محمد احسن راجہ … گور پیا کوئی ہور
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
’’پاکستان میری ماں ہی تو ہے، دھرتی ماں جس نے مجھے شناخت دی ہے۔ پاکستان کو ہر وطن پر فوقیت ہے۔ مجھے عظمتوں کی یہ سر زمین بخدا اپنی رگوں میں دوڑنے والے خون سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘ مادر وطن کی محبت سے سرشار یہ چند قیمتی سطریں مرحوم محمد احسن راجہ کی ہیں جو انہوں نے اپنے سفرنامے ’’ہمہ یاراں ہاورڈ‘‘ کے دیباچے کے آخر میں 2 دسمبر 2005ء کو تحریر کی تھیں۔ قارئین! ہمارے ہاں یہ خیال عام ہے کہ اعلیٰ بیورو کریسی میں دین دار اور محب وطن لوگوں کا قحط ہے۔ ممکن ہے اس میں کسی حد تک صداقت بھی ہو لیکن وہ لوگ جو مرحوم محمد احسن راجہ صاحب کو ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ یقینا میری اس بات کی گواہی دیں گے کہ حکومت پاکستان کے اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے ہمارے یہ دوست ایک ایسے دین دار، محب وطن، قابل، ذہین اور شاندار انسان تھے جن کے لیے بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے ’’جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ / آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں‘‘۔ ہمارے ہاں یوں تو بے شمار خرابیاں ہیں لیکن ان میں خرابیوں میں ایک انتہائی بُری اور بدنما خرابی یہ ہے کہ اول تو ہمارے ہاں اچھے، قابل اور محب وطن لوگوں کا شدید قحط ہے اور اگر ہمیں خوش قسمتی سے ایسا کوئی قیمتی شخص میسر آ جائے تو ہم اس کی ایسی قدر نہیں کرتے جس کا وہ اصل حق دار ہوتا ہے۔ سابق وفاقی سیکرٹری محمد احسن راجہ اپنی دیگر خوبیوں کے ساتھ پنجابی، اردو اور انگریزی زبان کے اول درجے کے ایک ایسے ہی ادیب، سفرنامہ نگار اور ناول نویس ہیں جنہیں میری دانست میں اُن کی زندگی میں وہ ادبی مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ خاص طور پر پنجابی زبان میں اُن کا ناول ’’اڈیک‘‘ ایک ایسا اچھوتا کارنامہ ہے جسے پنجابی ناول نگاری کا شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ پنجابی میں ناول نگاری کی تاریخ کتنی پرانی ہے اور اب تک اس میں کتنے اچھے اور بڑے ناول لکھے گئے ہیں۔ مگر یہ بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جب بھی پنجابی زبان و ادب میں تقسیم کے موضوع پر لکھے گئے چند بڑے ناولوں کی بات ہو گئی تو اُن میں اپنے پلاٹ، کرداروں اور خالص زبان و بیان کے حوالے سے ایک بڑا اور اہم ناول محمد احسن راجہ صاحب کا لکھا ہوا پنجابی ناول ’’اڈیک‘‘ ضرور ہو گا۔ ضرورت ہے کہ اس ناول کو شاہ مکھی کے ساتھ گور مکھی میں بھی شائع کیا جائے تا کہ یہ زیادہ سے زیادہ لوگ تک پہنچ سکے۔ راجہ صاحب اس ناول کی ڈرامائی تشکیل میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور اپنے عہدے اور اثر و رسوخ کے باعث اُن کے لیے یہ کوئی بڑا کام بھی نہیں تھا مگر اپنی اصول پسندی کی وجہ سے وہ اس کو اپنا ذاتی کام سمجھ کر کسی سے نہ کہہ سکے جس کی وجہ سے اُن کا یہ خواب اُدھورا رہ گیا۔ محمد احسن راجہ تہذیب و شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں سے مزین اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے والے ایک ایسے ہی بااصول اور خاندانی شخص تھے۔