پی ٹی آئی پر جبر ہورہا ہے معاشرے کو اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا، سلمان اکرم راجہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
پی ٹی آئی پر جبر ہورہا ہے معاشرے کو اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا، سلمان اکرم راجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 12 January, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس )پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ججز کی تقرری و تعیناتی کیلئے مختلف طریقہ کار واضح ہیں، 26ویں آئینی ترمیم طاقت کے زور پر پاس کروائی گئی۔
چھبیسویں ترمیم کے اثرات پر سیکرٹری جنرل تحریک انصاف سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جب ہم چھبیسویں ترمیم کے بارے میں دیکھتے ہیں تو آئین کی روح کو دیکھنا ہے وہ کیا کہتی ہے، جس دن یہ ترمیم پاس ہونا تھی کسی بھی رکن قوم اسمبلی کو اس کے بارے میں اس کے مندرجات کے بارے میں کچھ بتایا نہیں گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ چھبیسویں ترمیم طاقت کے زور پر پاس کروائی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کا عدلیہ میں مداخلت کے بارے جو تحفظات تھے وہ سب کچھ واضح کرتے ہیں، چھبیسویں ترمیم کے خلاف ہم سب کو اکٹھے ہونا ہے کیونکہ یہ آئین کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے جو انہوں نے کیا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وکلا اس ترمیم میں ہونے والی آئین کی خلاف ورزی کو بہتر انداز سے اجاگر کر سکتے ہیں، آزادی اظہار رائے، انسانی حقوق سب کچھ آئین فراہم کرتا ہے لیکن گراونڈ پر عمل درآمد نہیں ہے، جب کوئی بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ویگو ڈالاز اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاشرے کے لوگوں کو اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا اور ایک آزاد اور طاقتور عدلیہ کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہونے والے جبر کے خلاف کھڑے نہیں ہو رہے۔سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا چھبیسویں آئینی ترمیم شہری آزادی کے اوپر بڑا حملہ ہے، اس شہری آزادی کے تحفظ کے لئے ہمیں ایک آزاد اور طاقت ور عدلیہ چاہیے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سلمان اکرم راجہ نے نے کہا کہ کے خلاف کے بارے
پڑھیں:
معاشرے کے بدنما داغ
میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کالموں میں ہمیشہ مثبت کام کرنے والے لوگوں اور اداروں کا ذکر کروں اور جس کے لئے روزنامہ ’نئی بات‘ کی پوری ٹیم کا تعاون مجھے حاصل ہوتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں کہ اگر انہیں چھپانے کی لاکھ کوشش بھی کر لی جائے تو ضمیر اندر سے لعنت ملامت کرتا رہتا ہے اور یوں معاشرے کے ان بد نما داغ بننے والے لوگوں کے چہروں سے نقاب اٹھانا لازم ہو جاتا ہے ۔
قارئین ! خبر ہے کہ لاہور میں ایجوکیشن اتھارٹی حکام کی جانب سے خواجہ سرائوںکے سکولز قائم کر نے کے لئے ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولوں سے فنڈز جمع کئے ۔ فی سکول سے 25ہزار روپے لئے گئے ۔ سکولوں کے علاوہ اساتذہ کی جیبوں سے بھی فنڈز نکلوائے گئے لیکن جس منصوبے کے لئے کروڑوں کے فنڈز جمع کئے گئے اس پر ابھی تک عملدرآمد نہ ہوسکا۔ ان حرام خوروں کا کمال دیکھیں کہ خواجہ سرائوں کے نام پر جمع کئے جانے والے فنڈزکا کوئی ریکارڈ ہی مو جود نہیں اور نہ ہی کسی کو معلوم ہے کہ فنڈزکس اکائونٹس میں جمع ہوئے اور کہاں ہیں؟حالیہ سی۔ای۔او ایجوکیشن بھی اس ساری کارروائی سے بے خبر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ فنڈز میری دور تعیناتی سے پہلے جمع کئے گئے ہیں ۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ مافیا کس قدر طاقتور ہے کہ جو خواجہ سرائوں کے لئے بنا ئے جانے والے سکولوں کے فنڈز کو ہڑپ کر گیا وہ دیگر سکولوں کے فنڈز کو اپنے باپ کا مال سمجھتے ہوئے کیسے استعمال کرتے ہونگے ۔ حالانکہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کے سپیشل پرسنز ہیں اور ان کے لئے شروع ہونے والے کسی بھی پروجیکٹ کی نگرانی محکموں کے سربراہان کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات لکھنا پڑ رہی ہے کہ بظاہر اس سارے معاملے میںپروجیکٹ میں ملوث تمام لوگوں نے معاشرے کے ان خوبصورت لوگوں کے نام پر خوب انجوائے کیا اور اس میں سے سے بڑی ذمہ داری سابقہ سی۔ای۔او ایجوکیشن اتھارٹی کی بنتی ہے۔ اس ساری کرپشن پر ابھی تک ایوان اقتدار میں خاموشی ہے ۔ مجھے یقین ہے وزیر اعلیٰ پنجاب جو شہر شہر پہنچ کر طالبعلموں کو ان حق دے رہی ہیں وہ اور وزیرتعلیم رانا سکند حیا ت جوانتہائی پروفیشنل ہیں، خواجہ سرائوں کے نام پر مال پڑپ کرنے اور انہیں زیور تعلیم سے فیض یاب نہ کر نے والے ان ظالموں کا کڑا احتساب کریں گے۔ یہ معاشرے کے وہ درندے ہیں جن کی وجہ سے انسانیت خوف میں مبتلا ہے ۔
یہ معاشرے کے دو چہرے رکھنے والے انہی لوگوں میں شامل ہیںجو دکھتے کچھ اور ہیں اور ہوتے کچھ اور ہیں۔ حالیہ دنوں میں ، میرا ایسے ہی ایک کردار سے پالا پڑا،ایک جائز اور میرٹ پر پورا اترنے والے کام کے سلسلے میں ان کے دفتر گیا، سلام دعا کے بعد دینی معاملات پر گفتگو ہونا شروع ہو گئی میں ان کی عالمانہ گفتگو سے بہت متاثر ہوا اور شکر کے احساسات دل میں پیدا ہوئے کہ اس گئے گذرے دور میں بھی سرکاری اداروں میں ایسے نیک صفت لوگ موجود ہیں ۔ میں نے جیسے ہی اپنا مسئلہ ان کے سامنے رکھا تو فوری طور پر عالمانہ انداز میں میری دینی تربیت کر نے والے صاحب دوسرے چہرے کے ساتھ میرے سامنے آگئے اور بلا جھجک و خوف دیدہ دلیری کے ساتھ مخاطب ہوئے کہ اس کام کی فیس(رشوت) دو لاکھ روپے ہو گی۔ میں نے بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ رشوت کس چیز کی۔ میرا تو کام میرٹ پر ہے ؟ فر مانے لگے بھائی صاحب! یہ رشوت نہیں ،فیس ہے ۔ اس فیس کا’’ چکہ‘‘ اوپر سے نیچے گھومتا ہے ،فیس دیں گے تو فائل کو پہیے لگ جائیں گے نہیں تو فائل یہیں کہیں پڑی رہے گی اور بالآخر آپ بھی چکر لگا لگا کر تنگ آجائوگے۔
قارئین کرام ! میں جب سے اب تک نہی سوچوں میں گم تھا کہ کیا ہمارے بڑوں نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں ہم ان منافقوں کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں تو پھر سے میری نظروں کے سامنے ایک خبر گذری کہ لاہور میں 2025کے پہلے قتل میں ملوث شوٹر نے ایک قیمتی جان صرف عمرے کے دو ٹکٹوں کے عوض لے لی ، یعنی صرف دین اور مذہب کو ہم نے بطور لوگوں کو متاثر کر نے کے لئے استعمال کر نا شروع کر دیا ہے ۔ جبکہ دین کی تو اصل جڑ ہی نیت ہے ۔ اعمال کا دارومدار نیت پر ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں چند بد نما چہروں نے اسلام کی اقدار کو بھی خوب پامال کیا۔ یہ حرام خوری کے نشے میں اس قدر مست ہو چکے کہ الامان الحفیظ! قارئین کرام !ان حرام خوروں کی حرام خوری کی وجہ سے معاشرے میں مایوسی اور نا امیدی کی سائے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ بالخصوص سر کاری دفاتر میں موجود ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے عام تاثر یہی پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ اپنے جائز کام کے لئے بھی رشوت عرف عام میں ’’فیس‘‘ ادا کر نا ہوگی اور یہ فیس اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ احتساب کرنے اداروں میں بھی اس کی جڑیں پھیل چکی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرائوں کے حقوق غضب کر نے والے ، جائز کام کی رشوت طلب کر نے والے اور عمرے کے ٹکٹ کی خاطر معصوم جان لینے والوں کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ ہم بھی آگے فیس دے کے بچ جائیں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے ارباب اختیار فوری طور پر معاشرے کے ان بد نما چہروں کو بے نقاب کریں تاکہ عام عوام میںمقام تحفظ پیدا ہو سکے ۔