Nai Baat:
2025-04-28@23:09:18 GMT

مشرق و مغرب کا عروج!

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

مشرق و مغرب کا عروج!

ہم اس وقت اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور اکیسویں صدی مغرب کی صدی کہلاتی ہے۔ مغربی طاقتیں پچھلی تین چار صدیوں سے دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔ مغرب کا یہ عروج انسانیت اور خود زمینی سیارے کے لیے کیا تباہی لا سکتا ہے اس کے لیے آپ یہ رپورٹ پڑھیں۔ حال ہی میں معروف جریدے Food Nature میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں دنیا میں ایٹمی جنگ کی صورت میں ممکنہ تباہی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو کمپیوٹر سیمولیشن (Simulations) کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والی تابکاری، حدت اور دھماکے کی شدت اور اس سے پیدا ہونے والی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ رپورٹ کی تیار ی کیلئے تصوراتی طور پر 750 کلو ٹن طاقت کے بم کے حملے کو بنیاد بنایا گیا اور یہ بم ناگا ساکی پر گرائے جانے والے بم سے تین گنا زیادہ طاقت کا حامل ہو گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا میں ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو 6 ارب 70 کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور خوراک کی ترسیل کا سار انظام تباہ و برباد ہو جائے گا۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کے اکثر حصوں میں قحط جیسی صور تحال پیدا ہو جائے گی۔ جنگ میں براہ راست شریک ہونے والے ممالک مثلاً امریکہ، یورپ، روس، جنوبی ایشیا کے ممالک کے ستر فیصد آبادی تباہ ہو جائے گی۔ جنوبی امریکہ، آسٹریلیا اور کئی چھوٹے خطے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو نسبتاً بہتر طور پر سہہ پائیں گے کیونکہ ان ممالک کی زراعت زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔ ارجنٹائن، برازیل، یوراگوئے، پیراگوئے، آسٹریلیا، آئس لینڈ اور عمان زراعت کے معاملے میں مستحکم ممالک ہیں اس لیے ایٹمی جنگ کی صورت میں یہ ممالک عالمی بحران کے باوجود اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل رہیں گے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں لائیو سٹاک پر انحصار کرنے والا غذائی نظام دو طرح کے حالات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اول یہ کہ مویشی ہلاک نہیں ہوتے اور غذائی نظام کام کرتا رہتا ہے۔ دوم یہ کہ پہلے سال دنیا کے آدھے مویشی ہلاک ہو جائیں گے اور آدھے مویشی انسانی خوراک کے کام آئیں گے۔ جنگ اگر دوسرے سال میں داخل ہو گئی تو لوگوں کو کم ترین غذائیت کے ساتھ زندہ رہنا پڑے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین جگہ گھر کا وہ کمرہ ہو گا جو دروازے کھڑکیوں سے دور کسی کونے میں ہو گا۔ یا ایسی خندق اور گہرا گھڑا جو کسی مناسب جگہ پر ہو اور شدید دھماکے اور شدید آندھی سے تحفظ دے سکے۔ رپورٹ کے مطابق ایٹمی جنگ کی صورت میں بعض علاقے ایسے ہیں جو جغرافیائی اعتبار سے اپنی الگ تھلگ حیثیت کی وجہ سے نسبتاً محفوظ رہیں گے۔ مثلاً انٹار کٹیکا ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین مقام ہو گا۔ یہ دنیا کے آخری کنارے پر واقع ہے اور یہ انتہائی وسیع و عریض علاقہ ہے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں ہزاروں لوگ یہاں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔ کچھ ممالک جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے محفوظ رہ سکتے ہیں مثلاً آئس لینڈ جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا لیکن یورپ پر ہونے والے حملوں کے کچھ اثرات یہاں بھی پہنچیں گے۔ نیوزی لینڈ بھی غیر جانبدار ملک ہے اور دوسرا یہ کہ یہ پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے ایٹمی اثرات سے محفوظ رہے گا۔ سوئٹزرلینڈ بھی پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے محفوظ رہے گا۔
