ڈھاکا(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانیوں کے لیے ویزا شرائط میں نرمی کے بعد پاکستانی تجارتی وفد 12 سال کے بعد بنگلادیش پہنچ گیا۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عاطف اکرام شیخ کی صدارت میں جانے والے وفد میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 35 سے زاید برآمد کنندگان اور صنعت کار شامل ہیں۔پاکستانی وفد نے بنگلادیشی وزیر تجارت بشیر الدین سے ملاقات کی جبکہ وفد بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس سے بھی ملاقات کرے گا۔تفصیلات کے مطابق پاکستان کے تجارتی وفد نے 12 سال بعد ایف پی سی سی آئی کے صدر کی زیرقیادت بنگلہ دیش کا دورہ کیا جہاں دوطرفہ اقتصادی روابط اور سرمایہ کاری بڑھانے پر زور دیا گیا۔ ایف پی سی سی آئی سے جاری بیان کے مطابق صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ کی زیر قیادت پاکستانی تجارتی وفد نے بنگلہ دیش کے وزیر تجارت شیخ بشیرالدین سے ملاقات کی اور پاکستانی وفد نے دونوں برادر ممالک کے مابین اقتصادی روابط اور سرمایہ کاری
بڑھانے پر زور دیا گیا۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے، آزمائش کے ہر موقع پر بنگلہ دیش کے ساتھ کھڑے ہوں گے، بنگلہ دیشی وزیر تجارت نے پاکستان سے تجارتی تعلقات کو ترجیح دینے کا اعلان کیا ہے۔ سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستانیوں کے لیے ویزا شرائط میں نرمی کا خیر مقدم کرتے ہیں، پاکستانی بزنس کمیونٹی کو لانگ ٹرم ویزے دیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھی بنگلہ دیش کے لیے ویزا شرائط میں نرمی کر دی ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر تجارت شیخ بشیرالدین نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر اقتصادی، معاشی، سرمایہ کاری، انڈسٹریل، کاروباری اور تجارتی مواقع تلاش کریں گے۔ پاکستانی وفد سے ہونے والی ملاقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باہمی تجارت بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے، پاکستانی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اجلاس میں بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنرسید احمد معروف نے خصوصی شرکت کی۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ویزا شرائط میں نرمی ایف پی سی سی ا ئی تجارتی وفد نے کہا کہ وفد نے

پڑھیں:

پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

اقبال نے اپنے الہامی کلام میں ایک خبر دی تھی:

آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

یہ واقعہ ہو گزرا ہے اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔ یہ واقعہ اُسی خطے میں پیش آیا ہے جس نے انگڑائی لی تو برصغیر کو اپنی منزل ملی یعنی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے تحریکیں چلیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کے تشخص کی حفاظت کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی جس نے مسلم بر صغیر کو اس کی منزل سے ہم کنار کیا۔ دنیا اس خطے کو بنگال کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے بزرگ قبلہ الطاف حسن قریشی نے اسی خطے کو ’ٹوٹا ہوا تارا‘ قرار دیا تھا اور اس کا ماجرا بیان کرنے کے لیے اسی نام سے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی۔

یہ بھی پڑھیں: غامدی صاحب کا جرم

الطاف حسن قریشی صاحب کی یہ کتاب اس آشوب کا بیان ہے جس کی وجہ سے مسلم بر صغیر کا یہ چکمتا ہوا تارا منزل سے بھٹکا یا اس پر کچھ ایسی افتاد پڑی جس نے سینہ چاکان چمن میں رنجشیں پیدا کیں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوئے۔ اب صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی امید کا اظہار فیض صاحب نے بھی کیا تھا:

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی بس رات بھر ہی کی جدائی تھی۔ ’مغرور حسینہ‘ (شیخ حسینہ واجد) کے جبر اور ظلم کی رات ٹلی ہے تو مسلم بر صغیر کے یہ بچھڑے ہوئے تارے ایک بار پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں اور چیلنج کر رہے ہیں:

جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل اسٹاف افسرلیفٹیننٹ جنرل ایس ایم قمرالحسن کا دورہ پاکستان یہی خبر دیتا ہے۔ نصف صدی پہلے کا جھگڑا کیا تھا؟ یہ بھارت تھا جس نے 1965 کی جنگ کو ہمارے خلاف دو دھاری تلوار کی طرح استعمال کیا۔ مغربی پاکستان پر جارحیت کی لیکن مشرقی پاکستان کو نہایت مکاری کے ساتھ یہ تاثر دیا کہ اس کا اصل ہم درد تو ہے ہی وہی یعنی جنگ کے زمانے میں مغربی پاکستان نے آپ کو تنہا چھوڑ دیا تو ہم نے آپ پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ اس پروپیگنڈے نے بڑا غضب ڈھایا۔ وہ لوگ طاقت پکڑ گئے جو مسلم بنگال کی نظریاتی شناخت کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اس حقیقت میں تو کوئی کلام نہیں ہے کہ مسلم بنگال اپنی علاقائی اور لسانی شناخت کے بارے میں ہمیشہ حساس رہا ہے لیکن اسے اپنی نظریاتی شناخت بھی اتنی ہی عزیز تھی۔ اگر اسے اپنی نظریاتی شناخت عزیز نہ ہوتی تو انگریزی استعمار سے آزادی کے لیے غلامی کے زمانے میں وہاں سے پے درپے نظریاتی تحریکیں پھوٹتیں اور نہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی وجود میں آتی۔ خیر قسمت میں جو لکھا تھا، وہ ہوا یعنی ہونی ہو گزری۔ اب جدائی کے اس وقفے کے بعد جنرل قمرالحسن نے پرانے مغربی پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر وہی بات کہی ہے جسے بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ بنائے فساد بنا دیا تھا۔ جنرل قمرالحسن کا دورہ پاکستان اس تخریب کے بعد تعمیر کی ایک صورت ہے۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ جنرل قمرالحسن کی ملاقات کے بعد جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، وہ بہت معنی خیز ہے۔ اس بیان میں دوطرفہ شراکت داری کو کسی بھی بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ برصغیر کی ان 2 مسلم طاقتوں کی طرف سے آنے والا یہ بیان ایک مہا بیانیے کی حیثیت رکھتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ یہ خطہ کن طاقتوں کی وجہ سے غیر محفوظ ہے لہٰذا انھیں ان طاقتوں سے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔

مزید پڑھیے: وسائل کے بغیر جنگ جیتنے کی حکمت عملی

یہ بیان تاریخ کے ان دھاروں کی اصلاح بھی کرتا ہے جنہیں گزشتہ نصف صدی تک الٹا بہانے کی کوشش کی گئی۔ مسلم بنگال کو اپنی  علاقائی شناخت تو مل گئی لیکن اس بہانے اس کے مفادات پر نہایت کاری ضرب لگائی گئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن بھارت کے ’احسانات‘ کے بوجھ تلے اتنا دبے ہوئے تھے کہ وہ بنگالی عوام کے مفادات کے تحفظ سے بھی لا تعلق ہوتے چلے گئے۔ بھارت نے اپنے نام نہاد احسانات کا منھ مانگا معاوضہ وصول کیا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے عوام کا معاشی استحصال ہونے لگا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے بعد حسینہ واجد کے جابرانہ عہد میں بھی یہی روش برقرار رہی۔ بھارت نے نہ صرف بنگلہ دیش کے عوام کا اقتصادی اور کاروباری استحصال کیا بلکہ وہ اس کی سالمیت کے بھی درپے ہو گیا۔ پانی کے ذخائر پر قبضہ جمانے کی کوشش کی اور بنگلہ دیش کے ساتھ سرحدی تنازعات کو ہوا دی۔ عوام اس ضمن میں حسینہ واجد کی بے حمیتی کب تک برداشت کرتے بالآخر انہوں نے اسے اکھاڑ پھینکا اور آج بنگلہ دیش کے چیف آف اسٹاف پاکستان میں آ کر دفاع کے ضمن میں باہمی شراکت داری میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔ گویا تاریخ کا دھارا واپس اپنی جگہ پر آ رہا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش دیش 2 بچھڑے ہوئے بھائی اور فطری حلیف تو ہیں ہی، اس خطے کے مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ خطے کے تعلق سے یہ ایسا موضوع ہے جس سے ان عوامل پر روشنی پڑتی ہے جن کے پیش نظر سارک کے نام سے ایک علاقائی اتحاد وجود میں آیا۔

