Jasarat News:
2025-01-18@19:44:29 GMT

محنت کشوں کا نوحہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT

سندھ کے تمام صنعتی علاقوں میں محنت کشوں کو کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ادا نہیں کیے جا رہے۔ اسی طرح حیدرآباد میں قائم بسکٹ فیکٹریاں، فوڈ انڈسٹری، بیکری مالکان، دال مل فیکٹری، موٹرسائیکل فیکٹری اور دیگر شاپنگ سینٹروں کے محنت کشوں کو کم از کم اجرت کے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی بے حسی کی انتہا ہے کہ لیبر قوانین پر عملدرآمد کرنے کے لیے لیبر ڈیپارٹمنٹ کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے لیکن انتہائی دُکھ
کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ کم از کم اجرت کے قانون 37ہزار روپے کوئی ادارہ دینے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے موجودہ شدید مہنگائی کے دور میں محنت کشوں کا دو وقت کا کھانا بھی بمشکل پورا ہو رہا ہے، بعض گھروں میں تو فاقہ کشی کی نوبت ہے، بچے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے گھر وں پر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اسکولوں کی فیسیں اتنی بھاری ہیں کہ محنت
کشوں کو ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بیماری میں بھی علاج معالجہ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوشل سیکورٹی محنت کشوں کو علاج معالجہ کی سہولیات دینے کے بجائے افسران اور ڈاکٹر ز کا عملہ ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے کاہلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کا محنت کش موجودہ حکومت کی محنت کش دشمن پالیسیوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے۔ NLFسندھ مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر سندھ کے تمام محنت کشوں کو اور تمام پرائیوٹ کارخانوں، شاپنگ سینٹروں، پرائیوٹ اسکولوں، دال ملز، موٹر سائیکل فیکٹریوں اور تمام ادارے میں کم از کم اجرت کے قانون پر فوری عمل کروانے میں لیبر ڈیپارٹمنٹ اپنا کردار ادا کرے اور جو ادارہ لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ کرے ان کے چالان لیبر کورٹ میں پیش کیے جائیں تا کہ مالکان کو لیبر قوانین کا علم ہو سکے جب تک جزا اور سزا کا عمل نہیں ہوگا اس وقت تک مالکان محنت کشوں کو حقوق نہیں دیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: محنت کشوں کو

پڑھیں:

سرکاری ملازمین کی تقسیم اور انکی مالی مشکلات

تاج برطانیہ کے عہد میں جن سرکاری شعبہ جات کا قیام عمل میں لایا گیاان میں قابل ذکر ریلوے،آبپاشی،محکمہ پوسٹ ،پولیس ،جنگلات اور انتظامیہ کے محکمہ جات تھے،ان کا مکمل نیٹ ورک تھا،ناقدین کا خیال ہے کہ برصغیر کے وسائل کو برطانیہ منتقل کرنے کے لئے سفری سہولیات کے نام پر1861میں لنڈی کوتل سے راس کٹاری تک ہندوستان کو ریلوے کی وساطت سے ایک لڑی میں پرو دیا،ہر ریلوے سٹیشن پر ملازمین کی رہائش گاہیں تعمیر ہوئیں،زراعت کی ترقی کے لئے برطانوی انجینئرز نے1840کی دہائی میں سندھ کا سب سے بڑا نہری آبپاشی نظام بنایا، نہروں کے ساتھ ساتھ ڈاک بنگلے اور ملازمین کے مکانات بنائے گئے، اسی طرح 1837 میں ہندوستان میں پہلا ڈاک خانہ بنا ،بعد ازاں ملٹری ضرویات پوری کرنے کے لئے ڈاک کا جدید نظام قائم ہوا۔
مذکورہ محکمہ جات میں ملازمت کرنے والے ہزاروں ملازمین کا روزگار ان سے وابستہ تھا، اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے فوج میں بھرتیاں ہوئیں، برصغیر کے جوان جنگیں لڑنے کے کام آئے، برطانوی سرکار آج بھی ان بیوائوں کو پنشن ادا کرتی ہے جن کے شوہروں نے ان میں حصہ لیا ۔ قیام پاکستان کے بعد مذکورہ ادارے ریاست کی ملکیت قرار پائے، ان میں قریباً وہی ضابطے، قانون، دفتری امور رائج العمل ہیںجو سامراج ورثہ چھوڑ گیا تھا،وقت کے ساتھ ساتھ نئے قومی ادارے بھی وجود میں آگئے ہیں،یوں سرکاری ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوئے، ان کی ورکنگ میں بھی سامراجی رنگ نظر آتا ہے۔ملازمتوں میں طبقاتی تقسیم اسی طرح ہے، جس طرح انگریز بہادر چھوڑ کر گیا ، افسر شاہی کا ڈنکہ آج بھی بجتا ہے،پولیس کے رعب ،نخوت میں بھی خاص کمی نہیں آئی ہے،انصاف کا بول بالا ماضی کی طرح اشرافیہ تک محدود ہے۔