مغرب پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم ممالک پر تو جارحیت جاری رکھے ہوئے تھا اب چند سال سے مغربی دنیا کے مابین بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ روس یوکرین تنازع کسی بھی وقت کسی بھی بڑے سانحہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ پچھلے دنوں روس کے سابق صدر دمتری میدوف نے کہا تھا کہ روسی میزائل مغربی ممالک کے دفاعی حصار کو چکمہ دے کر آناً فاناً یورپی شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر ان میزائلوں کے وار ہیڈ ایٹمی ہوئے تو یورپ اس نقصان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان میزائلوں کو مار گرانا یورپ کے جدید ترین دفاعی نظام کیلئے ممکن نہیں ہو گا اور یہ سارا کھیل چند منٹوں میں مکمل ہو جائیگا۔ روس نے پہلے ہی خبردار کر رکھا ہے کہ اگر روس اور اسکے اتحادیوں کیخلاف روایتی ہتھیاروں سے بڑھ کر کوئی طاقت استعمال کی گئی تو روس اس کے جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ مغرب کی ان حرکتوں کے نتیجے میں اگر ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو اس کے ممکنہ نتائج ہم اور ذکر کر چکے ہیں۔
اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ آج مغرب کے دور عروج میں انسانیت اور یہ زمینی سیارہ تباہی سے صرف چند قدم دور ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ماضی میں جب مسلمان عروج پر تھے تو انہوں نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عالمی سطح پر امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنایا تھا۔ خاص طور پر عباسی خلافت اور عثمانی سلطنت کی مثالیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مسلمانوں کی حکمرانی نے عالمی استحکام کو فروغ بخشا۔ مسلمانوں کے دور عروج میں دنیا کا مجموعی نظام معاشی، سائنسی اور ثقافتی ترقی کی طرف مائل تھا اور انسانوں نے عالمی تجارت، تعلیم، فنون اور علوم میںبے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے برعکس جب مسلمان زوال پذیر ہوئے تو عالمی سطح پر کئی مسائل نے جنم لیا۔ مسلمانوں کے زوال کا ایک بڑا نتیجہ یہ تھا کہ عالمی طاقتوں کے درمیان سیاسی خلا پیدا ہو گیا جس کا فائدہ مغربی طاقتوں نے اٹھایا۔ مغرب نے اپنی اقتصادی، فوجی اور سائنسی طاقت کو فروغ دیا اور عالمی سطح پر تسلط قائم کیا۔ اس تسلط کی بنیاد پر مغربی ممالک نے اپنے مفادات کے لیے جنگوں اور وسائل کا استحصال کیا جس سے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی۔ بیسویں صدی میںمغرب نے عالمی سطح پر 50 سے زائد جنگوں اور تنازعات کو جنم دیا جن میں لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ ان جنگوں کا ایک بڑا حصہ مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ میں تھا جو قدرتی وسائل کی لڑائی اور سیاسی اثر و رسوخ کے لیے لڑی گئیں۔ اگر مغرب کا یہ عروج جاری رہا اور اس عروج کی سرپرستی میں ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میںکتنی بڑی تباہی آ سکتی ہے اس کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں۔ جبکہ ماضی میں مسلمانوں کے دور عروج میں ایسا کوئی عالمی تصادم یا جنگ نہیں ہوئی جو اتنی بڑی تباہی کا سبب بنی ہو بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے عہد عروج میں عالمی سیاست میں توازن، سماج میں امن، علوم و فنون میں ترقی اور زمینی سیارے پر اعتدال قائم رہا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عالمی سطح پر مسلمانوں کے میں ایٹمی پیدا ہو سکتا ہے ہے کہ ا اور یہ گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

