صدر ایف پی سی سی آئی کی قیادت میں کاروباری وفددورہ بنگلہ دیش پر ڈھاکہ پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
صدر ایف پی سی سی آئی کی قیادت میں کاروباری وفددورہ بنگلہ دیش پر ڈھاکہ پہنچ گیا
وفد اپنے دورے میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس ، مشیر تجارت شیخ بشیر الدین اور کاروباری افراد سے ملاقاتیں کریگا
پاکستان اور بنگلہ دیش میں باہمی تجارت کا حجم 80کروڑ ڈالر ہے جسے 2سے 3ارب ڈالر تک لے جایا جاسکتا ہے، عاطف اکرام شیخ
اسلام آباد /ڈھاکہ ( )صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ کی قیادت میں پاکستان کا کاروباری وفد بنگلہ دیش کے دورے پر ڈھاکہ پہنچ گیا ، بزنس کمیونٹی کے وفد میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 35سے زائد برآمد کنندگان اور صنعتکاروں شامل ہیں ،وفد اپنے دورے میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس اور مشیر تجارت شیخ بشیر الدین سے بھی ملاقات کریگا۔صدرفیڈریشن آف پاکستان چیمبرز عاطف اکرام شیخ نے بنگلہ دیش پہنچنے پر اہم بیان میں کہا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تجارتی تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے بزنس کمیونٹی کا دورہ انتہائی اہم ہے،پاکستانی بزنس کمیونٹی کے وفد کا دورہ بنگلہ دیش دونوں ملکوں کے اقتصادی تعلقات کو نئی جہت دے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 80کروڑ ڈالر کی سطح پر ہے، دونوں ممالک توجہ دیں تو اس حجم کو باآسانی 2 سے 3 ارب ڈالر کی سطح تک لے جایا جاسکتا ہے،دونوں ملکوںمیں ٹیکسٹائل ، ادویات ، پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات میں اضافے کی وسیع گنجائش ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاجر برادری وفود کے تبادلوں سے خاطر خواہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ: وجہ کیا ہے اور پاکستانی معیشت کو کیا فائدہ ہوگا؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران زر مبادلہ کے سرکاری ذخائر 40 لاکھ ڈالر اضافہ کے ساتھ 8 ارب 2 کروڑ 19 لاکھ ڈالر کی سطح پر آ گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق 22 مارچ کو زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کی مالیت 13 ارب 42 کروڑ 76 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی جس میں سے کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 40 کروڑ 57 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔
زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟ اور اس سے پاکستانی معیشت کو کیا فائدہ ہوگا؟
اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں حکومتی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔
ماہر معاشیات عابد سلہری کے مطابق زرمبادلہ میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم نے جو اقدامات فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کئے تھے، ان سے کافی مدد ملی۔ کیونکہ زرمبادلہ ہنڈی حوالہ کے ذریعے بھی آ رہا تھا۔ اب وہ تمام راستے بند ہو گئے ہیں۔ اور زرمبادلہ ایک باقاعدہ چینل کے ذریعے آ رہا ہے جو زرمبادلہ میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔
دوسری وجہ ڈالر کے ریٹ کا گزشتہ 2 برس سے مستحکم رہنا ہے۔ تیسری بڑی وجہ رئیل اسٹیٹ پر ٹیکسز ہیں۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانی جو پہلے ملک میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، اب ٹیکسز کی وجہ سے وہ اپنی سیونگز ڈالر اکاؤنٹس یا روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں رکھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک مزید ضروری پہلو یہ ہے کہ جن خلیجی ممالک میں معاشی سرگرمیاں بہتر ہوئیں، وہاں سے بھی کافی زرمبادلہ آ رہا ہے۔ ان تمام چیزوں کا مثبت اثر زرمبادلہ کی صورت میں ملا ہے۔
عابد سلہری کے مطابق وہ رواں مالی سال ریکارڈ زرمبادلہ کی توقع کر رہے ہیں۔ کیونکہ رواں مالی سال میں کافی عرصے کے بعد 2 عیدیں آئیں گی۔ عیدین کے مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے پیاروں کو پیسے بھیج رہے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر رمضان میں زکوۃ اور عیدالاضحیٰ پر قربانی کے لیے ڈالرز، پاؤنڈز یا درہموں میں رقم بھیج رہے ہوتے ہیں جو زرمبادلہ میں اضافے کی نمایاں وجہ بنتے ہیں۔
معاشی ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں مارچ میں زرمبادلہ کے بڑھنے کی 4 وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔ ایک عید اور رمضان کا اثر، دوسرا روپے اور ڈالر کے برابر ہونے میں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں کوئی فرق نہیں رہا، تیسری بڑی وجہ بیرون ممالک پاکستانی ورک فورس کی ضرورت اور بڑی تعداد میں ورک فورس کا ان ممالک میں جانا زرمبادلہ میں اضافے کی وجہ بنا۔
چوتھی بڑی وجہ جب پاکستان میں اشیائے خورونوش سمیت تقریباً ہر چیز کی قیمت میں اضافے کی شرح رہی ہے تو لوگوں کے ہاں پیسے کی ضرورت بڑھی، تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے خاندانوں کے لیے زیادہ رقم بھیجنا شروع کی۔ اس سے زرمبادلہ میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں کہ مستقبل کا ڈیٹا اب بہت ضروری ہو گیا ہے۔ تاکہ ہم تعین کر سکیں کہ اس میں عید کا اثر کتنا تھا۔ اور باقی فیکٹرز کا کتنا اثر ہوا۔
معاشی ماہر راجہ کامران نے بھی بتایا کہ زرمبادلہ میں اضافے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ جس کی ایک وجہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زیادہ سے زیادہ اپنا سرمایہ ملک میں بھیج رہے ہیں۔ اور یہ زرمبادلہ بھی بینکاری ذرائع سے آ رہا ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے جو پالیسز اپنائی ہیں، اس سے اب انہیں فائدہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کا آنا پاکستانی معیشت کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔ اس وقت کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 200 ڈالر ہونا چاہیے مگر حکومت نے اس کو 280 روپے کے لگ بھگ رکھا ہوا ہے۔ اگر اضافی ڈالر کا ریٹ ہوتا تو اسٹیٹ بینک مداخلت کرکے ڈالر اٹھا لیتا ہے۔ جس سے اسٹیٹ بینک میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان پالسیوں سے مارکیٹ میں استحکام کا عنصر قائم ہے۔ روپے کی قدر کے مستحکم ہونے سے ڈالر کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔ بالخصوص قرضوں کی ادائیگی میں بہت آسانی ہو جائیں گی۔ راجہ کامران کہتے ہیں کہ قرضے لے کر جو ادائیگیاں کی جاتی تھیں۔ اس سے ہٹ کر اپنے ترسیلات زر سے ادائیگیاں کرنا مثبت علامت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی درآمدات بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر پاکستان کو ایکسپورٹ میں بھی مدد دیں گی۔
’ ایک بہت احسن پہلو یہ بھی ہے کہ ہم سالانہ 4 ارب ڈالر کے بینچ مارک پر پہنچ گئے ہیں۔ ایسا تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اور یہ مثبت اس لیے ہےکہ پاکستان پر ایک عرصہ معاشی بحران رہا ہے۔ اس کی وجہ ڈالرز نہ ہونا تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بہت سے ممالک میں ورک فورس کی کمی ہے، انہیں نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان ان ممالک میں اپنی ورک فورس بڑھائے تاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید اضافہ ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ترسیلات زر