Nai Baat:
2025-04-15@08:06:41 GMT

ایلون مسک اور پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

ایلون مسک اور پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان

ٹیسلا، ایکس کے مالک اور ٹرمپ کے ایڈوائزر ایلون مسک نے گرومنگ گینگز سکینڈل پر برطانوی وزیراعظم کے ساتھ سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے وہ اپنے سوشل میڈیا ہینڈل ایکس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے گرومنگ گینگز سکینڈل پر برطانیہ کی لیبر حکومت پر حملہ آور ہے۔ ایلون مسک نے سوشل میڈیا پر متعدد پوسٹس کیں جس میں برطانوی وزیراعظم پر بچوں سے جنسی زیادتیوں کے مجرموں کے جرائم میں شریک ہونے کا سنگین الزام بھی لگایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایلون مسک نے بچوں کے جنسی استحصال کی تحقیقات کے لیے ایک نیشنل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا۔ اسی سلسلے کو لیکر برطانوی اپوزیشن کنزرویٹو پارٹی نے بھی گرومنگ گینگز سکینڈل کی تحقیقات کے پارلیمینٹ میں آواز اٹھائی اور اس سکینڈل کے حوالے سے نئی نیشنل انکوائری کے لیے کیئر سٹارمر پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تاہم ناکام رہی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایلون مسک پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، ایسا لگتا ہے جیسے ایلون مسک نے برطانوی وزیراعظم کے خلاف ایکس پر ایک کمپین شروع کر رکھی ہے۔ یہ کمپین بظاہر برطانوی وزیراعظم کے خلاف ہے مگر اصل نشانہ پاکستان اور پاکستانی نژاد برطانوی ہیں۔ ایلون مسک کے متنازع بیانات پر کیئر سٹارمر نے بھی سخت ردعمل دیا اور کہا کہ جھوٹ پھیلانے والوں کو متاثرین سے نہیں بلکہ خود میں دلچسپی ہے۔ ارب پتی ایلون مسک اور وزیراعظم کیئر سٹارمر کے درمیان تنازع کی وجہ بننے والا گرومنگ گینگز سکینڈل دراصل ہے کیا؟ دی ٹائمز آف لندن نے 2011 میں 1997 کے بعد سے انگلینڈ کے شمال اور مڈلینڈز میں جرائم پیشہ گروہوں کے ذریعے لڑکیوں کے جنسی استحصال پر تحقیقاتی مضامین شائع کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت کے ایک جاسوس چیف انسپکٹر ایلن ایڈورڈز نے اخبار کو خبر دی کہ ہر کوئی نسلی عنصر کو حل کرنے سے بہت خوفزدہ ہے کیونکہ کسی ایک نسل کا نام لینا ایک مشکل کام تھا۔ مگر اس دوران بچوں سے جنسی زیادتی کے جو کیس رپورٹ ہوئے وہ ’’گرومنگ گینگ‘‘ سکینڈل کے نام سے مشہور ہوئے۔ 2014 میں، شمالی لندن کے قصبے رودرہم میں بچوں سے بدسلوکی اور زیادتی کے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد سرکاری طور پر تحقیقات شروع ہوئیں۔ رودرہم جس کی آبادی دو لاکھ 57 ہزار کے لگ بھگ ہے اس میں ایک ٹرینڈ عام پایا جانے لگا تھا جس میں کم سن بچے و بچیاں شراب کی زیادتی سے مدہوشی کی حالت میں عوامی مقامات پر پائے جاتے۔ والدین کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے پولیس کو آگاہ کیا تاہم پولیس کا رویہ غیر سنجیدہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ زندگی گزارنے کی ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ والدین کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس کے اس رویے سے انہیں شدید مایوسی ہوئی تھی۔ ان گروہوں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ گروہ کا کوئی مرد کسی کمسن بچی کو اپنے جال میں پھنساتا اور اسے شراب نوشی کا عادی بناتا۔ اس کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جاتا اور لڑکی سے مطالبہ کیا جاتا کہ وہ اپنی محبت ثابت کرنے کے لیے اس کے ساتھی دوست سے بھی جنسی تعلق قائم کرے۔ اس طرح ان گروہوں نے 1997 سے لیکر 2013 تک کم از کم 1400 کم سن بچیوں کو جنسی استحصال کیلئے تیار کیا۔ ان متاثرہ بچیوں میں سے کچھ کی عمریں محض 11 سال کے قریب تھیں۔ اس لیے بھی اس کو گرومنگ گینگز کا نام دیا جاتا ہے۔ ان واقعات میں ایک نسل یا مذہب کے لوگوں کو ہی قصور وار ٹھہرایا جا رہا تھا کیونکہ کچھ ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد ان خوفناک وارداتوں میں ملوث پائے گئے تھے۔ تاہم آکسفورڈ اور شمالی قصبوں اولڈھم اور روچڈیل میں 2012 میں درجنوں لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کے مقدمے میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور افغان نژاد مرد شامل تھے جنہیں طویل قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ برطانیہ میں بھی پولیس اتنے اہم معاملہ کو نظر انداز کرتی آئی تھی۔ برطانیہ میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں مسلسل اضافے نے بالآخر حکمرانوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق انگلینڈ میں ہر 13 بالغوں میں سے ایک جنسی زیادتی کا شکار ہوا ہے۔ 2019-20 میں پورے برطانیہ میں پولیس نے بچوں کے خلاف 73 ہزار 518 سے زائد جنسی جرائم کے کیسز ریکارڈ کیے ہیں۔ تاہم ایک دہائی کے بحث و مباحثہ کے بعد جب برطانوی ہوم آفس کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو اس نے ان تمام دعووں کو یکسر غلط ثابت کر دیا جس میں گرومنگ گینگ کا الزام صرف ایک خاص کمیونٹی یا مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد پر لگایا جا رہا تھا۔ ہوم آفس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اس جرائم میں ملوث اکثریت سفید فام (گورے) ہیں جن کی عمریں 30 سال کے درمیان ہیں۔ تہذیب کے دعویدار گورے شاید یہ تصور ہی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ وہ خود بھی اس گھناؤنے کھیل کا اکثریتی حصہ ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ میں زیادہ تر لوگوں کے لیے گرومنگ گینگ اصطلاح کا سادہ سا مطلب پاکستانی نژاد مسلمان مردوں کا سفید فام لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کو زیادتی کا نشانہ بنانا ہے۔ جبکہ نومبر 2023 میں پہلی بار لیبر حکومت نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق جنسی استحصال کرنے والے جرائم کی سزا پانے والوں میں 83 فیصد سفید فام جبکہ 7 فیصد کا تعلق ایشیائی ممالک سے تھا۔ تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایشیائی ممالک میں صرف پاکستان ہی شامل نہیں بلکہ اس میں بھارت، چین، افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال، ایران سمیت کئی ممالک آتے ہیں۔ بچوں کے جنسی استحصال جیسے گھناؤنے جرائم میں گورے، کالے، براؤن سب شامل ہیں تاہم صرف پاکستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانا مذہبی انتہا پسندی کی ہی ایک شکل ہے۔ ایلون مسک اچانک نہ صرف برطانوی سیاست میں گھس گئے ہیں بلکہ اس سکینڈل کی آڑ میں پاکستانی نژاد برطانوی مسلمانوں کو بھی اپنے نشانے پر لے رکھا ہے۔ وہ جو اپنے ایکس ہینڈل پر کہتے آئے ہیں کہ کسی بھی قسم کی نسل پرستی ناقابلِ قبول ہے اس وقت ان کا اپنا طرز عمل اپنے اس دعوے کی نفی ہے۔ برطانیہ کے اداروں کی اپنی تحقیقاتی رپورٹس میں واضح طور پر حقیقت بتا دی گئی ہے اس کے باوجود برطانوی مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنانا برطانیہ کے کثیر القومی معاشرے میں نسل پرستی کی آگ بھڑکانے کے مترادف ہے۔ یہ بات درست ہے کہ برطانیہ میں کم سن بچیوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہے مگر یہ وہاں کی حکومتوں کی نا اہلی ہے کہ وہ اس اہم مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام ہیں۔ ایسے گھناؤنے جرائم کا الزام کسی ایک نسل پر ڈال دینا مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی کسی ایک نسل کو قصور وار ٹھہرا کر اس سنگین مسئلے سے بری الزمہ ہوا جا سکتا ہے۔ جرم صرف جرم ہے جسے کسی نسل یا مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ ایلون مسک کو سوچنا ہو گا کہ سوشل میڈیا ایکس پر ان کے بیانات برطانیہ میں مقیم ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ انہیں نفرت میں اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ جس سے عام شہریوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں۔ دوسری جانب پاکستان کا نام آنا جہاں پا کستانیوں کے لیے پریشان کن ہے وہیں ملک کی بھی بدنامی ہو رہی ہے۔ کیونکہ بھارتی لابی فوری طور پر پاکستان کو اس جرم کا حصہ بنانے کے لیے متحرک ہو گئی ہے۔ ایلون مسک نے کئی بھارتی افراد کے پاکستانی گرومنگ گینگ سے متعلق ٹویٹس کو ری ٹویٹ بھی کیا ہے۔ ایلون مسک کا گرومنگ گینگ سکینڈل کو پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں یا پاکستان کے ساتھ جوڑنا ان کی نسل پرست سوچ کا بھی عکاس ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پاکستانی نژاد برطانوی برطانوی وزیراعظم جنسی استحصال ایلون مسک نے گرومنگ گینگ برطانیہ میں کے ساتھ بچوں کے کے خلاف ایک نسل کے لیے کے بعد

