مہاجروں پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے ، ڈاکٹر سلیم
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
کراچی(جسارت نیوز)مہاجر اتحاد تحریک کے چیئرمین ڈاکٹر سلیم حیدر نے کہا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے مہاجروں کو تعلیم میں پیچھے رکھنے کیلئے نت نئے منصوبے تیار کئے جاتے رہے ہیں جس کا مقصد سندھ کے دیہی علاقوں کے نااہل طلباء کو کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی یونیورسٹیوں میں داخلے دلوانا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ مہاجر نوجوانوںکو تعلیمی عمل سے دور رکھنا ہے۔ جس کیلئے پیپلزپارٹی کی متعصب صوبائی حکومت برسہا برس سے مہاجر دشمن سازشوںمیں مصروف ہے ، سندھ کے تعلیمی بورڈ جنہیں اب براہ راست متعصب دیہاتی سندھ جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سندھ میں 2024ء میں ایم ڈی کیٹ میں جس طرح دھاندلی ہوئی وہ سب کے سامنے ہے۔ اندرون سندھ کے جن طلباء کے دونمبری سے اے ون گریڈ دلوایا گیا ان طلباء کو کراچی کے جعلی ڈومیسائل بنواکر انہیں کراچی کی انجینئرنگ اور میڈیکل یونیورسٹیوں میں داخلے کروائے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم جوکہ مہاجروں کو ہتھیار تھا اور مہاجر ہمیشہ اعلیٰ تعلیم یافتہ قوم کہلاتی تھی اسے ایک منصوبے کے تحت تعلیمی میدان میں بلکل پیچھے کردیا گیا ہے۔ کراچی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سرکاری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلوں سے محروم ہیںاور نجی یونیورسٹیوں میں تعلیم کیلئے ان کے پاس وسائل نہیں اس لئے اب مہاجروں پر تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ کے
پڑھیں:
ایچ ای سی کا بیوروکریٹس کی وائس چانسلر تعیناتی پر وزیراعلی سندھ کو خط
کراچی:ایچ ای سی نے وزیر اعلی سندھ کو خط لکھ دیا جس میں کہا ہے کہ بیورو کریٹس غیر تعلیمی منتظمین ہیں ان کی بحیثیت وائس چانسلر تعیناتی سے جامعات کو نقصان پہنچے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان نے بیورو کریٹس کو غیر تعلیمی منتظمین قرار دیتے ہوئے انہیں وائس چانسلر مقرر کیے جانے کی مخالفت کردی۔
ایچ ای سی نے اس سلسلے میں جامعات کے ایکٹ میں کسی ممکنہ ترمیم کو یونیورسٹیز کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا۔
اس سلسلے میں ایچ ای سی اسلام آباد کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کی جانب سے سندھ کے وزیر اعلی کو باقاعدہ ایک مکتوب لکھا گیا ہے جس میں جامعات میں وائس چانسلر کی آسامی پر اکیڈمیشن کی تقرری پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انتہائی تشویش کے ساتھ یہ بات علم میں آئی ہے کہ صوبہ سندھ ’’سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹی ٹیوٹ لاز ایکٹ 2018 ‘‘ میں ترمیم کی تجویز پر غور کر رہا ہے اس طرح سندھ بھر میں قائم جامعات میں پبلک سیکٹر کے وائس چانسلرز/ریکٹرز کی تقرری کے معیار یا criteria پر نظرثانی کی جا رہی ہے۔
خط کے مطابق صوبائی اسمبلی کی جانب سے قانون سازی کے ذریعے ممکنہ ترمیم اگر منظور ہو جاتی ہے تو بنیادی اہلیت کے معیار میں اہم تبدیلیاں ہوجائیں گی جس کے بعد غیر پی ایچ ڈی بھی وائس چانسلر/انسٹی ٹیوشن کے سربراہ کے قابل احترام عہدے پر انتخاب کے لیے درخواست دے سکیں اور غیر پی ایچ ڈی کی تقرری کے لیے راہ ہموار ہوگی۔
خط کے مطابق اس عمل سے نہ صرف تعلیمی معیارات پر سنگین نتائج ہوں گے بلکہ تعلیمی یا اکیڈمک آزادی اور تنقیدی فکر بھی متاثر ہوں گے اوردوسرے صوبوں/علاقے سبقت لے جائیں گے۔
پانچ نکات پر مشتمل چیئرمین ایچ ای سی کے اس مکتوب میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنے ایکٹ کی بنا پر خود مختار ادارے ہیں اور قانونی حکام کے ذریعے ایکٹ/آئین/ریگولیشنز کے تحت چلتے ہیں اور غیر تعلیمی منتظمین کی ایسی کوئی بھی تقرری جامعات کی تعلیمی سالمیت کو مجروح کرتی ہے۔
خط میں 7 اپریل 2021 کے حکومتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) نے اپنے 44 ویں اجلاس میں طے کیا تھا کہ "ہائر ایجوکیشن کمیشن ملک میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے واحد معیاری قومی ادارہ ہوگا۔"
لہذا ایچ ای سی یہ سفارش کرتا ہے کہ ایسی ترامیم نہ تو اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مفاد میں ہوں اور نہ ہی تعلیمی برادری کے مفادات کے لیے ہوسکتی ہیں لہذا اسے واپس لیا جائے اور اس معاملے پر جاری یا آنے والی کسی بھی کارروائی کو روک دیا جائے اگر ایسی تجاویز کو کمیشن میں وسیع تر مشاورت کے لیے ایچ ای سی کے ساتھ شیئر کیا جائے اور اعلی تعلیم میدان کے وسیع تر مفادات میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے تو یہ سراہا جائے گا۔