سامراج کے چلے جانے کے بعد بھی یہ ملک فلاحی ریاست کا درجہ نہیں پا سکا،سرکاری اداروں میں فرائض منصبی انجام دینے والے ملازمین میں باقاعدہ حد فاصل قائم ہے، جس کوبرقرار رکھنے میں بڑا کردار ارباب اختیار کا ہے، ملازمین کے مابین
صوابدیدی اختیارات ،مراعات، تنخواہوں، الائونس کی ادائیگی نے اس تقسیم کو اور بھی گہرا کر دیا ہے،یہی تفریق وفاقی اور صوبائی ملازمین میں پائی جاتی ہے،اس کا بڑا نقصان یہ ہے کہ عوامی برتائو کے محکمہ جات کے ملازمین اپنی روزی آپ پیدا کرنے میں ماہر ہیں،ان میں اکثر اس فکر سے اب آزاد ہیں کہ تنخواہ کتنی ہے اور کب بڑھے گی،پنشن میں اضافہ ہو گا کہ نہیں،انکے اثاثہ جات نے ان کے بچوں کا مستقبل بھی محفوظ بنا دیا ہے۔ اس ماحول میں اصل پریشانی اس دیانت دار ملازم کو لاحق جو پراگندہ ماحول میں اپنا دامن صاف رکھنے کی کاوش میں مصروف عمل ہے۔

ریاست میں سرکاری ملازمین کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی مراعات، اختیارات، الائونسز، ہائوس رینٹ، تنخواہ میں اضافہ کرنے کے لئے سرکار از خود بے تاب رہتی ہے، کس کے مفادات کس سے وابستہ ہوتے ہیں راوی یہ بتانے سے قاصر ہے، لیکن جہاں ملازمین کی مخصوص کلاس مراعات کی اس ’شفقت‘ سے مستفید ہوتی ہے، وہاں سرکار بھی اپنی مرضی کے فیصلے لے کر شاد ہوتی ہے۔
افسر شاہی کے بارے میں بانی پاکستان نے کہا تھا کہ یہ قوم کے خادم ہیں،ان خادمین کی بھاری بھر مراعات کا بوجھ جہاں قومی خزانہ کو برداشت کرنا پڑتا ہے وہاں سامراجی رویہ سے عوام کو بھی دو چار ہونا پڑتا ہے، یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ اس کلاس کو تو محلات نما گھروں کا ہائوس رینٹ چند ہزار روپے دنیا پڑتا ہے،مگر جو سرکاری گھروں کے مکیں نہیں ، وہاں گریڈ18کے سرکاری ملازم کو مبلغ ساڑھے آٹھ ہزار ہائوس رینٹ اس گرانی میںدے کر سرکارحاتم طائی کی قبرپر لات مارتی ہے۔ وزیر خزانہ نے نجانے یہ کیسے گمان کر رکھا ہے، کہ فیملی کے لئے کرایہ پر گھر اس رقم میں مل جاتا ہے،یہ الائونس تب سے فریز ہے جب محترمہ بی بی شہید کی حکومت تھی ،ملازمین کی غالب تعداد نا انصافیوں کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ہے،کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایجنڈہ کی تکمیل کا راستہ سرکاری ملازمین کی پنشن، لیو ان کیش منٹ اورگریجوٹی میں کٹوتی جیسے اقدامات سے ہوکر گزرتا ہے، اگر سرکاری ملازم فرائض منصبی کی ادائیگی میں عہد شباب گزارنے کے بعد بھی اس قابل بھی نہ رہے کہ اس کے خاندان کو رہنے کے لئے چھت،بچوں کی شادیوں کے لئے روپیہ، پیسہ میسر نہ ہو توہ ماں جیسی ریاست کی محبت کا دعویٰ جھوٹے منہ سے کیسے کرے؟۔
ایک طرف ایلیٹ کلاس سے وابستہ ریٹائرڈ ملازمین ورلڈ ٹور پر نکل کھڑے ہوں، دوسری طرف کارپوریشن کا سیور مین گندگی کے مین ہول میں کام کرتے حفاظتی سامان کی عدم فراہمی پر ابدی نیند سو جائے، اس کے بچے بے آسرا ہو جائیں، ایسا تفاوت کیوں ہے؟ ہمارے وزراء اعظم اور صدور محض چند سال تک پارلیمانی منصب پر فائز رہ کر عمر بھر کی مراعات لیں مگر امریکہ جیسی سپر پاور کے صدور کو ریٹائرڈمنٹ کے بعد جامعات میں پڑھانا اور کتابیں لکھ کر کٹھن زندگی گزارنا پڑے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟مقتدر طبقہ کی مراعات سے آئی ایم ایف نجانے صرف نظر کیوں کرتا ہے اس کا نزلہ ملازمین کی پنشن پر ہی کیوں گرتاہے؟ انشورنس کی رقم ملازمین کو ادا کرنے سے مشروط کیوں نہیں کرتا۔

دیگر ممالک میں پابندیاں عائد کیوں نہیں کرتا جہاں اوورسیز کو گھر، گاڑی،پلاٹ لینے کی لیز پر سہولت بعدازاں ملازم پنشن کا حق دار بنتا ہے وہاں تو ملازمین کو خزانہ پر بوجھ نہیں سمجھا جاتا، کیا یہ درست ہے کہ خرابی ملازمین کو مراعات فراہم کرنے میں نہیں بلکہ ناقص طرز حکومت میں ہے جس کی لاپروائی سے بدعنوانی کا پیسہ مخصوص جیب میں جاتا ہے۔
ارباب اختیار کی نظر سے خلیفہ اولؓ کا وہ قول کیوں اوجھل ہے کہ میری تنخواہ کا پیمانہ مزدور کی اجرت کے مطابق مقرر کیا جائے، سوشلزم کے پیرو کاروں کا کہنا ہے کہ ہوٹل منیجر اورکک کا مالی معاوضہ اس لئے برابر رکھا جاتا تھا کہ بنیادی ضروریات تو دونوں کی یکساں ہیں۔ سرکاری ملازمین کے معاوضہ جات، تنخواہ، پنشن میں تفاوت سامراجی نظام ہی کا تسلسل ہے،جوڈی سی اور بیلدار میں پایا جاتا تھا۔اسے دور کرنے میں نہ تو پیپلز پارٹی کا نظام’’ مساوات‘‘ کام آسکا نہ ہی’’ تبدیلی والے‘‘ کوئی معجزہ دکھا سکے،ووٹ کو عزت دو کے دعویٰ دار ملازمین کو مراعات دینے میں کوئی اچھی شہرت نہیں رکھتے۔ ملک بھر میں مراعات، پنشن، تنخواہوںکے حوالہ سے جبری تقسیم ملازمین کی مالی مشکلات میں اضافہ کا باعث ہے، ملازمین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگرسامراج جیسا سلوک ہی ان کے ساتھ ہونا تھا تو پھر آزادی کسے کہتے ہیں؟۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: کام کے دوران چھت سے گر کر محنت کش جاں بحق
  • مذاکرات کمیٹی ڈرامہ
  • مذاکرات ٹھس، عمران، بشریٰ کرپٹ قرار پا گئے
  • اک سفر جو منزل کی جستجو میں ہے
  • پی ٹی آئی اور خود احتسابی
  • فیصلے میں جج نے بھی کہا کہ پراسیکیوشن اہم دستاویزات اور شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی
  • پرتگال کو 50 ہزار اسکلڈ لیبر کی فوری ضرورت، پاکستانیوں کے لیے کیا مواقع ہیں؟
  • سرکاری ملازمین کی تقسیم اور انکی مالی مشکلات
  • ناقابل اعتبار
  • بیشک اللہ کی پکڑ بڑی دردناک ہے