کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) بجلی سستی نہ کرنے کی وجہ حکومت کا غیرسنجیدہ رویہ ہے،زبانی جمع خرچ کر رہی ہے‘جماعت اسلامی نے آئی پی پیز، مہنگی بجلی اور ٹیکسز کیخلاف گزشتہ سال راولپنڈی میں 14 روز تک دھرنا دیا‘ 8 اگست کوحکومت کیساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کیا ‘ حکومت 1100ارب کی بچت کو2.4 ٹریلین کا گردشی قرضہ اتار نے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ان خیالا ت کا اظہار وفاقی وزیر برائے توانائی سردار اویس احمد خان لغاری‘ جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، مذاکراتی کمیٹی کے رکن و ماہر توانائی انجینئر سید فراست شاہ ‘ سابق نگراں وفاقی وزیر توانائی، معروف تاجر گوہر اعجاز‘ سرپرست اعلیٰ یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی)، سابق نگراں صوبائی وزیر برائے صنعت، تجارت و توانائی ایس ایم تنویر
اور جماعت اسلامی کراچی پبلک ایڈ کمیٹی کے نائب صدر و چیئرمین شعبہ امور توانائی عمران شاہد نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’حکومت آئی پی پیز سے کامیاب مذاکرات کے باوجود ابھی تک بجلی سستی کیوں نہیں کرسکی؟‘‘ سردار اویس احمد خان لغاری کا کہنا ہے کہ آ پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کے بعد اچھی بچت ہوگی ، بجلی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور مزید کم ہوں گی، مزید 15 آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدے وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں لیکر جا رہے ہیں‘ اب تک 1100 ارب روپے کی بچت کر چکے ہیں، آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں اب حکومتی پاور پلانٹس کی باری ہے‘ تمام آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے گی، نظر ثانی کے بعد عوام کو بہت اچھی بچت ہو گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ کے الیکٹرک نے ملٹی ائر ٹیرف کی مد میں بہت بڑی رقم مانگی ہے، میرے خیال میں یہ ملٹی ائر ٹیرف اتنا نہیں بنتا، بہت کم ہونا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیپرا عوام کا مفاد مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا‘ بجلی کے گردشی قرض کو کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے، لائن لاسز پر کنٹرول کے لیے بھی کوششیں کی جارہی ہیں‘ ہم چاہتے ہیں اگلے 4 سال میں توانائی کا شعبہ بحران سے نکل آئے۔سید فراست شاہ کا کہنا تھا کہ آپ کا یہ سوال تو حکومت سے کرنا بنتا ہے اور ہم بھی یہ سوال ان سے کر رہے ہوتے ہیں کہ مذاکرات کے باوجود ابھی تک بجلی سستی کیوں نہیں ہو رہی ہے‘ عوام کو اس کا فائدہ کیوں نہیںپہنچ رہا ہے، اس کا سادہ ساجواب تو یہ ہے کہ جو پیسے وہاں سے بچ رہے ہیں اس کو کہیں اور استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ کون سی مدیں ہیں جس میں یہ پیسے جا رہے ہیں اس کا ابھی تک ہمیں اندازہ نہیں ہے لیکن اس سلسلے میں17جنوری کو احتجاجکی کال دی گئی ہے‘ یہ معاہدے کا حصہ تھا کہ جو بھی رقم انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) سے معاہدے ختم کرنے سے بچے گی‘انہیں بجلی کے بلوں میں کمی کی طرف منتقل کیا جائے گا یا تو یہ ہے کہ ان کو پیسے ملے ہی نہیں ہیں وفاقی وزیر ایسی ہی کہہ رہے ہیں اور جب یہ کہہ رہے ہیں تو پھر ان سے پوچھنا چاہیے کہ اگر پیسے ملے ہیں تو وہ کہاں گئے ہیں یہ سوال ہے ۔ گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ ملک میں موجود بجلی کے کارخانے محض 40 خاندانوں کی ملکیت ہیں‘ بجلی کے بلوں پر گھروں میں لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں‘ لوگوں کی پریشانی غصے میں بدل رہی ہے‘ ہر صارف آئی پی پیز سے بددیانت معاہدوں پر فی یونٹ24 روپے اضافی دینے پر مجبور ہے‘ یہ قومی ا لمیہ نہیں تو اورکیا ہے کہ حکومت آئی پی پیز سے مذاکرات کے باوجود ابھی تک عوام کو سستی بجلی کی سہولت فراہم نہیں کر سکی ہے‘ ماضی میں انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) معاہدوں کی وجہ سے 24 کروڑ افراد سے سالانہ 2 ہزار ارب روپے کی رقم وصول کی گئی‘ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی تک ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ، بجلی کے ان نرخوں پر انڈسٹری چل سکتی ہے نہ گھریلو صارفین بل دے سکتے ہیں، بند بجلی گھروں کو 2 ہزار ارب سالانہ ادائیگی کے ذمہ دارکون ہیں قوم کو بتایا جائے۔ایس ایم تنویر نے بجلی کی بے تحاشا بڑھی ہوئی قیمت کی وجہ سے مختلف صنعتی شعبوں میں بڑے پیمانے پر بندش کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہو گیا ہے‘ اگر حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے حوالے سے بروقت کارروائی نہ کی گئی تو بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافہ مزید شہری بدامنی اور تاجر برادری میں عدم اطمینان کو جنم دے گا۔ ایس ایم تنویر نے امید ظاہر کی کہ وفاقی حکومت جلد ہی آئی پی پیز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی وضع کرے گی‘ آئی پی پیز کو 20 کھرب روپے کے کپسٹی چارجز کی ادائیگیوں نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا ہے۔عمران شاہد نے کہا کہ جماعت اسلامی نے آئی پی پیز، مہنگی بجلی اور ٹیکسز کے خلاف 26 جولائی کو راولپنڈی میں 14 روز تک دھرنا دیا‘ 8 اگست کو حکومت کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنے کو ختم کیا جبکہ حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ اگر معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا تو ہم دوبارہ دھرنا دیںگے، معاہدے کے مطابق حکومت نے ایک ٹاسک فورس بنانے کا اعلان کیا تھا اس کا بنیادی مقصد 30 دن میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں نظر ثانی اور 45 دن میں بجلی سستی کرنا تھا‘ 5 ماہ سے زاید عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حکومت معاہدے کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ کرسکی جبکہ حکومت اور وفاقی وزیر برائے بجلی اویس لغاری آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدوں اور اس کے نتیجے میں 1100 ارب روپے کی بچت کے صرف اعلانات ہی کر رہے ہیں‘ حیرت انگیز طور پر جب نیپرا سماعت کے دوران میں نے چیئرمین نیپرا وسیم مختار جو کہ خود ٹاسک فورس کے ممبر بھی ہیں، سے سوال کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے 5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں411 ارب روپے کی بچت اور71 پیسے فی یونٹ بجلی کے ٹیرف میں کمی ہوگی جبکہ باقی آئی پی پیز اور حکومتی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں نظرثانی کے بعد 10 سے 12 روپے فی یونٹ بجلی کے ٹیرف میں کمی ہوگی۔ اس کے جواب میں نیپرا چیئرمین وسیم مختار نے کہا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے‘ ہم بھی آپ کی طرح میڈیا رپورٹس اور اخبارات کے ذریعے ہی پتا چلا ہے‘ وفاقی حکومت کے جماعت اسلامی کے ساتھ معاہدے کو 5 ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بجلی کی قیمتوں میں کمی نہ ہونے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔ وفاقی حکومت کی ٹاسک فورس جسے آئی پی پیز کے ساتھ ملکر معاہدوں میں نظرثانی کرکے 45 دن میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنی تھی، یہ ٹاسک فورس ابھی تک تمام آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں نظرثانی کرانے میں ناکام رہی ہے‘ وفاقی حکومت اب تک ہونے والے نظر ثانی معاہدوں سے بچت کو بجلی کی قیمت میں کمی کے بجائے اس کو حکومتی مصارف میں خرچ کرے گی اور اس کے لیے وہ آئی ایم ایف کا سہارا لیکر اس کے پیچھے چھپے گی۔ وفاقی حکومت کا بیانیہ یہ ہوگا کہ کیونکہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.

