Express News:
2025-01-18@13:07:48 GMT

سفاک اسرائیل کے جنگی جرائم

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی طیاروں سے ممنوعہ ہتھیاروں کی بمباری سے 7,820 لاشیں بخارات میں تبدیل ہوگئیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا بعض حملوں میں دھماکے کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سے زیادہ تھا۔

دوسری جانب ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی اصل تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ ہے۔ تحقیق میں جنگ کے پہلے 9 ماہ میں اموات کی تعداد کا بہترین تخمینہ بھی 64,260 لگایا گیا ہے۔ غزہ میں ہر 35 افراد میں سے ایک فرد شہید ہو چکا ہے۔

غزہ مکمل تباہی کے دھانے پر ہے جہاں موجودہ ہولناک صورتحال کے فوری خاتمے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل سفاک اور بے رحم ریاست ثابت ہوئی ہے، ممنوعہ ہتھیاروں کی بمباری سے فلسطینیوں کی لاشوں کا بخارات میں تبدیل ہونا، سفاکیت کی انتہا ہے۔ دھماکوں، میزائل حملوں کا شور، زخموں سے چور درد سے کراہتے بچے، خواتین، مرد، ملبے میں دبے افراد کی آہ و بکا، بچوں کے بے جان جسم اٹھائے آہ و بکا کرتے بے بس ماں باپ، والدین کی لاشوں کو دیکھ کر غم سے چیختے بچے، ہر طرف خون ہی خون، بکھرے ہوئے جسمانی اعضاء موت کا سایہ، یہ سب منظر نامہ کوئی بھیانک خواب نہیں بلکہ اسی دنیا میں یہ ان دنوں فلسطین میں بیت رہی ایک حقیقت ہے۔

یہ عالم انسانیت کا بھی امتحان ہے اور دنیا کے لیے لمحہ فکریہ بھی۔ کچھ عرصہ قبل ہیومن رائٹس واچ نے یہ بھی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کے اقدامات ’’ جنگی جرائم‘‘ اور ’’انسانیت کے خلاف جرائم‘‘ کی شکل میں آتے ہیں۔ اس کے بعد بینجمن نیتن یاہو اور یو آو گالانٹ کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC) نے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے، ان تمام فیصلوں نے گزشتہ سال کے آخر میں غزہ میں اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا ہے۔

یہ فیصلے عالمی کمیشن آف جورسٹس اور اقوام متحدہ کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کی مذمت کرتے ہیں، اب عالمی عدالتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیل اور اس کے سربراہ قانونی اور اخلاقی طور پر بغاوت کے مرتکب ہیں تاہم ان فیصلوں اور شدید الفاظ میں کی جانے والی مذمتوں کے باوجود عملی طور پر کچھ نہیں بدلا۔امریکا مسلسل اسرائیل کا دفاع کرتا رہتا ہے اور اس کی حمایت میں مسلسل اسلحہ فراہم کرتا ہے۔

 اس کے باوجود کہ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط اتفاق رائے بن رہا ہے۔ برطانیہ نے اپنی اسلحہ برآمدات کا ایک چھوٹا حصہ معطل کر دیا ہے لیکن پھر بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’’مضبوط اتحادی‘‘ کے طور پر جاری رکھنے کی بات کرتا ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کرنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ فرانس نے ایک قانونی تشریح پیش کی ہے جس میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کو اس لیے استثنیٰ حاصل ہے کیونکہ اسرائیل ICC کا رکن نہیں ہے حالانکہ اس تشریح کا اطلاق عمر البشیر جیسے افراد پر بھی ہوتا ہے۔

دوسری طرف، غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے حوالے سے مزید شواہد سامنے آ رہے ہیں جو نہ صرف قانون کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی پامالی کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ یہ ایک تاریخی حملہ بھی ثابت ہو رہا ہے۔ ایئر وارز (تنظیم) جو شہری ہلاکتوں کی نگرانی کرتی ہے، نے کہا کہ ’’تقریباً ہر پیمانے پر غزہ میں اسرائیلی مہم میں شہریوں کو پہنچنے والا نقصان کا21ویں صدی کی کسی بھی فضائی کارروائی کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

تحقیق کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے اعترافات اور بیانات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں یہ بیان کیا گیا کہ غزہ میں بچوں سمیت عام شہریوں کو جنگجو سمجھا جا رہا ہے، اسرائیلی اخبار ہارٹز میں ایسے فوجیوں کے بیانات شایع ہوئے جنھوں نے غزہ میں اپنی خدمات انجام دیں اور کہا کہ شہریوں، یہاں تک کہ بچوں کو، جنگجو تصور کیا جا رہا ہے۔

