کرم کی بندش: شہری مشکلات اور مسئلے کا حل
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
کرم کے علاقے میں حالیہ دھرنے اور اس کے نتیجے میں ٹل تا پاڑا چنار مرکزی شاہراہ کی بندش نے عوام کی زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔ سات روز سے جاری اس تعطل کے باعث نہ صرف آمد و رفت معطل ہے بلکہ روزمرہ استعمال کی اشیا کی قلت بھی پیدا ہو رہی ہے، جس سے شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ مظاہرین اپنے مطالبات کی منظوری تک سڑک کھولنے سے انکار کر رہے ہیں، جبکہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس معاملے کو حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی نظام رک چکا ہے اور ایک مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہو رہا ہے یہ حقیقت ہے کہ مظاہرین کو اپنے مطالبات کے لیے آواز بلند کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن راستے بند کر کے عوام کو مشکلات میں ڈالنا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان فوری اور نتیجہ خیز مذاکرات ضروری ہیں تاکہ مظاہرین کے جائز مطالبات کا حل نکالا جا سکے۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ مذاکرات کے دوران راستوں کو جلد از جلد کھلوانے کے لیے متبادل اقدامات کرے تاکہ عوام کو مزید مشکلات سے بچایا جا سکے۔ شاہراہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سیکورٹی فورسز کو مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ دوبارہ اس قسم کے واقعات پیش نہ آئیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
امریکا کا عربی چینل الحرہ بند، ٹرمپ انتظامیہ نے فنڈنگ روک دی
واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی حکومت کے زیرِ سرپرستی چلنے والے عربی زبان کے ٹی وی چینل "الحرہ" کی فنڈنگ روک دی ہے، جس کے بعد چینل نے نشریات بند کرنے اور بیشتر عملہ فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
"الحرہ" کی بنیاد 2004 میں اس وقت رکھی گئی تھی جب امریکہ نے عراق جنگ کے دوران قطر کے چینل الجزیرہ کی خبروں سے ناراض ہو کر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے لیے یہ چینل شروع کیا۔
یہ فیصلہ ایلون مسک کی قیادت میں کیے جانے والے بجٹ کٹوتیوں کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ مارچ میں ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ تمام سرکاری میڈیا اداروں کی فنڈنگ بند کر دی جائے گی۔
اس سے پہلے وائس آف امریکہ (VOA) بھی اس کٹوتی کا شکار ہو چکا ہے، جہاں ملازمین نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔
اب "الحرہ" روایتی نشریات بند کر دے گا، البتہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر چند درجن افراد کے عملے کے ساتھ کام جاری رکھنے کی کوشش کرے گا۔
یہ چینل 22 ممالک میں ہفتہ وار 30 ملین ناظرین تک پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے، تاہم ہمیشہ سے اسے الجزیرہ، العربیہ اور اسکائی نیوز عربیہ جیسے بڑے چینلز سے سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے۔