آزاد کشمیر میں بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی شہد کی مکھیوں پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
آزاد کشمیر میں شہد کی مکھیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں، کیونکہ یہاں مکھیوں کو ماحولیاتی مسائل درپیش ہیں، جن میں قدرتی ماحول کی تباہی، جنگلات کی آگ، ماحولیاتی آلودگی، موسمی تبدیلیاں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی شامل ہیں۔
ان تمام عوامل نے شہد کی مکھیوں کے قدرتی ماحول کو متاثر کیا ہے، جس کے باعث ان کی تعداد میں کمی آ رہی ہے ۔ شہد کی مکھیوں کی کمی کے انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
شہد کی مکھیاں نہ صرف شہد پیدا کرتی ہیں بلکہ فصلوں کی پولینیشن میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی کمی کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی آ سکتی ہے۔ خاص طور پر پھلوں اور سبزیوں کی فصلوں پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے، جس سے خوراک کی پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ، مکھیوں کی کمی کی وجہ سے ماحول کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔ مزید تفصیلات اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: شہد کی
پڑھیں:
دوہزار چوبیس چین میں آبادی میں کمی کا مسلسل تیسرا سال
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) عوامی جمہوریہ چین کے دفتر شماریات کی جانب سے جمعہ 17 جنوری کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ چین میں گذشتہ چھ دہائیوں کے دوران آبادی میں اضافے کے بعد 2024ء ایسا مسلسل تیسرا سال تھا، جس میں ملک کی آبادی میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
اس دفتر کے مطابق چین جو کہ 2023ء تک آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب بڑا ملک تھا وہاں 2024ء میں آبادی کی شرح میں کمی آئی ہے۔
اعداد شمار کے مطابق ایک برس پہلے چین کی آبادی 1.410 بلین تھی، 2024ء میں کم ہو کر 1.408 بلین ریکارڈ کی گئی۔آج یکم جنوری کو دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے زیادہ ہو گئی
آبادی میں کمی کی وجوہات
مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ چین کی آبادی میں کمی کی وجہ ملک کی تیزی سے عمر رسیدہ ہوتی آبادی اور پیدائش کی شرح میں مسلسل کمی ہے۔
(جاری ہے)
چین جو کبھی دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک تھا اُسے 2023ء میں بھارت نے پیچھے چھوڑ دیا۔
چین کی 'ون چائلڈ پالیسی‘ کی تاریخ
عوامی جمہوریہ چین میں 1980 کی دہائی میں نافذ کردہ سخت گیر ''ایک بچہ پالیسی‘‘ کو 2016ء میں ختم کر دیا گیا تھا۔ مزید برآں یہ کہ سن 2021 بیجنگ حکومت نے جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دینا شروع کر دی تھی۔ تاہم یہ اقدامات ایک ایسے ملک کی آبادی کی شرح میں گراوٹ کو روک کر اسے اضافے کی طرف لانے میں ناکام رہے جو طویل عرصے سے اپنی افرادی قوت کو ملک کی اقتصادی ترقی کے محرک کے طور پر استعمال کرتا اور اس پر انحصار کرتا رہا ہے۔
چین کی 1.4 بلین آبادی بھی خالی پڑے گھروں کو نہیں بھر سکتی
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ چین میں شرح پیدائش کی کمی کی بڑی وجوہات میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ خواتین کا اعلیٰ تعلیم کی جانب راغب ہونا اور روزگار کی ملکی منڈی میں بڑی تعداد میں ان کا شامل ہونا ہے۔
امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی کے ماہر عمرانیات یون ژاؤ نے اے ایف پی کو بتایا کہ نوجوانوں کے لیے مایوس کن معاشی امکانات کی وجہ سے آبادی میں کمی کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے اور چینی خواتین ''لیبر مارکیٹ میں صنفی امتیاز کا سامنا‘‘ کرتی ہیں۔
چین میں 25 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرنے پر نقد انعام
ایک ریسرچ گروپ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے مطابق، 2035ء تک 60 سال سے زیادہ عمر کے افراد چین کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہوں گے۔
چین کی عمر رسیدہ ہوتی ہوئی آبادی
جمعہ کو جاری کردہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دو ہزار تیئیس میں ریکارڈ کیے جانے والے اعداد وشمارکے مطابق 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کی آبادی 310.31 ملین تک پہنچ چُکی تھی۔
جو ملک کی کُل آبادی کا ایک چوتھائی حصے سے صرف چند فیصد کم ہے اور یہ تعداد 2023 میں تقریباً 297 ملین تھی۔چھ عشروں بعد چین کی آبادی میں کمی
تاہم، اعدادو شمار نے یہ بھی ظاہر کیا کہ چین کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں شرح پیدائش انتہائی کم ہے۔تاہم گذشتہ برس اس میں معمولی سا اضافہ ہوا ہے۔
ک م/ ع ا(اے ایف پی)