1988ء میں میٹرک کرنے والے دوست دوبارہ اسکول کے طالب علم بن گئے
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
تخت بھائی کے علاقے ساڑوشاہ میں انوکھی تقریب کا انعقاد 37 سال بعد اسی اسکول میں اکٹھے ہوئے جہاں سے 1988 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے علاقے تخت بھائی میں 1988ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے دوستوں کی 37 سال بعد ملاقات ہوئی ہے۔ تخت بھائی کے علاقے ساڑوشاہ میں انوکھی تقریب کا انعقاد 37 سال بعد اسی اسکول میں اکٹھے ہوئے جہاں سے 1988ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ساڑو شاہ سے 1988ء میں میٹرک پاس کرنے والے نہ صرف طلبہ اکٹھے ہوئے بلکہ اپنے اساتذہ کرام کو بھی اس تقریب میں مدعو کیا۔ انہوں نے اسکول میں 37 سال بعد تمام ایکٹیوٹیز دہرائیں، سکول میں باقاعدہ اسمبلی ہوئی قومی ترانہ دھرایا گیا اسکے بعد کلاس روم میں باقاعدہ حاضری لی گئی۔
اس تقریب میں سینیئر اساتذہ کرام نے خصوصی طور پر شرکت کی، تقریب میں اس دنیا فانی سے کوچ کرنے والے اساتذہ کرام اور کلاس فیلوز کے لیے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ تقریب میں 50 سے زائد طلبہ شریک ہوئے جو اس وقت مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں آخر میں پروگرام کے ارگنائزر سلطانزیب اور جاوید خان نے تمام ساتھیوں نے شکریہ ادا کیا اور ہر سال 31 مارچ کو ایک ایسی ہی تقریب منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: 1988ء میں میٹرک کرنے والے سال بعد
پڑھیں:
جائیں تو جائیں کہاں؟
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی صاحب کا ایک ٹی وی ٹاک شو یاد آ رہا ہے‘ جس میں انہوں نے ایک بڑی دلچسپ اور مزیدار بات کی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ایف بی آر کے90 فیصد افسر گھر چلے جائیں‘ یہ ادارہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں ان افسروں کو گھر بیٹھے ان کی پوری تنخواہیں بھی دینے کو تیار ہوں‘ بس یہ اپنی سیٹوں پر نہ رہیں اور اپنے اختیارات استعمال نہ کریں تو ایف بی آر کا بگڑا ہوا آوا ٹھیک ہو سکتا ہے۔ہماری افسر شاہی کا طرز عمل یہ ہے کہ گیارہ بجے دفتر آتے ہیں، قہوہ پیش کیا جاتا ہے، اس دوران ڈرائیور کھانا لینے گھر چلا جاتاہے،صاحب اپنے عملے سے دریافت کرتے ہیں کہ کس سائل کو کتنا پریشان کیا؟ کتنا مال پانی جمع کیا ؟ پانچ بجتے ہی صاحب واک اور گپ شپ کے لئے کلب جا پہنچتے ہیں۔ایف بی آر کے افسروں کے بارے میں کوئی اور نہیں ان کا سابق سربراہ بتا رہا ہے۔شبر زیدی صاحب نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ یہ بات بتا دی کہ اس ادارے میں معاملات کو ٹھیک کرنے کے ذمہ دار ہی دراصل حالات کو خراب کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ یہ واقعہ تو چند سال پہلے بڑا مشہور ہوا تھا کہ ایف بی آر کے لوگوں نے حصے کی تقسیم پر ایک دوسرے پر گن تان لی تھیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ محض ایف بی آر تک محدود نہیں بلکہ ہر ادارے کی یہی مثال اور ہر محکمے میں یہی صورت حال ہے کہ یہ لوگ ایک سرکاری بیج لگا کے بھتہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایک قانونی بھتہ جس کے خلاف نہ پرچا درج کرایا جا سکتا ہے اور نہ کچھ اور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ پیسہ حکومتی کھاتوں میں نہیں جاتا ان کے ذاتی کھاتوں میں چلا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن کا ناسور کتنا گہرا ہے‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