آج مادہ پرستی کے اس دور میں جبکہ لوگوں کی اکثریت کوئی بھی تعلق یا رشتہ بنانے سے پہلے اسے نفع نقصان کے تراوز میں تولتی ہے وہاں محمد احسن راجہ صاحب جیسے بامروت، ہمدرد اور وضع دار لوگ اب شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں راجہ صاحب جیسے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حسنِ سیرت کے ساتھ حُسن صورت سے بھی نوازا ہو۔ محمد احسن راجہ سے میری پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب وہ وفاقی سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے ایک لائیو انٹرویو کے لیے ایف ایم 101 ریڈیو پاکستان لاہور تشریف لائے تھے۔ میں اُس وقت وہاں پروڈیوسر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ یہ ایک رسمی سا انٹرویو تھا جس کے بعد ہمارے اس وقت کے انچارج خورشید احمد ملک صاحب نے راجہ صاحب کو چائے کے لیے اپنے کمرے میں روک لیا تو پروٹوکول کا تقاضا نبھاتے ہوئے مجھے بھی وہاں بیٹھنا پڑا۔ چائے پر راجہ صاحب سے کچھ غیر رسمی گفتگو ہوئی تو یہ بھید کھلا کہ آپ ایک بڑے سرکاری افسر ہونے کے ساتھ لکھاری بھی ہیں اور آپ کی تین چار کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ سچی بات ہے یہ جان کر بھی مجھے کوئی خاص اعتبار نہیں آیا اور میں نے سوچا کہ آج کل کے دیگر بڑے بڑے افسروں کی طرح راجہ صاحب بھی شاید کوئی شوقین قسم کے افسر ہیں جنہوں نے کسی اور شوق کے بجائے ’’کمپنی‘‘ کی مشہوری کے لیے لکھنے لکھانے کا شوق پالا ہوا ہے۔ مگر میری یہ بدگمانی اُس وقت باقاعدہ شرمندگی میں بدل گئی جب کچھ عرصہ بعد مجھے ان کا سفرنامہ ’’ہمہ یاراں ہاورڈ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا ’’گھر کا رستہ بھول گیا‘‘ کے بعد یہ اُن کا دوسرا سفرنامہ تھا جس میں راجہ صاحب نے ایک سرکاری کورس کے سلسلے میں امریکہ کے سفر اور ہاورڈ میں اپنے قیام کی روداد بڑی خوبصورتی سے بیان کی ہے۔ دوران سفر انہوں نے وطن سے اپنی محبت کو جس انداز میں بیان کیا ہے اسے پڑھتے ہوئے قاری بھی اُن کے ساتھ وطن کی محبت میں پوری طرح ڈوب جاتا ہے۔ جو لوگ راجہ صاحب کو ذاتی طور پر نہیں جانتے ’’ہمہ یاراں ہاورڈ‘‘ کی ان اختتامی لائنوں سے ان کو بھی راجہ صاحب کی وطن سے بے پناہ محبت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ ’’ہم اٹلانٹک اور سات سمندروں سے دور چاند ستاروں کی اس خوبصورت سرزمین کی طرف بڑھ رہے تھے جو جنت نظیر ہے۔ جس کی خاک میں لعل و جواہر ہیں، جس کی کوکھ میں محبت کی حرارت ہے جو میری اپنی ہے، جو میرا وجود ہے جو میری پہچان ہے جو میرا چاند سا پاکستان ہے‘‘۔ سچی بات ہے یہ سفرنامے پڑھنے کے بعد میری یہ غلط فہمی پوری طرح دور ہو گئی کہ محمد احسن راجہ جی پُر تعیش کمروں اور بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھنے والے وہ اعلیٰ سرکاری افسر ہیں جو کھاتے تو پاکستان کا ہیں لیکن گن انگلستان اور امریکہ کے گاتے ہیں۔ راجہ صاحب سے دوچار ملاقاتیں اور ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اپنی گفتگو اور تحریر میں ایک محب وطن، درد مند اور شائستہ دکھائی دینے والے محمد احسن راجہ حقیقت میں بھی ایسے ہی اصلی اور خالص انسان ہیں۔ بغیر کسی بناوٹ کے اندر باہر سے یکساں خوبصورت کسی مصلحت اور منافقت کے بغیر اپنے دین، وطن اور شاندار روایات و اقدار سے جُڑے ہوئے پیارے انسان۔ یہ دنیا دارالفنا ہے ہر بندے کو ایک نہ ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ راجہ صاحب بھی حکم خداوندی کے تحت اپنے حصے کی زندگی گزار کر اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ مگر پتا نہیں مجھے آج بھی یہ احساس کیوں ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان اسی طرح موجود ہیں جیسے اپنی زندگی میں تھے۔ آپ جیسے بے لوث لوگ اس جہانِ فانی سے گزر بھی جائیں تو اپنے اعلیٰ اخلاقی رویوں اور پُر خلوص محبتوں کی وجہ سے دلوں میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو انہیں مرنے کے بعد بھی زندہ رکھتا ہے۔ بابا بلھے شاہ ؒ نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ کہا ہے ’’بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور‘‘۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے ساتھ ایسے ہی کے لیے کے بعد
پڑھیں:
بھولا ہوا ستارہ: ظہور احمد راجہ کا سفر
ظہور احمد راجہ، ایک ایسا نام جو کبھی ہندوستانی اور پاکستانی سنیما کی دنیا میں گونجتا تھا، مگر رفتہ رفتہ دھندلا گیا ہے۔ تاہم فلم انڈسٹری میں ان کی خدمات بے مثال رہیں۔
وہ ایک اداکار، ہدایت کار، گلوکار اور پروڈکشن ہیڈ تھے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ فوج میں جائیں لیکن وہ بمبئی فلم انڈسٹری کی طرف بھاگے۔ وہ نہ صرف راجہ عباسی تھے، بلکہ بالی ووڈ فلم انڈسٹری کے راجہ جانی تھے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیمایبٹ آباد ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں لورہ جو اب تحصیل ہے، میں پیدا ہونے والے ظہور احمد راجہ عباسی قبیلہ سے تعلق رکھنے تھے۔ یہ قبیلہ آج بھی بےحد مقبول ہے۔ ان کے والد پرانے بنی محلہ راولپنڈی میں ایک پولیس انسپکٹر تھے، وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ہندوستان کے دہرہ دون میں فوج کی تعلیم حاصل کرے۔ تاہم نوجوان ظہور کی دوسری خواہشات تھیں۔ وہ فلموں میں قسمت آزمانے کے لیے بھاگ کر بمبئی (ممبئی) چلے گئے۔
مشہور سوشل ورکر جواد اللہ کے مطابق اپنے والد کے گھر سے فرار ہونے سے پہلے ظہور راولپنڈی کے مشہور گورڈن کالج کے طالب علم تھے، جہاں انہیں ایک مقبول ڈرامہ اداکار کے طور پر پہچان ملی۔
ایک کثیر جہتی کیریئرظہور احمد راجہ کی فنون لطیفہ سے محبت نے انہیں مختلف تخلیقی راستے تلاش کرنے پر مجبور کیا۔ وہ فلم انڈسٹری میں ایک ہمہ جہتی شخصیت بن گئے، جس نے ہندوستانی اور پاکستانی سنیما پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کے قابل ذکر کاموں میں شامل ہیں:
اداکاریانہوں نے مختلف فلموں میں اداکاری کی، اکثر ولن کے کردار ادا کیے جو ایک اداکار کے طور پر ان کی استعداد کو ظاہر کرتے تھے۔ ان کی چند قابل ذکر فلموں میں شامل ہیں:
انمول گھری (1946)، خونی کتار (1931)، فریبی ڈاکو (1931)، اسٹیٹ ایکسپریس (1938) اور چمڑے کا چہرہ عرف فرزند وطن (1939)شامل ہیں۔
گلوکاری