افسانوں کا مجموعہ فلسطین اور اہم رسائل (پہلا حصہ)

کئی رسائل اور افسانوں کا مجموعہ ’’ ریزہ ریزہ خدو خال‘‘ کے سحر میں گم ہوں۔ جہاں میرا پسندیدہ موضوع فکشن ہے، اس کے ساتھ ہی سیاست و معاشرت کے مختلف پہلو مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ہماری گھریلو سیاست ہو یا ملکی سیاسی حربے، عوام کو حیرانی و پریشانی میں مبتلا رکھتے ہیں، سیاستدانوں کا روز اپنی چال بدلنا بھی محب وطن پاکستانیوں کو کرب و بلا میں مبتلا کرتا ہے، اسی طرح ملکی و غیر ملکی واقعات و سانحات کا احاطہ ماہنامہ ’’ زاویہ نگاہ‘‘ بڑی مہارت اور منصفانہ رویے کے ساتھ کرتا ہے۔

’’زاویہ نگاہ‘‘ کے چیف ایڈیٹر نصرت مرزا اور ایڈیٹر یوسف راہی ہیں، جو بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔ نصرت مرزا ایک نجی چینل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں کرتے ہیں، بے باک اور نڈر صحافی ہیں، سچی بات کرتے ہوئے وہ کسی ڈر اور خوف کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔

ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق صداقت کی روشنی کی لو کو بڑھانے کے لیے ہمہ وقت پرعزم رہتے ہیں، تازہ شمارہ فروری 2025 میرے سامنے ہے، مارچ اور اپریل کا شاید ایک ساتھ ہی مجھے موصول ہو۔ سب سے پہلے ہم نصرت مرزا کے کالم کی ابتدائی سطور سے قارئین کو متعارف کراتے ہیں۔

اس کا عنوان ہے ’’سیکنڈ ایٹمی اسٹرائیک صلاحیت‘‘ Second Atomic Strike Capability کی اصطلاح دوسرے ایٹمی حملے کی صلاحیت کے لیے استعمال ہوتی ہے جیسے کوئی ملک ایٹمی طاقت تو بن جائے مگر اس کے بعد دوسرے حملے کی صلاحیت موجود نہ ہو تو ایٹمی طاقت بے معنی ہو جاتی ہے، اس لیے کہ دشمن اس کو حملہ کر کے نیست و نابود کر سکتا ہے۔ 

دشمن اس وقت خوف کھاتا ہے جب اس کو یہ معلوم ہو کہ اگر اس نے ایٹمی حملہ کیا تو جواب میں حملہ زدہ ملک میں اگر زمین پر کچھ نہ بچے تو سمندر سے حملہ آور ہو کر اس ملک کو بھی تباہ کرسکتا ہے، اس لیے دشمن کو خوف میں مبتلا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایٹمی ملک کے پاس دوسرے حملے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ اس بات سے سب واقف ہیںکہ گوادرکی بندرگاہ پاکستان کی ملکیت ہے۔

پورا صوبہ ہی پاکستان کا ہے۔ ’’ یوم یکجہتی کشمیر پس منظر اور اہمیت‘‘ سچائی پر مبنی ایک مدلل تحریر ہے، جس کے قلم کار بلال احمد ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ تنازع کشمیرکا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے نکالا جائے۔

نیز یہ کہ کشمیری عوام نے بھارت کی ناپاک جسارت کے تحت بے شمار مظالم سہے ہیں، ان کی عزت و ناموس اور خواتین کی آبرو کو تار تار کیا گیا ہے لیکن وہ اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔ انھوں نے اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ گوکہ جابر حکمرانوں نے کشمیریوں کی روح پر ایسے کاری زخم لگائے ہیں جن کے مندمل ہونے میں صدیوں کا عرصہ درکار ہے۔ مضمون میں شامل نظم سے چند مصرعے:

دنیا کے منصفو! اے دنیا کے منصفو! سلامتی کے ضامنو!

کشمیر کی جلتی وادی میں، بہتے ہوئے خون کا شور سنو!

اب چاہے ہمارے گھر نہ رہیں یا جسم پر اپنے سر نہ رہیں

ہم پھر بھی کہیں گے آزادی، آزادی

کتابی سلسلہ زیست 20 اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ شعر و سخن، افسانے، تراجم اور راقم السطور کا ناول ’’ مٹی کی دنیا‘‘ اشاعت کا خاص حصہ ہے۔ سلمیٰ اعوان قاری کے لیے جانا پہچانا اور معتبر نام ہے، ان کا سفرنامہ ’’تھین آن من اور ریڈ اسکوائر کے موازنوں میں نئے انکشافات‘‘ بھی شامل ہے۔ ’’انتظار حسین کا فن تحریر‘‘ مقالے کے لکھاریوں میں قدوس مرزا اور سلیم صدیقی شامل ہیں، اور جان پامک کی نظر میں ناول کا فن، ڈاکٹر نعمت الحق کا تحریر کردہ مقالہ ہے جو بہت سی اہم معلومات کے در وا کرتا ہے۔