اسرائیلی فوجیوں کے یہ بیانات صرف قانونی اور فوجی طریقوں کی وضاحت نہیں کرتے بلکہ قتل، بھوک، جسمانی تشدد، تشویش اور ذہنی اذیت کو بھی بیان کرتے ہیں جسے سمجھنا بھی مشکل ہے۔ ان تحقیقات میں ایک قتل عام کا منظر ہے جو صاف نظر آ رہا ہے، لائیو اسٹریم اور فلسطینی شہریوں اور صحافیوں کے ذریعے پوسٹ کیا جا رہا ہے، باہر کے لوگ یہ دیکھ رہے ہیں حتیٰ کہ اسرائیلی خود بھی اسے بیان کر رہے ہیں۔

اس شدید اور غیر متنازع شواہد کے باوجود کچھ نہیں بدل رہا اور جنگ جاری ہے، وہ چیزیں جو پہلے بریک تھرو کے طور پر سامنے آئیں، جیسے بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کی پہلی سماعت، اب صرف مشاہدے کی مشقیں نظر آ رہی ہیں، یہ ایک ایسی حالت ہے جو انتہائی مایوس کن ہے، اور انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کوئی بھی فریق، چاہے وہ کتنے ہی سنگین جرم کیوں نہ کرے، اسے روکا نہیں جائے گا یا انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا۔

اسرائیل کے اتحادی نسل کشی اور نسلی صفائی کی اصطلاحات کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے اور ان پر عمل کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے، دنیا کو ایک ایسا زاویہ دینے پر مجبور کررہے ہیں جس کے بعد صرف یہ تسلیم کیا جائے گا کہ حقوق انسانیت سے نہیں، بلکہ وہ قوتیں جو فیصلہ کرتی ہیں کہ کون انسان ہے، اسی لیے اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری رہنا ضروری ہے، چاہے وہ محض رپورٹنگ اور نوٹس لینے کی حد تک محدود ہو جائے۔ یورپ اور امریکا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جو بھی بیانات دیے جائیں یہ رپورٹس اس بات کا دستاویزی ثبوت ہیں کہ ایک جرم ہو رہا ہے، غزہ میں لوگوں کے حقوق زمین پر مٹ چکے ہیں، لیکن جب یہ جنگ ختم ہو گی، تو یہ اکاؤنٹس تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوششوں کو روکے یا کم از کم کمزور کریں گے اور ان مظالم کا انکار نہیں کرنے دیں گے۔

مغربی میڈیا فلسطینیوں کے درد کو بیان نہیں کر رہا کیونکہ اسرائیل میڈیا کے تمام بڑے ہاؤسز کو استعمال کرتا ہے۔ اسرائیل اور یہودی دُنیا بھر میں ’’ ڈبل ایم‘‘ یعنی میڈیا اور پیسہ (media and money) کو کنٹرول کرنے میں بہت آگے ہیں، چنانچہ وہ اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اسی لیے اسرائیل کو ترجیح دی جاتی ہے۔

انھوں نے فلسطینی خاندانوں کی تصاویر لے کر مغربی میڈیا میں اسرائیلی خاندانوں کی تصاویر کے طور پر پیش کیں جنھیں فلسطینیوں کے راکٹوں کا نشانہ بتایا گیا، وہ حقائق کو تبدیل کر کے عالمی برادری کو قائل کرنا چاہ رہے ہیں کہ اصل مظلوم وہ ہیں اور عالمی برادری مان لیتی ہے کیونکہ میڈیا اُن کے ہاتھ میں ہے۔ امریکا، اسرائیل کے اوپر دباؤ ڈال سکتا ہے اور اس کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ فلسطین کے ساتھ امن معاہدہ کرے۔ بدقسمتی سے مسلم اُمہ، مسلم ممالک اور عرب لیگ اپنے اندرونی مسائل سے دو چار ہیں اور وہ ان سے نکلنے کے لیے نبرد آزما ہیں۔

