کے بعد مشکلات ختم ہوئیں جبکہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں ان کو اب بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ گھروں میں چھاپے معمول کی بات ہے۔ گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا سے اسلام آباد کے لیے نکلنا بہت آسان ہے۔گرفتاری کا ڈر نہیں ہوتا، تیاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن پنجاب میں اتنا آسان نہیں ہوتا۔ خیبر پختونخوا سے اسلام آباد جانے کے لیے ایک کٹی پہاڑی کراس کرنا ہوتی ہے پنجاب سے آتے وقت 7 اضلاع، پل، اور جگہ جگہ پولیس کا سامنا ہوتا ہے۔
مکمل انٹرویو اس ویڈیو میں
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی شیخ وقاص اکرم