عمران خان نے چوری چھپانے کیلئے القادر ٹرسٹ بنایا، طلال چودھری
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
فیصل آباد: مسلم لیگ(ن)کےرہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ عمران خان نے چوری چھپانے کے لیے القادر ٹرسٹ بنایا گیا۔
اسلام آباد میں مسلم لیگ(ن)کےرہنما طلال چودھری کا میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ القادرٹرسٹ کیس کا فیصلہ آنےوالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی ایجنسی نے190ملین پاؤنڈ کیس کی انکوائری کی، جو پیسے خزانے میں آنے تھے وہ کاروباری شخصیت کی جیب میں ڈال دیئے گئے ، بند لفافے میں معاہدہ کابینہ کےسامنےپیش کیا گیا۔
رہنما مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں پس پردہ شہزاد اکبرنےکاروباری شخصیت سےملاقات کی، بانی پی ٹی آئی اس سارےمعاملےمیں ملوث تھے،190ملین پاؤنڈ کےبدلے زمین حاصل کی گئی، 190ملین پاؤنڈ کی چوری کو چھپانے کے لیے القادر ٹرسٹ بنایا گیا۔
طلال چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی دورمیں بنی گالہ منی گالہ بن گیا تھا، لین دین ہوتا رہا، بشریٰ بی بی لین دین اورکمیشن لیتی تھیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیل جانیوالے صحافیوں کی شہریت پر نظرثانی، سفری پابندیاں لگ سکتی ہیں، وزارت داخلہ
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہاہے کہ حالیہ دنوں اسرائیل کا دورہ کرنے والے صحافیوں پر پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی شہریت پر بھی نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
سینیٹر طلال چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اسرائیل کا دورے پر جانے والے پاکستانی صحافیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف ’مجرمانہ کارروائی‘ بھی ہو سکتی ہے اور اس بارے میں وزارت خارجہ اور داخلہ رابطے میں ہیں۔
پاکستانی صحافیوں کے اسرائیل کے دورے سے متعلق وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے پاکستان کے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر ہی نہیں کیا جا سکتا۔
یقیناً وہ اس پاسپورٹ پر نہیں گئے ہوں گے، کسی اور طرح گئے ہیں، تو ہم اس کا جائزہ لیں گے اور اگر ہمارے دستاویز کا غلط استعمال ہوا ہے یا انہوں نے ایک حد تک غلط استعمال کیا ہے اور اس کے بعد وہ بغیر دستاویز آگے گئے ہیں تو سفری پابندی سمیت اور بہت ساری فوجداری کارروائیاں ہیں جو ان کے خلاف ہو سکتی ہے۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق مارچ کے وسط میں 10 افراد پر مشتمل پاکستانیوں کے ایک وفد کو تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کروایا گیا تھا۔
اسرائیل کا دورہ کرنے والے اس وفد میں صحافیوں اور محقیقین کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے، جس کے بعد میں پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے شدید مذمت کی تھی۔
صحافیوں کے اس وفد میں برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) سے منسلک رہنے والی صحافی سبین آغا کے علاوہ چائنا ڈیلی سے منسلک صحافی کسور کلاسرا، اسلام آباد ٹیلی گراف کے صحافی قیصر عباس، صحافی شبیر خان اور صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مدثر شاہ بھی شامل تھے۔
وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت پاکستان کے ون ڈاکومنٹ رجیم 2023 کے تحت دوسرے مرحلہ میں یکم اپریل سے 15 اپریل تک 70 ہزار افراد کو پاکستان سے ان کے ممالک بھیجا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دوسرا مرحلہ کچھ وقت لے گا، پھر تیسرا مرحلہ پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی) کے لیے ہوگا جس کی آخری تاریخ 30 جون ہے۔‘
