Juraat:
2025-01-18@13:10:26 GMT

مجھے کہا گیا آپ آجائیں اور متحدہ سنبھالیں،آفاق احمد

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

مجھے کہا گیا آپ آجائیں اور متحدہ سنبھالیں،آفاق احمد

چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد نے کہا ہے کہ مجھے یہ بھی کہا گیا کہ آپ جائیں اور متحدہ قومی موومنٹ سنبھالیں۔کراچی میں غیر سرکاری ادارے کے تحت منعقدہ تقریب سے خطاب میں آفاق احمد نے کہا کہ قومیت کی شناخت ہر ایک کو ہضم نہیں ہوتی۔انہوں نے کہا کہ مجھے مہاجر نظریے سے دستبردار کرنے کی کوشش کی گئی، میں نے بانی متحدہ کے اقدام کی کھل کر مخالفت کی تھی، مجھے یہ بھی کہا آپ آجائیں متحدہ سنبھالیں۔چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ نے مزید کہا کہ جس طرح پنجابی، پٹھان، سندھی ایک قوم ہیں، اس طرح مہاجر بھی قوم ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہمارے بچوں کے مستقبل سے کھیل رہی ہے ۔کراچی میں انٹرمیڈیٹ کے نتائج پیپلز پارٹی بناتی ہے ، اس شہر کے لاکھوں بچے اپنا مستقبل برباد کر چکے ہیں، این ای ڈی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا وقت گزر گیا ہے ۔آفاق احمد نے یہ بھی کہا کہ ایم ڈی کیٹ کے نتائج دو بار عدالت میں غلط ثابت ہوئے ، پرچے لیک کرنے والوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ہیوی ٹریفک دن میں چلنے کی اجازت نہیں لیکن ٹینکر چلتے ہیں، پورے شہر میں پانی کی سپلائی واٹر لائنوں کے ذریعے ہونی چاہیے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ا فاق احمد نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