دنیا بھر میں اسرائیل کے حالیہ مظالم کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ہر طرف سے فری فلسطین اور فلسطین ’’ ول بی فری‘‘ کے نعروں کی گونج آ رہی ہے۔ انسانی حقوق کے تمام اداروں بشمول اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں جیسے کہ عالمی ادارہ برائے صحت کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے خلاف بیانات کا سلسلہ جاری ہے لیکن تاحال قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری ہے اور اسرائیل حماس کے حملے کی آڑ میں اپنے معاشی مقاصد حاصل کرنے کے لیے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے نکالنا چاہتا ہے۔ اسرائیلی بربریت کی انتہا ہے کہ غزہ میں شہری آبادی والے علاقوں، اسکولوں، مساجد، تعمیرات، پانی کے ذخائر حتیٰ کہ اسپتالوں کے اوپر حملے کیے جا رہے ہیں۔ شہر میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہے۔

فلسطین کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی نے اعلان کیا کہ توانائی کے وسائل کی کمی کے باعث غزہ کی پٹی میں لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ مواصلاتی خدمات مکمل طور پر منقطع ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالا جائے کیونکہ اسرائیل نے نسل کشی کے گھناؤنے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ موجودہ صورتحال میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ساری دنیا کی مشترکہ ذمے داری ہے کیونکہ اسرائیل سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔

عام شہریوں، آبادیوں، اسپتالوں، صحافیوں کو نشانہ بنانا کھلم کھلا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہے، اگر اسرائیل کی دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو فلسطین کے بعد اردگرد کے دوسرے ممالک بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ دنیا کی بڑی اور اثر و رسوخ رکھنے والی حکومتوں کا اس وقت اسرائیل پر دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کرے اور وہاں موجود شہریوں کے لیے آنے والی بیرونی امداد کا راستہ نہ روکے، اگر فلسطینیوں کی جاری نسل کشی نہ روکی جا سکی تو یہ انسانیت کی ناکامی ہوگی۔

 فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کے امکان کو کمزور کیا گیا تو اس کے منفی اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دیگر دنیا پر بھی مرتب ہوں گے۔ خطے کا پر امن اور محفوظ مستقبل عالمی برادری اور خاص طور پر خطے سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ موثر سفارت کاری کے لیے حالات پیدا کریں۔ غزہ میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، علاقے میں انسانی امداد کی محفوظ طور سے فراہمی اور فلسطینیوں کی طویل مدتی سلامتی و تحفظ یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غزہ میں اسرائیل میں اسرائیلی جنگی جرائم اسرائیل کے کہ غزہ میں خلاف ورزی کے طور پر کرتے ہیں کرتا ہے کے ساتھ رہے ہیں کے خلاف اور ان رہا ہے کیا جا اور اس کے لیے ہے اور کے بعد

پڑھیں:

حماس اسرائیل جنگ بندی کا معاہدہ، اثرات، مضمرات

قطر کے وزیر اعظم نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر معاہدے پر عمل درآمد اتوار19 جنوری سے شروع ہو جائے گا۔وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے دوحہ میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے قطر، مصر اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گا۔

قطر کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘معاہدے سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ہو گی اور غزہ میں انسانی بنیادوں پر امداد میں اضافہ ہو گا۔دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن اور نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کئی ماہ کی سفارت کاری کے بعد مصر اور قطر کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے غزہ میں لڑائی رک جائے گی، فلسطینی شہریوں کے لیے انتہائی ضروری انسانی امداد میں اضافہ ہوگا اور قیدیوں کو 15 ماہ سے زائد عرصے تک قید میں رکھنے کے بعد ان کے اہل خانہ سے ملایا جائے گا۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے معاہدے کو ‘ایک عظیم کامیابی’ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ معاہدہ اس داستان کی عکاسی کرتا ہے جو غزہ کی ثابت قدمی، اس کے عوام اور اس کی مزاحمت کی بہادری کے ذریعے حاصل کیا گیا۔

معاہدے کے مطابق سیز فائر کے ابتدائی 6 ہفتوں میں اسرائیلی فوج کا مرکزی غزہ سے بتدریج انخلا اور بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی ہو گی۔جنگ بندی کے دوران روزانہ غزہ میں 600 ٹرکوں پر مشتمل انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی، جن میں سے 50 ٹرک ایندھن لے کر آئیں گے اور 300 ٹرک شمال کے لیے مختص ہوں گے۔حماس 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گی، جن میں تمام خواتین فوجی اور شہری، بچے اور 50 سال سے زیادہ عمر کے مرد شامل ہوں گے۔

حماس پہلے خواتین قیدیوں اور 19 سال سے کم عمر بچوں کو رہا کرے گا، جس کے بعد 50 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو رہا کیاجائے گا۔اس دوران اسرائیل اپنے ہر سویلین قیدی کے بدلے 30 فلسطینیوں اور ہر اسرائیلی خاتون فوجی کے بدلے 50 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔اسرائیل7 اکتوبر، 2023 کے بعد سے گرفتار تمام فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کرے گا۔