سینیٹر طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ ’پہلے مرحلہ میں تقریباً آٹھ لاکھ 57 ہزار 157 افغان باشندوں، جن کے پاس کوئی متعلقہ دستاویز نہیں تھے، کو افغانستان بھیجا گیا ہے۔‘
ان سے اس بارے میں جب ان خبروں کے بارے میں پوچھا گیا جن میں کہا جا رہا ہے کہ ’صرف ان افغان باشندوں کو ملک سے بھیجا رہا ہے جو غریب ہیں، نہ کہ ان افراد کو جو اثر و رسوخ رکھنے والے منشیات فروشی میں ملوث ہیں‘۔ اس پر پر وزیر مملکت نے کہا کہ ’یہ سب کے لیے ہے۔ ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے، دہشت گردی میں ملوث افراد کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق افغان شہریوں سے ہے۔‘
سینیٹر طلال چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان باشندے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، اور بڑی تعداد میں منشیات سے منسلک ہیں۔
’دنیا کی 40 فیصد منشیات افغانستان میں بن رہی ہے اور پاکستان کو ٹرانزٹ ملک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت بڑی تعداد میں افغان یہاں موجود ہیں جنہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ایسا فیصلہ کیا جو پاکستان کے مفاد میں تھا۔‘
دوسری جانب سینیٹر طلال چوہدری نے ماہ رنگ بلوچ سے متعلق کہا ہے کہ ’وہ بلوچ لبریشن آرمی کا ایک سافٹ فیس ہیں جس کے کئی شواہد موجود ہیں۔ ان کا بی ایل اے کی مذمت نہ کرنا ان کا سافٹ فیس ہونے کے مترادف ہے۔
سماجی کارکن ماہ رنگ بلوچ کی رہائی سے متعلق سوال پر وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کب ماہ رنگ کو رہا کیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ کے پاس ’بہت سارے شواہد ہیں جو بتاتے ہیں کہ ماہ رنگ بلوچ لبریشن آرمی کا ایک سافٹ فیس ہیں۔ وہ بی ایل اے کی کئی کارروائیوں کی نہ صرف اچھے طریقے سے حمایت کرتی ہیں بلکہ کامپلیمنٹ بھی کرتی ہیں۔‘
شواہد سے متعلق ضمنی سوال کہ حکومت کی جانب سے ایسے شواہد میڈیا کو پیش نہیں کیے گئے پر وزیر مملکت نے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ’واقعہ میں مارے جانے والے دہشت گرد جن کی لاشیں وہاں پر رکھی گئیں کہ شناخت کر لی جائیں، انہوں نے ان لاشوں کو مسنگ پرسنز بنا کر ان کے لیے ایک ہنگامہ کھڑا کیا۔ جو باقی شہید وہاں درجنوں کی تعداد میں پڑے ہیں، جنہیں ان افراد نے مارا ہے، ان کی مذمت نہیں کر رہے۔ اس سے زیادہ کیا شواہد ہوں گے، میں تو آپ بالکل دو جمع دو والی بات بتا رہا ہوں اور یہ سارے واقعات آپ کے کیمروں میں ہیں۔‘
پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے سے متعلق بیان پر وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہاکہ ’مذاکرات دو طرفہ ہوتے ہیں، ایک فریق کا قول و فعل لوگوں کو بتا رہا ہو کہ وہ ناقابل اعتماد ہیں تو کوئی بات نہیں کرتا۔
انہوں نے پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر سوال اٹھایا کہ ’آپ کی جماعت کیوں شامل نہیں ہوتی جب دہشت گردی یا فلسطین کے خلاف قومی سلامتی کی کانفرنس ہوتی ہے۔ آپ پاکستان کے لیے لابنگ کرنے کے بجائے ان پر سفری پابندیوں کے لابنگ کرتے ہیں۔ آپ اسی آرمی چیف کو کہہ رہے ہیں کہ میرے سے بات کرو جس کے خلاف آپ نے امریکہ میں قانون سازی move کی ہے کہ ان کو اس ملک میں نہ آنے دیا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ بات ہوگی تو اسی پارلیمان میں ہوگی، جس کمرے میں ہم بیٹھے ہیں، یہاں سے مذاکرات کی تار توڑ کر یہ خود سے گئے ہیں اور خود ہی واپس آئیں گے۔ لیکن این آر او پر بات نہیں ہو گی۔‘
اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے سے متعلق طلال چوہدری نے کہا ’اسٹیبلشمنٹ نے بڑا واضح کہہ دیا ہے کہ وہ بات نہیں کریں گے، سیاسی حکومت بات کرے گی۔‘