4 ٹریلین روپے سے زیادہ ہوگیا ہے اور آئی ایم ایف اس گردشی قرضے کو ختم کیے بغیر بجلی کی قیمتوں میں کمی کی اجازت نہیں دے رہا جبکہ آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدوں سے ہونے والی 1100 ارب روپے کی بچت کو ہم گردشی قرضہ اتارنے کے استعمال کریں گے جبکہ اگر وفاقی حکومت جماعت اسلامی کے ساتھ معاہدے کی پاسداری اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ فوراً ہی5 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کو ختم کرنے کے بعد بجلی ٹیرف میں کمی کی منظوری کے لیے اس کو نیپرا میں سماعت کے لیے مقرر کراتی‘ حکومت زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بجلی کی قیمتوں میں کمی ا ئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں نظر کے ساتھ معاہدے ا ئی پی پیز سے جماعت اسلامی وفاقی حکومت معاہدوں پر مذاکرات کے وفاقی وزیر بجلی سستی رہے ہیں حکومت ا بجلی کے ابھی تک کا کہنا رہی ہے کے بعد کے لیے کی وجہ تھا کہ

پڑھیں:

کراچی کو سستی بجلی نیشنل گرڈ سے فراہمی پر ہی ممکن ہے،منعم ظفر خان

کراچی: امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے نیپرا میں کے الیکٹرک کی جانب سے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ (نومبر2024) کے لیے 4.89روپے فی یونٹ کمی کی درخواست پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جماعت اسلامی کا مطالبہ اور موقف درست ثابت ہوا ہے کہ این ٹی ڈی سی سے ہی کراچی کو بجلی فراہم کرنے پر کراچی کے عوام، تاجروں اور صنعتکاروں کو سستی بجلی مل سکتی ہے۔

منعم ظفر خان کا کہنا تھا کہ نومبر 2024کے لیے 4.89روپے فی یونٹ کمی کی اصل وجہ نومبر کے مہینے میں این ٹی ڈی سی سے 1600اضافی میگا واٹ سستی بجلی کی فراہمی ہے، اس لیے کے الیکٹرک کا جنریشن لائسنس منسوخ کرکے کراچی کو مکمل طور پر این ٹی ڈی سی سے بجلی فراہم کی جائے تاکہ عوام کو سستی بجلی مل سکے، اس کے نتیجے میں نہ صرف کراچی کے شہریوں، تاجروں اور صنعت کاروں کو نہ صرف بجلی سستی ملے گی بلکہ کے الیکٹرک کو قومی خزانے سے دی جانے والی اربوں روپے کی سبسیڈی کا بوجھ بھی ختم ہو جائے گا۔

ان کاکہنا تھاکہ کے الیکٹرک کراچی کے عوام کے لیے مسلسل عذاب بن ہوئی ہے، ایک جانب سردی کے موسم میں بھی بدترین لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے اور دوسری جانب اووربلنگ اور جعلی بلنگ کے ذریعے کراچی کے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، کوئی حکومت اور حکمران پارٹی کے الیکٹرک کے خلاف کوئی بات کرنے کو تیار نہیں، حکومت، نیپراا ور کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام کے خلاف اتحاد بنایا ہوا ہے اور ان تینوں کی ملی بھگت سے کراچی کے عوام، تاجروں اور صنعتکاروں کو لوٹا جا رہا ہے،۔

دریں اثناء جماعت اسلامی کراچی پبلک ایڈ کمیٹی کے نائب صدر عمران شاہد نے کے الیکٹرک کی جانب سے ماہ ِ نومبر 2024کی فیول ایڈ جسٹمنٹ میں 4.89روپے کمی کے حوالے سے نیپرا سماعت میں شرکت کی اور اہل کراچی کی نمائندگی کی اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کے جنریشن لائسنس کی منسوخی اور کراچی کو این ٹی ڈی سی سے براہ ِ راست اور مکمل بجلی فراہم کیے بغیر کراچی کے عوام، تاجروں اور صنعتکاروں کے بجلی کے مسائل حل نہیں ہو سکتے، این ٹی ڈی سی سے اضافی 1600میگا واٹ بجلی ملنے کی وجہ سے یہ نومبر2024میں 4.89روپے فی یونٹ کمی ممکن ہوئی ہے۔‘ چیئر مین نیپرا وسیم مختار کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہوئی، سماعت میں ممبر سندھ رفیق احمد شیخ،ممبر بلوچستان مطہر نیاز رانا، ممبر خیبر پختونخوا انجینئر مقصود انور خان ویگر بھی سماعت میں موجود تھے۔

