پنجاب حکومت نے گندم 4 ہزار فی من نہ خریدی تو آئندہ فصل نہیں ہوگی،چئیرمین کسان اتحاد
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
ملتان (مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے گندم 4 ہزار روپے فی من نہ خریدی تو گندم کی آئندہ فصل نہیں ہوگی۔ ملتان میں کسان تنظیموں کے عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین باٹھ نے کہا کہ وفاقی حکومت بھی پاسکو کو ختم کرنے جارہی ہے، موسمیاتی تبدیلی کے باعث اس سال گندم کی پیداوار کم ہوگی،حکومت کو گندم امپورٹ کرنی پڑے گی۔ چیئرمین کسان اتحاد کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب نے ہمارا کوئی مطالبہ پورا نہیں کیا، وزیراعلیٰ پنجاب سے ہم گندم کا 4 ہزار فی من ریٹ مانگتے ہیں، پنجاب کے علاوہ سارے صوبوں نے 4 ہزار فی من گندم خریدی، حکومت نے گندم 4 ہزار فی من نہ خریدی تو گندم کی آئندہ فصل نہیں ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گنے کا ریٹ بھی شوگر مل مالکان کی مرضی سے250 سے300 روپے من طے ہوا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کسان اتحاد ہزار فی من
پڑھیں:
سندھ کی کسان عورت اسل ورکنگ وومن ہے،شاہینہ شیر علی
ٹنڈو جام (نمائندہ جسارت) صوبائی وزیر شاہینہ شیر علی نے کہا ہے کہ سندھ کی کسان عورت اصل ورکنگ وومن ہے، اسے دیگر اداروں میں کام کرنے والی ورکنگ وومن جیسی اہمیت ملنی چاہیے، بچے گود میں لے کر کھیت میں کام کرنے والی مزدور خواتین کے بچوں کے لیے سندھ میں 115 ڈے کیئر سینٹر قائم کر رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کی میزبانی میں ’’زرعی ترقی اور خواتین کو بااختیار بنانا‘‘ چیلنجز اور آگے بڑھنے کے طریقے کے موضوع پر پہلی 2 روزہ عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو اسکول بھیجنے اور بعد میں کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین مردوں کے بہتر مستقبل کے لیے محنت کرتی ہیں، اب ان کی بہتری کے لیے بھی سوچنا ضروری ہے، اس بچے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو اسٹیج پر آکر فخر سے کہے کہ وہ ایک ہاری کا بیٹا ہے۔ سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ صنفی برابری کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے، 67 فیصد خواتین زراعت میں عملی کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے لیے کوئی مناسب اُجرت نہیں ہے۔ زیادہ تر زمینوں کی ملکیت کا حق مردوں کے پاس ہے، خواتین کو زمین کی ملکیت کے حقوق ملنے چاہییں کیونکہ کاشت سے لے کر کٹائی تک خواتین مردوں کے برابر کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو تدریس، تحقیق اور ترقی میں فیصلے کرنے کے حق میں رُکاوٹوں کا سامنا ہے۔ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ زرعی شعبے میں خواتین کا کردار اہم ہے لیکن یہ تشویش کی بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں 10 فیصد خوش نصیب بچوں میں لڑکیوں کا تناسب صرف 2 فیصد ہے، مارکیٹ میں خرید و فروخت کرنے والی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے مارکیٹنگ کے شعبے میں خواتین کو متحرک کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اکیڈمیا، ایوان، سیاسی قیادت اور میڈیا سماج خواتین کو عملی میدان میں لانے میں حوصلہ افزائی اور رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ خواتین کی عملی شمولیت اور زراعت کو فروغ دے کر معیشت اور جی ڈی پی کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ ایف اے او کی مس این کلر یوی میری چیریسی نے کہا کہ سندھ کی خواتین کھیتوں میں 12 سے 14 گھنٹے کام کرتی ہیں، جنہیں صحت کے مسائل کا سامنا ہے، کھیتوں میں پیداواری عمل میں شامل خواتین بھی موسمی تبدیلیوں، غذائی تحفظ، غذائی کمی، کم اُجرت اور صنفی ناانصافیوں کا شکار ہیں۔ سماجی رہنما زاہدہ ڈیتھو نے کہا کہ خواتین کو مارکیٹنگ کی طرف لانا ہو گا، محنت خواتین کرتی ہیں اور زرعی مصنوعات کو مارکیٹ تک مرد لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے لیے دارالامان پروٹیکشن سیل اور شکایتی مراکز ناکافی ہیں، خواتین کو قانونی اور انصاف کی سہولیات دستیاب نہیں، خواتین کو لیبر فورس کے طور پر قبول کر کے تمام مراعات دی جانی چاہییں۔ پاکستان سوسائٹی آف ایگریکلچر انجینئرنگ کے مرکزی رہنما انجینئر منصور رضوی نے کہا کہ عالمی ترقی میں خواتین برابر کی شریک ہیں، ہم نے اپنی آدھی آبادی کو ترقی سے دور رکھا ہوا ہے، ایسی کانفرنسوں کو دیگر یونیورسٹیوں تک لے جانا چاہیے۔