مودی کے دورے سے قبل مقبوضہ کشمیر میں پابندیاں مزید سخت
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
جموں میں مقیم ایک سینئر صحافی نے کہا کہ یہ دورہ امن یا ترقی کے لئے نہیں بلکہ حالات کو معمول کے مطابق ظاہر کر کے دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں حکام نے پیر کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ سے قبل پابندیاں مزید سخت کر دی ہیں جس سے علاقے کی محصور آبادی میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق دورے کو جسے ایک پروپیگنڈہ دورے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کشمیری عوام کی آزادی اور انصاف کی خواہشات کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے اور پورے علاقے میں اضافی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں جس سے عام لوگوں کی نقل و حرکت تقریبا ناممکن ہو کر رہ گئی ہے۔ سرینگر سے موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ مواصلاتی نگرانی کو بڑھا دیا گیا ہے جبکہ سکیورٹی کے نام پر عوامی اجتماعات پر پہلے سے عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ مودی کے دورے کو بھارتی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میںترقی کی طرف ایک قدم کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ علاقے پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو جائز قرار دینے اور کشمیری عوام کو درپیش مشکلات اور زمینی حقائق کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔
سرینگر کے ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا کہ یہ دورہ جدوجہد کرنے والے کشمیری عوام کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے جو بھارت کے فوجی تسلط میں مسلسل مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ مقامی باشندوں اور سیاسی مبصرین نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں وحشیانہ فوجی کارروائیوں پر مودی کی مذمت کرتے ہوئے انہیں کشمیریوں کی مشکلات بڑھانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کشمیری ان کے دورے کو بھارت کی دھوکہ دہی اور مظالم کی ایک اور کڑی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جموں میں مقیم ایک سینئر صحافی نے کہا کہ یہ دورہ امن یا ترقی کے لئے نہیں بلکہ حالات کو معمول کے مطابق ظاہر کر کے دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب یہ خطہ دنیا کے سب سے زیادہ فوجی جمائو والے علاقوں میں سے ایک ہے جہاں بھارتی فوجیوں کی موجودگی سے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی کے نام نہاد ترقیاتی ایجنڈے کا مقصد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو دبانے سے بین الاقوامی توجہ ہٹانا ہے۔
انسانی حقوق کی ایک مقامی تنظیم کے ترجمان نے کہا کہ کشمیری عوام امن یا ترقی کے خلاف نہیں، لیکن حقیقی امن اور ترقی صرف فوجی قبضے کو ختم کر کے اور کشمیریوں کے حق کا احترام کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے ترقی کے بارے میں بھارت کے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کو مواصلاتی بندشوں، جبری گرفتاریوں اور اختلاف رائے کو منظم طریقے سے دبانے کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس سرزمین کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہو وہاں امن اور ترقی کیسے پروان چڑھ سکتی ہے؟ مودی کے پروپیگنڈا دورے کے دوران بھی کشمیری عوام تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کا مطالبہ کر رہے ہیں، ایک ایسا حل جس میں ان کے بنیادی حقوق اور خواہشات کو تسلیم کیا گیا ہو۔ کشمیریوں کے نزدیک فوجی قبضے میں ترقیاتی منصوبوں کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ یہاں لوگوں کی آزادی اور وقار کو دبایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی مبصرین مودی کے دورے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پروپیگنڈہ دورے سے کشمیریوں کی حالت زار کو چھپایا جا سکتا ہے یا بالآخر سچائی سامنے آ کر رہے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کشمیری عوام نے کہا کہ بھارت کے یہ دورہ مودی کے ترقی کے کے دورے رہا ہے کے لئے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی جبری گمشدگیوں کی شدید مذمت
ذرائع کے مطابق جبری گمشدگیوں کے بارے میں جنیوا میں 15جنوری کو دو روزہ عالمی کانگریس منعقد کی گئی۔ کانگریس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو رکوانے کے لیے عالمی عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بین الاقوامی ماہرین اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر جبری گمشدگیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جبری گمشدگیوں کے بارے میں جنیوا میں 15جنوری کو دو روزہ عالمی کانگریس منعقد کی گئی۔ کانگریس میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو رکوانے کے لیے عالمی عزم کا اعادہ کیا گیا۔ اس دوران جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری، ان کی تلاش کے طریقہ کار کو مضبوط کرنے اور متاثرین، انسانی حقوق کے علمبرداروں، وکلا اور صحافیوں نے جبری گمشدگیوں سے تحفظ جیسے موضوعات پر تفصیلی غور کیا گیا۔ کشمیر میں جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی واضح مثال ہیں۔ 1989ء سے اب تک 10ہزار سے زائد کشمیریوں کو بھارتی فوج نے حراست کے دوران لاپتہ کیا ہے۔ جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی اور دوران حراست لاپتہ کشمیریوں کے والدین کی تنظیم ”اے پی ڈی پی” جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیریوں کے بھارتی فوج کی حراست میں لاپتہ ہونے کے واقعات کو دستاویزی شکل دینے پر سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں خرم پرویز اور پروینہ آہنگر کو بین الاقوامی فورموں پر کشمیریوں کی آواز بلند کرنے سے روکنے کیلئے غیر قانونی طور پر قید اور دیگر پابندیوں کا سامنا ہے۔کشمیر میں انسانی حقوق اور انصاف کے بارے میں انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل کی تحقیقات میں اجتماعی قبروں میں 2 ہزار 9 سو سے زائد کشمیریوں کی موجودگی کا انکشاف کیا گیا جن میں اکثریت کو مجاہدین قرار دیکر شہید کیا گیا۔ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ علاقے میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔دوران حراست لاپتہ ہونے والے کشمیریوں کے خاندان خاص طور پربیویوں کو نفسیاتی، سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ کانگریس کے مقررین نے عالمی برادری پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو جوابدہ بنانے کا مطالبہ کیا اور کشمیر میں جبری گمشدگیوں اور گمنام اجتماعی قبروں کی فوری آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