میرے ایک دوست شیخ محمد آصف پانچ وقت کے نمازی اور پرہیز گار انسان ہیں۔ ٹھیک ٹھاک بزنس مین اور بڑے سرمایہ کار ہیں۔ جو بھی کماتے ہیں اس پر پورا ٹیکس پوری ایمان داری سے ادا کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے انہیں ایل ڈی اے سے ایک نقشہ منظور کرانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ انہوں نے جو نقشہ جمع کرایا تھا اس پر متعلقہ حکام سے ریٹ سیٹ نہیں ہو رہا تھا۔ جس افسر نے نقشہ پاس کرنا تھا‘ زیادہ پیسے مانگ رہا تھا‘ جبکہ میرا دوست کہہ رہا تھا کہ جتنے پیسے تم مانگ رہے ہو اتنے نہیں دے سکتا‘ میں صرف اتنے دے سکتا ہوں۔ جب ریٹ طے نہ ہو سکا تو وہ میرا دوست کام کرائے بغیر واپس چلا آیا۔ بعد ازاں اس نے نیچے سے لے کر اوپر تک اپنی ہر کوشش کر لی کہ نقشہ پاس ہو جائے لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ میرا دوست جس اعلیٰ سے بھی بات کرتا‘ وہ آگے پوچھتا تو پتا چلتا کہ فائل گم ہو چکی ہے۔ کرتے کرتے ڈیڑھ دو سال کا عرصہ گزر گیا۔ میرا دوست ایل ڈی اے کے دفتر کے چکر لگا لگا کر تھک گیا‘ اس کی جوتیاں گھس گئیں‘ لیکن نقشہ پاس نہ کرا سکا۔ پھر اسے پتا چلا کہ ایل ڈی اے کا وائس چیئرمین اس کے ایک عزیز کا دوست ہے۔اس نے تھک ہار کر اپنے اس عزیز سے بات کی۔ ان صاحب نے اپنے دوست وائس چیئرمین سے کہا۔ پھر ایک دن میرا دوست اس وائس چیئرمین کے پاس گیا تو انہوں نے میرے اس دوست کی موجودگی میں ایل ڈی کے اس اہلکار کو بلا لیا جو مسلسل یہ کہہ رہا تھا کہ فائل گم ہو چکی ہے اور اس سے کہا کہ یہ صاحب میرے دوست کے عزیز ہیں۔ انہوں نے فائل تمہارے ہینڈ اوور کی تھی۔ مجھے وہ فائل ہر حال میں آج چاہیے۔ وہ اہلکار گیا اور فائل لے کر حاضر ہو گیا۔ پتا چلا کہ جس جگہ اس نے اپنی میز اور کرسی رکھی ہوئی تھی‘ جن پر بیٹھ کر وہ کام کرتا تھا‘ وہاں ایک قالین بچھا ہوا ہے اور یہ فائل اس نے قالین کے نیچے دبا رکھی تھی‘ ملتی کہاں سے؟ خیر میرے اس دوست کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن اس نے قسم کھا لی کہ اس ملک میں نہیں رہنا۔ وہ کمینہ کلرک ہڈی کھانے کا عادی تھا‘ چنانچہ اس نے فائل جان بوجھ کر چھپائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی ہڈی کی خاطر اور نہ جانے کتنے لوگوں کی فائلیں قالین کے نیچے دبا کر رکھی ہوئی تھیں۔ یہ تو حال ہے ہمارے ملک کا۔ ایسے میں کیسی ترقی اور کہاں کی ترقی؟
اسی طرح کا ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ میرے ایک دوست کو اسی ایل ڈی اے میں کوئی کام تھا جس کے لیے انہوں نے عرصے سے فائل جمع کرا رکھی تھی۔ ایل ڈی اے کے وائس چیئرمین صاحب اس کے دوست تھے۔ ان کی طرف سے سفارش کی جاتی تو یہ سننے میں آتا کہ فائل ہو رہی ہے‘ چل رہی ہے‘ آ رہی ہے‘ اس میں یہ کمی ہے‘ یہ نقص ہے۔ جب کافی عرصہ گزر گیا تو ایک روز کسی نے اسے یعنی میرے دوست کو مشورہ دیا کہ کیوں تم بار بار وائس چیئرمین کے پاس چلے جاتے ہو اور اسے پریشان کرتے ہو‘ کام پھر بھی نہیں ہوتا۔ ایک لاکھ روپے اْسے یعنی کلرک یا اہلکار کو دو‘ تمارا کام دنوں میں ہو جائے گا۔ واقعی جب اس نے ایسا کیا یعنی ایک لاکھ روپیہ دیا تو میرے دوست کی فائل دنوں میں تیار بھی ہو گئی‘ مل بھی گئی اور اس فائل کے تحت کام شروع بھی ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارے اور ہر محکمے میں اسی طرح کے پینڈورا باکس کھلے ہوئے ہیں۔ دس سال پہلے کی بات ہے‘ میں کسی کے ساتھ سندر تھانے گیا۔ ہم کسی کام کے سلسلے میں تھانے میں بیٹھے ہوئے تھے اور اے ایس آئی کے ساتھ ہماری پیسوں کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ اسی دوران اینٹی کرپشن والوں نے اچانک چھاپہ مارا۔ میں پریشان ہو گیا تو اے ایس آئی نے کہا کہ آپ نہ ڈریں‘ مجھے پیسے پکڑائیں‘ یہ مسئلہ بھی سیٹل ہو جائے گا‘ یہ روٹین میٹر ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنی شکایت لے کر کس کے پاس جائے؟ پہلے تو چلو اگر کوئی اہلکار بات نہیں مان رہا تو بندہ ایس ایچ او کے پاس چلا جاتا ہے‘ ایس ایچ او اگر نہیں مانتا تھا تو ڈی ایس پی کے پاس جا سکتے تھے‘ ڈی ایس پی نہیں مانتا تھا تو ایس پی کے پاس جاتا تھا اور اگر وہ بھی نہ مانے تو اوپر جایا جا سکتا تھا‘ لیکن اب آپ کسی کے پاس نہیں جا سکتے کیونکہ نیچے سے اوپر تک سب ایک جیسا معاملہ ہے۔ پورا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