عمران شاہد نے مزید کہا کہ حکومت نے سردی کے موسم میں اضافی بجلی پر ونٹر پیکیج کا اعلان کررکھا ہے لیکن کے الیکٹرک سردی کے موسم میں بھی کراچی بھر میں بدترین لوڈشیڈنگ کررہی ہے، کراچی کے شہری وقت پر بل ادا کرنے کے باوجود 18 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ کے الیکٹرک چند لوگوں کی جانب سے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور بجلی چوری کی بنیاد پر پورے علاقے کا فیڈر بند کرکے لوڈشیڈنگ کررہی ہے جو کہ نیپرا قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے چیئر مین نیپرا سے سوال کیا کہ نیپرا کی مانیٹرنگ اور انفورسمنٹ ٹیم کیا کررہی ہے۔ جبکہ نیپرا نے AT&C کی بنیاد پر غیر قانونی لوڈ شیڈنگ پر کے الیکٹرک پر5 کروڑ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا مگر کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی کھلم کھلا کہتے ہیں کہ ہم لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کریں گے اورنیپرا نے بھی اس پر اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں، ساتھ ہی کے الیکٹرک 68 ارب روپے کے جعلی بلوں کی عدم ادائیگی کو بنیاد بناکر نیپرا سے مطالبہ کررہی ہے کہ یہ پیسے بجلی کا بل ادا کرنے والے کراچی کے صارفین سے دلوائیں جائیں۔

عمران شاہد کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے ایک آئی بی سی (ناظم آباد) سے صرف 19 جعلی بلز کا ریکارڈ نیپرا کو جمع کروایا ہے، جن کی مجموعی رقم 71 کروڑ 63 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جعلی بلز ایسے صارفین کے نام پر جاری کیے گئے ہیں، جو دہائیوں سے بل ادا ہی نہیں کر رہے، بل ادا نہ کرنے والے صارفین کو بجلی کیسے مل رہی ہے؟کچھ صارفین 2005 اور 2008 سے بل ادا نہیں کر رہے، پھر بھی ان کے میٹر چل رہے ہیں، آخر کے الیکٹرک ان کنکشنز کو منقطع کیوں نہیں کرتی؟نیپرا کے قوانین کے مطابق، اگر کوئی صارف تین مہینے تک بل ادا نہ کرے تو اس کا کنکشن کاٹ کر میٹر ہٹا دینا چاہیے، کے الیکٹرک اس قانون کو نظرانداز کیوں کر رہی ہے؟۔
ا ن کاکہنا تھا کہ کے الیکٹرک جعلی اور بوگس بلنگ کے ذریعے صارفین پر اربوں روپے کا غیر قانونی بوجھ ڈال رہی ہے۔تاکہ رائٹ آف کلیم کے نام پر68 ارب روپے کراچی کے ان شہریوں سے وصول کرے جو وقت پر بل ادا کرتے ہیں۔ عمران شاہد نے نیپرا سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کے الیکٹرک کی جعلی بلنگ کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔عوام پر ڈالے گئے اضافی مالی بوجھ کا ازالہ کیا جائے،کے الیکٹرک کو نیپرا قوانین کی خلاف ورزی پر سخت سزا دی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • بجلی صارفین کے لیے خوشخبری
  • سولر بجلی کی پیداوار پر پالیسی واضح ہونی چاہیے، خرم نواز گنڈاپور
  • وفاقی حکومت صنعتوں کو سستی بجلی دینے کے لیے کوشاں
  • حکومت کاگاڑیوں کو ایندھن سے الیکٹرک پر منتقل کرنے کا اعلان
  • کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ سستی بجلی ریلیف پیکج کو نقصان پہنچارہی ہے، جاوید بلوانی
  • کراچی کو سستی بجلی نیشنل گرڈ سے فراہمی پر ہی ممکن ہے،منعم ظفر خان
  • پاور پلانٹس کے ساتھ حکومتی معاہدوں کی تفصیلات سامنے آگئیں
  • کراچی میں 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ پر چیمبر آف کامرس کا وفاقی حکومت سے مداخلت کا مطالبہ
  • بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے لیے آئی پی پیز سے نظرثانی معاہدوں کی منظوری
  • وزیراعظم کا الیکٹرک گاڑیوں کیلئے چارجنگ سٹیشنز پر بجلی سستی کرنے کا اعلان