رہائی پانے والے فلسطینیوں کی کل تعداد اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر منحصر ہوگی، اور یہ تعداد 990 سے 1,650 قیدیوں تک ہو سکتی ہے، جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔پہلے مرحلے کے 16ویں دن معاہدے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے، جس میں باقی تمام قیدیوں کی رہائی، بشمول اسرائیلی مرد فوجیوں، مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلا شامل ہوگا۔

تیسرے مرحلے میں توقع ہے کہ تمام باقی ماندہ لاشوں کی واپسی اور غزہ کی تعمیرِنو کا آغاز شامل ہوگا، جس کی نگرانی مصر، قطر اور اقوام متحدہ کریں گے۔اس سے قبل غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے قطر میں ہونے والے مذاکرات کے مصالحت کاروں نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور حماس سیز فائر معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے پانے والے اس معاہدے میں حماس کے زیر حراست قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیل میں قید سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔قطر اور حماس کے عہدیداروں نے معاہدے کی تصدیق کی ہے جبکہ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا کہ ‘مشرق وسطیٰ میں قیدیوں کے لیے معاہدہ ہو گیا ہے۔ انہیں جلد ہی چھوڑ دیا جائے گا۔

معاہدے کے جو نکات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق معاہدے کے چھ ہفتوں پر مشتمل پہلے مرحلے میں 33 قیدی رہا کیے جائیں گے جبکہ معاہدے کے مطابق ‘اس دورانیے کے دوران ہر ہفتے کم از کم 3 قیدی رہا کیے جائیں گے۔تاہم ابھی اس معاہدے کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شک وشبہے کا اظہار شروع کر دیا گیا ہے ۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘فریم ورک کی کئی شقیں ابھی تک حل نہیں ہو سکی ہیں اورمعاہدے کے کئی نکات کو حل کرنے کی ضرورت ہے تاہم اس کے ساتھ بیان میں امید ظاہرکی گئی ہے کہ انہیں جلدحتمی شکل دے دی جائے گی۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ جدعون ساعر نے بتایا کہ وہ بدھ کو یورپ کا اپنا دورہ مختصر کر رہے ہیں تاکہ وہ قیدیوں کی رہائی اور سیز فائر معاہدے پر سیکورٹی کابینہ اور حکومت کے ووٹوں میں حصہ لے سکیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ 15 ماہ سے جاری اس جنگ نے لاکھوں فلسطینیوں کودربدر کردیاتھا جبکہ اسرائیلی عوام اور اس کے فوجیوں کے اہل خانہ ذہنی کرب کا شکار تھے،یہی وجہ ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کی خبر آتے ہیں اسرائیل فلسطین دونوں جانب لوگ خوشی میں گھروں سے نکل آئے اور جنگ بندی پر جشن منانے لگے ۔

معاہدے کی خبریں سامنے آنے کے بعد جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں فلسطینی شہری سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے فلسطین کے پرچم اٹھا رکھے تھے یہ لوگ معاہدے کے اعلان کا جشن منا رہے تھے لوگ خوش تھے کہ انھیں اس تمام تکلیف کے بعد جو انہوں نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک دیکھی سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ اگرچہ پوری دنیا کو امید ہے کہ یہ معاہدہ نافذ ہو جائے گا لیکن اسرائیلی کابینہ میں موجود امن دشمن طاقتور وزرا کی موجود گی کے سبب فوری طورپر اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ہر کوئی معاہدے کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی یرغمالی اپنے گھروں میں خاندان والوں کے ساتھ ہوں گے۔انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ معاہدے میں مکمل جنگ بندی، اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا اور حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے اور معاہدے کے تحت اسرائیل اپنے فوجیوں اور یرغمالیوں کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔

جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں فلسطینی اپنے علاقوں میں اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے اور غزہ کی پٹی پر انسانی امداد کی فراہمی بڑھائی جائے گی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں دوسرے مرحلے میں جنگ کے مکمل خاتمے کے حوالے سے ضروری تیاروں پر بات ہو گی۔ اگر یہ مذاکرات 6 ہفتوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہتے ہیں تو جنگ بندی جاری رہے گی۔ تیسرے مرحلے میں بقیہ یرغمالیوں کو اپنے خاندانوں تک پہنچانا ہو گا اور غزہ میں تعمیر نو کا کام شروع ہو گا۔