پڑھیں:

بھارت میں جنسی درندے آزاد، 19 سالہ لڑکی سے 6 دن تک 23 افراد کی اجتماعی زیادتی

بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر وارانسی میں ایک 19 سالہ لڑکی کے ساتھ 23 افراد کی 6 دن تک اجتماعی زیادتی کی ہولناک واردات سامنے آئی ہے۔ پولیس کے مطابق 12 نامزد ملزمان میں سے 6 کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ باقی افراد کی گرفتاری کےلیے تلاش جاری ہے۔

بھارتی ذرایع ابلاغ کے مطابق وارانسی کے علاقے لال پور کی رہائشی 19 سالہ لڑکی 29 مارچ کو ایک دوست سے ملنے گئی تھی جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہوگئی تھی۔ گھر والوں نے 4 اپریل کو پولیس میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ اسی دن لڑکی کو پنڈے پور چوراہے پر بدترین حالت میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ 

متاثرہ لڑکی کسی طرح قریبی دوست کے گھر پہنچی جہاں سے اسے گھر پہنچایا گیا۔ بعد ازاں اس نے اپنی والدہ کو پورے واقعے سے آگاہ کیا جس پر پولیس میں شکایت درج کرائی گئی۔

لڑکی کے بیان کے مطابق اس کے ساتھ حقہ بار، ہوٹل، لاج اور گیسٹ ہاؤس میں 6 دن تک 23 مختلف لوگوں نے نشہ دے کر اجتماعی زیادتی کی۔ پولیس نے اس کیس میں 23 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

وارانسی پولیس کے سینئر افسر چندرکانت مینا نے بتایا کہ ابتدائی طور پر نہ تو متاثرہ لڑکی اور نہ ہی اس کے گھر والوں نے جنسی زیادتی کی شکایت درج کرائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اجتماعی زیادتی کی شکایت 6 اپریل کو درج کی گئی‘‘۔

اپنے پارلیمانی حلقے وارانسی پہنچنے پر وزیراعظم نریندر مودی نے پولیس کو واقعے کے ملزمان کے خلاف ’’فوری اور سخت کارروائی‘‘ کا حکم دیا ہے۔ یوپی حکومت کے ترجمان کے مطابق وزیراعظم نے واقعے کے مجرموں کے خلاف سخت ترین کارروائی اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔

لڑکی کی والدہ نے کہا کہ وہ وزیراعظم مودی سے مل کر اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والے سلوک کی داستان سنانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کے ساتھ یہ وحشیانہ حرکت کرنے والوں کو سخت ترین سزا ملے تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی لڑکی کے ساتھ ایسا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے‘‘۔

اس کیس میں بھارتیہ نیایا سنہتا (BNS) کے تحت مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جن میں اجتماعی زیادتی، عورت کی عصمت دری کی کوشش، زہر دے کر نقصان پہنچانے کی کوشش، غلط طور پر روکے رکھنا اور مجرمانہ دھمکیاں شامل ہیں۔

وارانسی کے کمشنر آف پولیس موہت اگروال نے جمعہ کو بتایا کہ معاملے کی تفتیش جاری ہے اور اب تک 12 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ باقی 11 نامعلوم مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کےلیے چھاپے جاری ہیں۔

یہ واقعہ ایک بار پھر ہندوستانی معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ حکام کے فوری ایکشن کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک خواتین کو ایسے وحشیانہ واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا؟

متعلقہ مضامین

  • کانگریس کسی مسلمان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتی، نریندر مودی کی اپوزیشن پر تنقید
  • 2024ء میں بچوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے 7608کیسز رپورٹ ہوئے ، روزانہ کی بنیاد اوسطاً21واقعات رپورٹ
  • گزشتہ برس 7 ہزار 608 بچوں پر تشدد و جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ 
  • اسرائیل کیخلاف جہاد میں حصہ لیں
  • بی جے پی کی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آ گئی؟
  • بی جے پی کی مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آ گئی؟ مغربی بنگال میدانِ جنگ بن گیا
  • پرائیوٹ اسکول پرنسپل کی 9 سالہ طالبہ سے جنسی زیادتی کی کوشش، مقدمہ درج
  • کمسن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے الزام میں  پادری گرفتار 
  • بھارت میں جنسی درندے آزاد، 19 سالہ لڑکی سے 6 دن تک 23 افراد کی اجتماعی زیادتی
  • بھارت میں کتے بھی جنسی زیادتی سے محفوظ نہیں، ریپ کرنے کی ویڈیو سامنے آنے پر ملزم گرفتار