ہم جیسوں کے لیے بدلتے رویے تکلیف کا باعث بنتے ہیں ۔ دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور اسی تبدیلی کی زد میں ہمارا کلچر اور سماجی رویے بھی آ چکے ہیں ۔ جوائنٹ فیملی کلچر تیزی سے بدل رہا ہے ۔ اس میں نظریات کی تبدیلی اور عدم برداشت کے ساتھ ساتھ مہنگائی ، چھوٹے گھر اور دیگر وجوہات بھی ہیں ۔ پرائیویسی کے نام پر ہم اتنے تنہا ہوتے جا رہے ہیں کہ خوف آنے لگا ہے ۔ اب ہمارے گلی محلوں میں اجنبی کو آتا جاتا دیکھ کر کوئی الرٹ نہیں ہوتا ، جس کا نقصان بچوں کے اغوا اور زیادتی جیسے واقعات کی صورت سامنے آنے لگا ہے ۔اب محلے کی بہو بیٹی سانجھی نہیں رہی ، محلے کے بزرگ "چاچا جی ” نہیں رہے ، اب انہیں آتا دیکھ کر نہ تو محلے کی کوئی بیٹی سر پر دوپٹہ رکھتی ہے اور نہ ہی گلی کی نکڑ پر کھڑے لڑکے سگریٹ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جنریشن گیپ کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا ہے ۔ گلی محلے کی کرکٹ اور تھڑے کی گپ شپ کو سوشل میڈیا ایپس کھا گئی ہیں ۔ شرم و حیا ہمارے اطوار سے نکل کر دیکھنے والے کی آنکھ تک محدود کر دی گئی ہے ۔ ہمارے جنازے مختصر ہونے لگے ہیں یہاں تک کہ میت کو قبرستان لیجانے کے لیے کندھے کم پڑ گئے ہیں لہذا میت بھی گاڑی میں لیجانا پڑتی ہے۔ تعزیت کے لیے ایک ایس ایم ایس یا فون کال کافی سمجھی جاتی ہے ، بیماری کے لیے تعزیت بھی موبائل فون کی اطلاع تک محدود ہو چکی ہے ۔ سچ کہوں تو آج کے دور میں ہم ہجوم کے درمیان بھی تنہا ہو چکے ہیں۔ مجھے لگنے لگا ہے کہ بہت جلد اولڈ ہومز کی تعداد بڑھنے لگے گی ۔ بچوں کی مصروفیت اور جوائنٹ فیملی سسٹم کی تباہی کی وجہ سے یہ ہماری سوشل مجبوری بن جائے گی ۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے اولڈ ہائوس بن جائیں گے جہاں اخراجات ادا کر کے بڑھاپا گزارا جا سکے گا کیونکہ ہم جس سوشل تنہائی اور پرائیویسی کا شکار ہو رہے ہیں یہ جوانی میں اچھی لگتی ہے لیکن بڑھاپے میں عذاب بن جاتی ہے ۔ یہ تو ہمارے رویے اور کلچر ہیں جس پر ہم جیسے اپنا دل جلانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ بدلتی دنیا کے ساتھ یہ اسی بہائو میں بدلتا رہے گا ۔ دنیا کی تبدیلی ایک قدرتی عمل ہے۔ ہر نسل اپنی پچھلی نسل سے کچھ مختلف ہوتی ہے ۔ ہم اسی کا شکار ہیں ۔ ممکن ہے کسی دور میں احساس ہو تو لوگ واپس پہلی روایات کو اپنانے لگیں ۔ بہرحال اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بھی والدین کہیں نہیں ہیں ۔ اگلے روز عمر چودھری کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ عمر چودھری موٹرسائیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر رہے ہیں ۔ یہ سر پھرے نوجوان موٹر سائیکل پر پاکستان بھر کا سفر کر چکے ہیں اور ویڈیو تصاویر کے ذریعے دنیا بھر کو پاکستان کی خوبصورتی سے آگاہ کرتے ہیں ۔ ان کی بائیک اور ہیلمٹ پر لگے کیمرے سنگلاخ چٹانوں سے برف پوش پہاڑوں تک ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں ۔ عمر چودھری کے برادر نسبتی عدنان یعقوب ٹریفک پولیس میں وارڈن تھے۔ 2018 میں وہ ایک حادثہ میں فوت ہو گئے ۔ عدنان مرحوم کے بوڑھے والد ان کے ساتھ رہتے تھے ۔ جواں بیٹے کی موت نے بوڑھے باپ کی کمر توڑ دی ۔ آج وہی بوڑھا باپ کسمپرسی کی حالت میں ہے ۔ بیٹے کی وفات کے بعد سرکار کے پاس اس بوڑھے باپ کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ یہ صرف ٹریفک پولیس کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ مجموعی طور پر ہمارا قانون ہے جو ہر محکمے میں لاگو ہوتا ہے ۔ ہمارے یہاں جب کوئی سرکاری ملازم فوت ہوتا ہے تو سب سے زیادہ کوریج اس کے بوڑھے والدین کی ہوتی ہے ۔ جذباتی مناظر دکھائے جاتے ہیں ۔ اگر بیٹا فورسز میں ہو تو بوڑھا باپ اس کی میت وصول کرتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بیٹے کی تدفین کے بعد بوڑھے ماں باپ کو کچھ نہیں ملتا ۔ سرکاری و غیر سرکاری طور پر آپ کی فیملی میں صرف بیوی اور بچے شامل ہیں۔ عموماً شوہر کی وفات کے بعد بیوہ اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ شوہر کی تنخواہ یا پنشن اسی کو ملتی ہے ۔ اگر دوسری شادی کر لے تو بچوں کی گارڈین کے طور پر بھی عموماً ہر ماہ ملنے والے پیسے بیوہ کے اکائونٹ میں جاتے ہیں۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے ۔ شریک حیات کے طور پر یہ سب بیوہ کا حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ بوڑھے والدین کا حق کہاں ہے ؟ بڑھاپے میں وہ کمانے کی سکت نہیں رکھتے ۔ جس بیٹے کی تعلیم و تربیت پر انہوں نے سب کچھ لگا دیا وہ فوت ہو گیا ہے ۔ بڑھاپے کا سہارا تو چلا ہی جاتا ہے لیکن سرکار بھی انہیں بے سہارا چھوڑ دیتی ہے۔ پاکستان میں ایسے کئی بوڑھے ہیں جو جوان بیٹے کی وفات کے بعد بے سہارا ہو چکے ہیں ۔ کرایہ کا گھر، ادویات ، خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کے لیے انہیں دوسروں کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ۔ عمر بھر کما کر کھانے اور کھلانے والے کے لیے یہ سب بہت تکلیف دہ ہے۔ اگر حکومت قوانین میں کچھ ترمیم کر لے اور سروس کے دوران وفات پانے والے ملازم کے والدین کا بھی کچھ شیئر رکھ لے تو شاید ان کے دکھ اور مسائل کا کچھ ازالہ ہو جائے گا۔ نجی اداروں کو بھی ایسی ہی کوئی پالیسی بنانی چاہیے ۔ پاکستان میں کئی عدنان یعقوب اپنے والدین کا سہارا تھے لیکن ان کی وفات کے بعد ان کے بوڑھے والدین رل گئے ہیں ۔ہمارے ملک کی دستاویزات میں آپ کی فیملی میں والدین شامل نہیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پھر بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟

متعلقہ مضامین

  • ملاقات میں بانی پی ٹی آئی کو بوسہ دیا اور انہوں نے مجھے گلے لگایا: شیخ رشید
  • بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقت میں کیا باتیں ہوئیں؟ مجھے پتہ ہے: عرفان صدیقی
  • اب سفارش نہیں چلے گی
  • بانی پی ٹی آئی کی رہائی ہی تمام مسائل کا حل ہے، علی محمد خان
  • مجھے ایک ایسے مقدمے میں سزا دینے جا رہے ہیں جس سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا
  • سر ایک چھوٹا سا کام ہے
  • جائیں تو جائیں کہاں؟
  • بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں ؟
  • مجھے نہیں پتہ کب تک بالکل تندرست ہوسکوں گا: صائم ایوب
  • نئے صوبوں سے معاشی، سیاسی اور اقتصادی بہتری آئیگی، ڈاکٹر سلیم حیدر