امریکی صدر جوبائیڈن کا کہناہے کہ اس معاہدے تک پہنچنا ‘آسان نہیں تھا اور ان کے تجربے کے مطابق یہ سب سے مشکل مذاکرات میں سے ایک تھے۔اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اگرچہ حماس اور حزب اللہ کو اپنے کئی نڈر اور دلیر کلیدی عہدیداروں سے محروم ہونا پڑا لیکن وہ پوری دنیا پر اسرائیل کی اصلیت اور اس کی فوجی قوت کی اصلیت بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوگئے، جبکہ اس جنگ کو وسعت دینے اور غزہ کے شہریوں پرلاکھوں ٹن گولہ بارود برسانے کے باوجود اسرائیل نہتے اور بے وسیلہ حماس اورحزب اللہ سے کوئی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا اور حماس کو ختم کرنے کی خواہش نیتن یاہو کے دل میں دم توڑ گئی۔جبکہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن اس معاہدے کو اپنی کامیابی ظاہر کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہو اور انھیں یہ کہنا پڑا کہ ان کی اور صدر ٹرمپ کی ٹیم نے ‘ایک ٹیم’ کے طور پر ان مذاکرات میں کردار ادا کیا ہے۔

اس تمام تگ ودو اور بظاہر حاصل ہونے والی کامیابیوں کے باوجود ابھی تک یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ اس پر عمل درآمد ممکن ہو گا یا نہیں کیونکہ اسرائیل میں نیتن یاہو کی کابینہ میں بعض ایسے شدت پسنداور امن دشمن وزرا موجود ہیں جو حماس اور فلسطینیوں کے ساتھ کسی معاہدے کے کٹر مخالف ہیں، ان لوگوں کی موجودگی میں اس معاہدے پر اس وقت شکوک وشبہات کے بادل منڈلاتے رہیں گے جب تک ان پرپوری طرح عملدرآمد نہ ہو جائے، اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ معاہدہ طے پا جانے کے باوجود یہ سب سے زیادہ اہم سوال ابھی موجودہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے انتظامی امور کس کے ہاتھ میں ہوں گے؟اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل غزہ کا انتظام حماس کو دینے کے حق میں نہیں ہے اور اس نے اس کے اتنظامی امور فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے جو کہ غربِ اردن میں اسرائیل کے قبضے میں موجود متعدد علاقوں کا انتظام سنبھالتی ہے۔

اسرائیل موجودہ تنازع کے اختتام کے بعد بھی غزہ کی سکیورٹی کنٹرول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے جبکہ حماس بجاطورپر غزہ کا انتظام سنبھالنے پر اصرار کرے گا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر اختلافات طے نہ ہوئے اور اس کا کوئی قابل قبول حل نہ نکالا جاسکا تو یہ خدشہ برقرار رہے گا کہ کہیں جنگ بندی کا پہلا فیز مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کسی مستقل معاہدے سے انکار ہی نہ کر دے۔ اگر اسرائیلی وزیر اعظم حماس کے ساتھ کسی امن عمل کے لیے راضی بھی ہو جاتے ہیں تب بھی ہو سکتا ہے کہ شاید وہ اپنی کابینہ کو اس بات پر راضی نہ کر سکیں۔

اسرائیلی وزیرِ خزانہ بتسلئیل سموتریش اور قومی سلامتی کے وزیر إیتمار بن غفیر ایسے کسی بھی معاہدے کے مخالف ہیں۔ سموتریش نے سوشل میڈیا پر لکھا تھاکہ ایسا کوئی بھی معاہدہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے ‘قیامت خیز’ ثابت ہوگا اور وہ اس کی حمایت نہیں کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی
  • چینی حکومت سائبر جرائم کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے پرعزم ہے، وزارت خارجہ
  • حماس اسرائیل جنگ بندی کا معاہدہ، اثرات، مضمرات
  • سخت گیر وزیر بین گویر کی دھمکی، غزہ جنگ بندی معاہدے پر اسرائیلی کابینہ کا اجلاس آج ہوگا یا نہیں؟
  • ناقابل اعتبار
  • غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات
  • حماس،اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر متفق ،اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ
  • غزہ میں جنگ بندی کے روشن امکانات
  • غزہ جنگ بندی معاہدے کے مندرجات کیا ہیں؟
  • حماس نے جنگ بندی معاہدہ منظور کرلیا، اسرائیل کے حملے تھم نہیں سکے، 62 مزید شہید