Daily Mumtaz:
2025-04-15@08:00:37 GMT

پی ٹی آئی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

پی ٹی آئی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ

حکومت اور تحریک انصاف کے مذاکرات کی بات جب چلی تو میں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ اگر ان مذاکرات کو کامیاب ہونا ہے اور اس سے تحریک انصاف نے اپنی سیاست کے لیے کوئی آسانیاں پیدا کرنی ہیں تو پھر اس کی شرط یہ ہے کہ عمران خان کو اپنے ٹوئٹر اکائونٹ کے ساتھ ساتھ اپنے پارٹی کے سوشل میڈیا کو خاص طور پر فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملوں سے روکناپڑے گا۔

لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ نہ عمران خان خاموش رہ سکے نہ ہی اُن کا سوشل میڈیا رکا۔ اُن کا ٹوئٹر اکائونٹ اپنی پرانی ڈگر پر ہی چلا اور اُن کے ایک ٹوئٹ نے مذاکرات کے ماحول اور اس کے مستقبل کے بارے میں سنگین شکوک و شہبات پیدا کر دیے ہیں۔خان صاحب نے جب مذاکرات کے لیے کمیٹی بنا دی تو پھر ایسے جارحانہ ٹوئٹ اور بیانات دینے کی کیا ضرورت تھی۔

یہ تو کسی عام شخص کو بھی معلوم ہے کہ اگر عمران خان فوج اور اُس کی اعلیٰ قیادت کے حوالے سے اپنا رویہ نہیں بدلتے تو پھر مذاکرات کا نتیجہ نہیں نکل سکتا لیکن اس کے باوجود عمران خان نہیں رکے۔

تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات نہیں ہو رہی جس کا حکومتی کمیٹی نے اُن سے وعدہ کیا تھا۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ حکومت تو بے بس ہے، اس کے تو اختیار میں ہے ہی کچھ نہیں۔

اس پر حکومتی کمیٹی کے ایک اہم رکن کا کہنا تھا کہ حکومت کے اختیار میں جو کچھ ہے یہ معاملہ کسی سے ڈھکاچھپا نہیں۔ جب حقیقت یہی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسے مذاکرات کی کامیابی کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف فوج سے اپنی لڑائی کو ختم کریں۔

اسٹیبلشمنٹ کتنی طاقت ور ہے یا اس کا موجودہ حکومت یا ماضی کی حکومتوں پر کتنا اثرورسوخ رہا یہ سب کو معلوم ہے۔ یہ بھی سب مانتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک ہائبرڈ نظام چل رہا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کلیدی ہے۔ تو اس کے باوجود عمران خان کیوں ایک ایسے عمل کا حصہ بن رہے ہیں جس سے ہائبرڈ نظام ہی مضبوط ہو رہا ہے اور سیاستدانوں کیلئے اسپیس کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

پہلے تو خان صاحب اپنے سیاسی حریفوں سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ کہتے تھے بات تو صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی ہو گی کیوں کہ موجودہ حکومت تو محض کٹھ پتلی ہے۔ اب جب کٹھ پتلیوں کے ساتھ بیٹھے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ پر حملے جاری رکھ کر کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔

یا تو عمران خان اپنے اُس غصے پر قابو پانے پر مکمل طور پر بے بس ہیں جس نے اُنہیں اور اُن کی سیاسی جماعت کو اس حال پر پہنچادیا یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر وہ فوج کو اپنے حق میں جھکا سکتے ہیں تو یہ تجربہ تو اُنہوں نے پچھلے دو ڈھائی سال سے کر لیا اور اس سے اُن کا نقصان ہی نقصان ہوا۔ اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اتنا آگے جا سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت سے ناراض ہو جائے جس کا فائدہ تحریک کو ہو سکتا ہے تو ایسا بھی کچھ نہیں ہونے والا۔

خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تحریک انصاف کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنے ماضی بالخصوص گزشتہ دو ڈھائی سال کی الزامات، انتشار، جلائو گھیرائو ، فوج سے ٹکرائو، ملکی معیشت پر حملوں کی منفی سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے لیے پولیٹکل اسپیس پیدا کرے۔