راجہ کی گلوکاری کی صلاحیتوں کو ان کی فلموں میں بھی نمایاں کیا گیا، جس سے ان کی فنی حد کو مزید دکھایا گیا۔
فلم سازیانہوں نے فلم سازی کے مختلف پہلوؤں پر نت نئے طریقے آزمائے، جس سے انڈسٹری پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے۔ بطور فلمساز ان کی چند قابل ذکر فلموں میں شامل ہیں:
جہاد (1950) اور خیبر میل شامل ہیں۔
پروڈکشن ہاؤس کا مالکراجہ نے فلم انڈسٹری میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرتے ہوئے اور آنے والی نسلوں کے لیے راہ ہموار کرتے ہوئے اپنا پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا قائم کیا۔ تاہم اس کی مزید تفصیلات نہیں مل سکیں ۔
ذاتی زندگیبمبئی میں راجہ نے خوبصورت اداکارہ رادھا رانی سے شادی کی۔ تاہم، پاکستان کے قیام کے بعد وہ ہندوستان چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے، جب کہ ان کی اہلیہ نے ہندوستان میں رہنے کا انتخاب کیا۔
راجہ کو کراچی، لاہور اور ملتان میں جائیدادوں کی پیشکش کی گئی، لیکن انہوں نے ان کی پرواہ نہیں کی، اور بعد میں ان کے بھتیجے افتخار عباسی کے مطابق حکومت نے الاٹمنٹ منسوخ کر دی۔
راجہ نے بعد میں لاہور میں مینا شوری سے شادی کی، لیکن یہ شادی چند ماہ بعد ہی ختم ہوگئی۔ اس نے فن لینڈ کی ایک خاتون اور بعد میں انگلینڈ کی ایک خاتون سے شادی بھی کی، جن سے اس کے دو بیٹے تھے، جو انگلینڈ میں ہی رہ رہے ہیں۔
افتخار عباسی کے مطابق راجہ اکثر لندن پر واقع اپنی رہائش گاہ سے ان کی فیملی سے ملنےآ جاتے تھے۔ مگر بعد میں جب وہ اپنے انگریز فیملی کے ساتھ رمز کیٹ رہنے لگے تو رابطے منقطع ہو گئے۔ ایک اور بھتیجے پپو جمیل نے انکشاف کیا کہ راجہ کا انتقال 1993 میں لندن کے اسپتال میں ہوا، مگر اس کی خبر بہت دیر سے ان کے عزیزوں کو ملی۔ پپو کے مطابق آخری وقت وہ اپنی برطانیہ والی فیملی کے ساتھ رہے۔
میراثظہور احمد راجہ کا شاندار سفر خواہشمند فنکاروں کے لیے ایک تحریک کا کام کرتا ہے۔ ہندوستانی اور پاکستانی سنیما میں ان کی شراکتیں منائی جاتی رہیں، اور ان کی میراث خطے کے بھرپور ثقافتی ورثے کا ایک لازمی حصہ بنی ہوئی ہے۔ ان کے انتقال کے باوجود اس کا کام سامعین کو محظوظ اور متاثر کرتا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کی میراث آنے والی نسلوں تک برقرار رہے۔
روزنامہ دی نیوز کے ممتاز صحافی سید کوثر نقوی کا کہنا ہے کہ ہم اپنی اہم شخصیات کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ تاریخی سیاسی سماجی مذہبی تلاش کریں اور کم از کم کچھ سڑکوں یا پلوں کو ان کے ناموں سے منسوب کریں، تاکہ نئی نسل کو تاریخی لوگوں کا پتہ چل سکے۔
سید کوثر نقوی نے تحصیل میئر کو مشورہ دیا کہ وہ کسی ایک گلی یا کسی عمارت یا پل کا نام راجہ ظہور عباسی کے نام پر رکھیں۔ تحصیل میئر لورہ افتخار عباسی کا کہنا ہے کہ لورہ تاریخ کے سچے، موتیوں سے بھرا پڑا ہے۔
انہوں نے تمام پرانی تاریخی شخصیات کی تلاش کے لیے مقامی لوگوں کی ایک کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا اور ان کی تفصیلات اکٹھی کر سکیں، تاکہ تحصیل کی کچھ عمارتیں یا سڑکیں ان کے ناموں سے رکھ سکیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