شعر و شاعری اور افسانوں کا حصہ بھی توانا اور پرکیف ہے۔ 420 صفحات کا احاطہ کرنے والا پرچہ ’’زیست‘‘ پاکستان کے علاوہ ہندوستان اور دوسرے ممالک میں بھی اپنی خصوصی شناخت رکھتا ہے۔ ترتیب ڈاکٹر انصار شیخ اور تقسیم کار رنگ ادب پبلی کیشنز، اردو بازار، کراچی اور شہزاد سلطانی۔

’’انشا‘‘ کا شمارہ بھی میری توجہ کا منتظر ہے، میں کئی ہفتوں سے خامہ فرسائی کرنے کی خواہش مند ہوں لیکن وہ خواہش ہی کیا کہ ہر خواہش پر دم نکلے، سہ ماہی ’’انشا‘‘ کے مدیر پروفیسر صفدر علی انشا ہیں۔ 31 سال سے مسلسل شایع ہو رہا ہے، ہمیشہ ہی نت نئی تحریروں سے مزین ہوتا ہے۔

حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے بعد ڈاکٹر اسلم فرخی کا خاکہ نما مضمون پروفیسر حبیب اللہ غضنفر خاصے کی چیز ہے، بے حد دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ 26 صفحات پر مشتمل خاکہ قاری کے لیے ایک اہم دستاویز سے کم نہیں، خواجہ رضی حیدر نے ’’مشاعرے مجرے اور ٹھیکے‘‘ کے عنوان سے مضمون قلم بند کیا ہے اور بانی و مدیر صفدر علی خاں کی سچائی کو دیکھیے کہ انھوں نے مضمون کی پیشانی پر اشاعت مکرر لکھ دیا ہے۔

نئے پڑھنے والوں کو تو مضمون کی سج دھج اور طنز و مزاح کی چاشنی ضرور مسکرانے اور قہقہے لگانے پر مجبورکرے گی اور مقامی شاعرات کی اس محرومی کا بھی احساس ہوگا جس کا ذکر مصنف نے نہایت طمطراق سے کیا ہے بلکہ ہمدردی کے دریا بہا دیے ہیں اور سچی بات کہنے سے بھی نہیں چونکتے۔  لکھتے ہیں اس سال حقیقی و غیر حقیقی عالمی مشاعروں میں نہ فہرست کے مطابق شاعر آئے اور نہ  حیرت کے مطابق شاعرات، شاعروں کے نہ آنے کا تو ایسا ملال نہ ہوا البتہ شاعرات کی کمی ہر طبقے نے محسوس کی۔           (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • سینیٹر علامہ ناصر عباس جعفری کا ملکی سیاست اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر خصوصی انٹرویو
  • لاہور کیلئے اعزاز، نیویارک، لندن، واشنگٹن، برلن، استنبول، پیرس سے زیادہ محفوظ قرار
  • لاہور کے لیے بڑا اعزاز، عالمی ایجنسی نے گلوبل 249 شہروں میں سب سے زیادہ محفوظ قرار دے دیا
  • عالمی برادری کو مل کرمالیاتی ڈھانچے کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف
  • عالمی عدالت میں غزہ پر امدادی ناکہ بندی پر اسرائیل کیخلاف سماعت
  • عالمی میڈیا نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو کوئی خاص کوریج نہیں دی
  • ٹرمپ کا بے سمت طرز حکمرانی
  • افسانوں کا مجموعہ فلسطین اور اہم رسائل (پہلا حصہ)
  • امریکہ کی جانب سے محصولات کا بےجا استعمال  ترقی پذیر ممالک کے لیے سنگین چیلنج ہے، چین 
  • پاکستان، بھارت ایٹمی طاقتیں، حملہ ہوا تو کھلی جنگ ہو گی، دنیا کو فکر مند ہونا چاہئے: خواجہ آصف