مزید پڑھیں: رچرڈ گرینل پریشان کیوں ہیں؟

پاکستان کے دولخت ہو جانے کے بعد بھارت کے حوصلے بڑھ چکے تھے اور وہ خطے میں ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھرا جس سے جنوبی کی مختلف اقوام اور ممالک کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ اس خطرے کو پاکستان اور بنگلہ دیش نے ہی محسوس کیا اور اس سے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کیے۔ سارک کا قیام اسی لیے عمل میں آیا تا کہ بھارت طاقت کے نشے میں چور ہو کر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ تاریخ نے اس علاقائی تنظیم کے قیام کا کریڈٹ بنگلہ دیش کے جنرل ضیا الرحمٰن اور پاکستان کے جنرل ضیا الحق کو دیا۔

سارک کے قیام کے بعد تنظیم کے تمام ممالک نے سکھ کا سانس لیا اور پاکستان و بنگلہ دیش کی قیادت کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔ یہ تنظیم ضرور ترقی کرتی اور اس سے علاقائی خوش حالی کی امید بھی پوری ہوتی لیکن بدقسمتی سے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو اقتدار مل گیا اور اسی عرصے میں افغانستان کو اس تنظیم کا رکن بنا لیا گیا۔ ان 2 تبدیلیوں نے اس تنظیم کا مستقبل تاریک کر دیا کیوں کہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد اور افغانستان کے اشرف غنی نے اپنی آزادانہ حیثیت پر بھارت کی کاسہ لیسی کو ترجیح دی۔ یوں سارک کی تنظیم مکمل طور پر غیر فعال ہو گئی۔ یہ  بڑی بدقسمتی تھی۔

بھارت اور اس کے کاسہ لیسوں کی ریشہ دوانیوں سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں تھا لیکن بنگلہ دیش کے غیرت مند عوام نے حسینہ واجد کی جابرانہ حکومت کا خاتمہ کر کے اس سوال کا جواب فراہم کیا۔ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی صرف بنگلہ دیش کے عوام کے لیے ہی سود مند ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس نے  خطے کے اتحاد اور تعاون کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ بھی ہموار کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: صدیق الفاروق: جسے ہو غرور آئے کرے شکار مجھے

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان رشتوں کی بحالی کا ایک فائدہ تو یہ ہے دوسرا فائدہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کے خلاف منصوبوں کی ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ اس کے علاوہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی مشکلات میں بھی یقیناً کمی واقع ہوگی۔ غرض یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کی بحالی میں خیر ہی خیر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

افغانستان بنگلہ دیش بھارت پاک بنگلہ دیش ری یونین پاک بنگلہ دیش ملاپ پاکستان حسینہ واجد

متعلقہ مضامین

  • ٹیرف بڑھانے کے ٹرمپ کے اعلان پر کینیڈا نے بھی تجارتی جنگ کی دھمکی دے دی
  • پاکستانی نژاد انگلش فاسٹ بولر ثاقب محمود کو بھارتی ویزا جاری
  • بنگلہ دیشی افواج کے پرنسپل سٹاف افسر کی سیکرٹری دفاع سے ملاقات، نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا دورہ 
  • تجارتی مراکز پر عالمی معیار کا کارگو نگرانی نظام بنایاجائے، وزیراعظم
  • وزیراعظم کی کراچی سمیت دیگر تجارتی مراکز پر کارگو اسکیننگ نظام قائم کرنیکی ہدایت
  • پاکستان اور بنگلہ دیش، آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
  • ایف ٹی اے یا PTA باہمی تجارت کیلیے ناگزیر ، عاطف اکرام شیخ
  • چین کے خلاف امریکی تجارتی کریک ڈاؤن چین کی ترقی کو نہیں روک سکتا،چینی وزارت تجارت
  • پاکستان اور بنگلہ دیش
  • کراچی سے وسطی ایشیا کے لیے پہلا تجارتی قافلہ روانہ