اس منفی سیاست نے سب سے بڑا نقصان تحریک انصاف کا ہی کیا اور عمران خان کے لیے مشکلات میں اضافے کا باعث بنا۔اب بھی موقع ہے کہ عمران خان اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کریں۔

اگر وہ خاموش ہوتے ہیں تو مذاکرات سے تحریک انصاف اور عمران خان کو ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مذاکرات کا جوبھی نتیجہ نکلے گا اور تحریک انصاف اور عمران خان کو اگر کوئی رعایت ملے گی تواس میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی ضرور شامل ہو گی۔

اس لیے ضروری کہ عمران خان اور تحریک انصاف اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی سیاست کے مستقبل کے لیے رستہ ہموار کریں۔
انصار عباسی

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اور تحریک انصاف کہ عمران خان کے ساتھ کے لیے ہیں تو ہیں کہ اور اس

پڑھیں:

اگر اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے ، بیرسٹر گوہر

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے اور اگر رابطہ بحال ہو اور ایک دن بھی مذاکرات ہوں تو معاملات حل ہو سکتے ہیں۔

 سماء ٹی وی کے پروگرام  میں گفتگو کرتے ہوئے  بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سیاسی مسائل کا سیاسی حل ڈھونڈنا ضروری ہے اور پارٹی نے مذاکرات کے لیے ہمیشہ کوششیں کیں لیکن کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے کئی بار بردباری کا مظاہرہ کیا، نشان چھینے جانے اور مینڈیٹ چوری ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپنا کردار ادا کیا، بانی پی ٹی آئی نے بارہا مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی نے شبلی فراز، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب کو مذاکرات کا اختیار دیا جبکہ محمود اچکزئی کو بھی اپنے پلیٹ فارم سے بات چلانے کی ہدایت کی لیکن 26 نومبرکے بعد بنائی گئی کمیٹی بھی کوئی حل نہ نکال سکی۔

امریکی اراکین کانگریس کا وزیر داخلہ محسن نقوی کے ہمراہ کرتار پور راہداری وگوردوارہ صاحب کا دورہ، زیرو پوائنٹ پر گفتگو

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے واضح کیا کہ وہ مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ اپنے لیے نہیں بلکہ جمہوریت اور ایوان کی مضبوطی کے لیے بات چیت کے خواہشمند ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کی خاطر بات چیت ہونی چاہیے لیکن فی الحال کوئی ایسی پیش رفت نہیں ہو رہی۔انہوں نے انکشاف کیا کہ 26 نومبر سے قبل اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ ضرور ہوا تھا لیکن پریکٹیکلی مذاکرات شروع نہ ہو سکے، اگر رابطہ جاری رہتا تو دو سے تین ماہ میں کوئی حل نکل سکتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے آخری ملاقات امن و امان کے حوالے سے ہوئی تھی لیکن اس سے بھی کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔

نوجوان نسل کیلئے کھیلوں کافروغ ناگزیر ہے، ایوب زکوڑی

مزید :

متعلقہ مضامین

  • مائنز منرلز بل بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر پاس نہیں ہوگا، شیخ وقاص اکرم
  • امریکی کانگریس کے وفد کی اہم ملاقاتیں
  • اگر اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے ، بیرسٹر گوہر
  • اسٹیبلشمنٹ رابطہ کرتی ہے تو مذاکرات کے لیے جائیں گے، بیرسٹر گوہر
  • کل عمران خان سے اہل خانہ کی ملاقات کا دن ہے، سلمان اکرام راجہ کا ٹویٹ
  • ہری پور میں پی ٹی آئی کا ورکرز کنونشن: عمران خان کی رہائی کے لئے ہر کال پر لبیک کہیں گے:عمر ایوب
  • تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا نیا لائحہ عمل: عمران خان سے ملاقات صرف منظور شدہ فہرست کے ذریعے ممکن
  • پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے ،گرینڈ اپوزیشن الائنس کامعاملہ پھرلٹک گیا
  • تحریک انصاف آج بھی کسی ڈیل کی متلاشی نہیں، رؤف حسن
  • اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ انگیج ہیں، ہماری آؤٹ لائن ہے مذاکرات بیک چینل رکھنا چاہیے، رہنما پی ٹی آئی