ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر نے ایلون مسک کو جنوبی افریقہ جانے کا کیوں کہا؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
’امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں‘ جیسی مقبول تحریک کے اندر تناؤ کے پس منظر میں امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینن نے ایلون مسک کو وائٹ ہاؤس سے ’رن آؤٹ‘ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ایک اطالوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے، اسٹیو بینن نے کہا کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانا اپنا ذاتی مشن بنایا ہے کہ ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے سی ای او ایلون مسک کو ڈونلڈ ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ تک رسائی حاصل نہ ہو، اور ان کے ساتھ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح سلوک کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ایلون مسک کو ہم سیاسی فریق کیوں بنا رہے ہیں؟
’وہ واقعی ایک برا آدمی ہے، بہت برا آدمی ہے، میں نے اس آدمی کو نیچے اتارنا اپنا ذاتی مقصد بنالیا ہے، اس سے پہلے، کیونکہ اس نے پیسہ لگایا، میں اسے برداشت کرنے کے لیے تیار تھا، مگر اب میں مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘
اطالوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اسٹیو بینن نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے قدرتی امریکی شہری ایلون مسک کو اپنی جائے پیدائش واپس چلے جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے اعلیٰ ہنر مند غیر ملکی ٹیک ورکرز کو بھرتی کرنے کے لیے ایچ ون بی ویزا پروگرام کے استعمال کا عوامی طور پر دفاع کیا۔
مزید پڑھیں:پاکستان میں آنے کے بعد اسٹار لنک انٹرنیٹ کے ماہانہ چارجز کیا ہوں گے؟
’ہمارے پاس جنوبی افریقی، زمین پر سب سے زیادہ نسل پرست لوگ، سفید فام جنوبی افریقی کیوں ہیں؟ ہم ان سے امریکا میں کیا ہو رہا ہے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپیس ایکس اسٹیو بینن ایلون مسک ٹیسلا جنوبی افریقہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسپیس ایکس اسٹیو بینن ایلون مسک ٹیسلا جنوبی افریقہ ایلون مسک کو کے لیے
پڑھیں:
امریکا میں ٹک ٹاک پابندی لگائے جانے کا امکان
واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ نے ایک رولنگ میں کہا ہے کہ چین کی سوشل میڈیا وڈیوز تیار کرنے والی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ اس رولنگ نے چین کی عالمگیر شہرت یافتہ ایپ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔
چین کی وڈیو شیئرنگ ایپ پر بھارت میں بھی پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ یہ وڈیو شیئرنگ ایپ دنیا بھر میں انتہائی مقبولیت سے ہم کنار ہے۔ امریکا میں اِس ایپ کو استعمال کرنے والوں کی تعداد کم و بیش 27 کروڑ ہے یعنی ملک کی نصف آبادی اس چینی ایپ کی گِرویدہ ہے۔
امریکی سپریم کورٹ نے ایک قانون کو درست قرار دیا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ دلائل سننے کے بعد امریکی سپریم کورٹ نے رولنگ میں کہا کہ متعلقہ قوانین کے آئینے میں دیکھا جائے تو چین کی وڈیو شیئرنگ ایپ کی بندش کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ گزشتہ منظور کیے جانے والے قانون پر عمل کرنے کی صورت میں اظہارِ رائے کی آزادی کا حق تلف نہیں ہوتا۔ ٹک ٹاک کے حوالے سے جو حقائق بیان کیے گئے ہیں اُن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ایپ کو بند کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور بند نہ کرنے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اس کیس کے حوالے سے کہا تھا کہ ٹک ٹاک چونکہ چین کی ہے اس لیے دونوں ملکوں کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ اس ایپ کے ہاتھوں امریکا کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا استدلال درست ہے کیونکہ چین سے تعلقات میں غیر معمولی نوعیت کی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں۔ سپریم کورٹ کی رولنگ کے بعد ٹک ٹاک پر پابندی لگائے جانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس فیصلے کے تحت اتوار 19 جنوری سے چین کی وڈیو شیئرنگ ایپ پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