وزیردفاع کا افغانستان کےقائم مقام وزیرخارجہ کے بیان پرسخت ردعمل، الزامات مسترد کردیے
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کےقائم مقام وزیرخارجہ کےبیان پرسخت ردعمل دیتے ہوئے تمام الزامات مسترد کردیے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ افغانستان کےقائم مقام وزیرخارجہ کے الزامات پاکستان پرملبہ ڈالنےکی کوشش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یواین مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کےمطابق افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی، القاعدہ، داعش سمیت 2 درجن سےزائد دہشت گرد گروپ آپریٹ کررہےہیں جب کہ افغانستان 2024 میں داعش کی بھرتیوں اور سہولت کاری کا مرکز رہا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ عبوری افغان حکام دہشت گردی کےبنیادی ڈھانچےاورافغان سرزمین کو دوسرےممالک کےخلاف استعمال ہونےسے روکنےکیلئے اقدامات کریں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
روس ہمارے ریجن میں لیڈر بن سکےگا؟
پاکستان انڈیا مذاکرات کریں، آرگنائز کرائم اور دہشتگردی کے خلاف خطے میں مل کرکام کریں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بھی بڑھائیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا کاؤنٹر ٹیررازم فریم ورک مؤثر ہے۔ ساؤتھ ایشیا اور سنٹرل ایشیا کے سیکیورٹی مسائل کو حل کرنے کے لیے اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لارووف نے 14 جنوری کو یہ باتیں کی ہیں کہ ایس سی او کو روس، چین، قازقستان، کرغستان، تاجکستان اور ازبکستان نے سیکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہی مل کر بنایا تھا۔ 2017 سے پاکستان انڈیا اس فورم کے ممبر ہیں۔ دونوں ملکوں میں تناؤ کی ایک تاریخ ہے، ایس سی او کے اندر بھی اعتماد کو بڑھانا چاہیے۔ ایس سی او فریم ورک کے علاوہ افغانستان پر ماسکو فارمیٹ کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
روس نے حال ہی میں افغان طالبان حکومت کو ممنوعہ فہرست سے نکالنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے افغان طالبان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ماسکو کا اسٹریٹجک اتحادی قرار دیا ہے۔ ضمیر کا بلوف افغانستان کے لیے روس کے خصوصی نمائندے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ایک ورکنگ گروپ تشیکل دیا جائے گا۔ ماسکو افغان طالبان حکومت اپنے بین الحکومتی کمیشن برائے اقتصادی تعاون میں بھی جگہ دے گا۔
روسی صدر پاکستان کو نارتھ ساؤتھ کوریڈور میں شمولیت کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ یہ نارتھ ساؤتھ کوریڈور انڈیا کو ایران کے راستے روسی شہر سینٹ پیٹرز برگ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔ اس کوریڈور کے ذریعے یورپ تک مختلف کوریڈور سمندر، روڈ اور ریل کے ذریعے تعمیر کیے جانے ہیں۔
روس جنوبی ایشیا کو ایک بڑی پوٹینشل انرجی مارکیٹ کی صورت بھی دیکھ رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ مختلف معاہدوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ جس کے تحت روسی انرجی افغانستان لاکر آگے پاکستان اور انڈیا تک پہنچائی جانی ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے روس کو مختلف پابندیوں کا سامنا ہے۔ یورپ روس سے انرجی خریدنا ترک کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان اور انڈیا بہت بڑی متبادل مارکیٹ ہیں۔
دہشتگردی، سیکیورٹی ایسے مستقل مسائل ہیں جو سنٹرل اور ساؤتھ ایشیا کو اپنے پوٹینشل پر کام نہیں کرنے دے رہے۔ روس کے پاس انرجی کی صورت اس خطے کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ نئی منڈیوں تک رسائی، روس کے راستے یورپ سے منسلک کرنے کے منصوبے، خطے کی صورتحال بدل سکتے ہیں۔
امریکا کے نو منتخب صدر جس طرح گرین لینڈ، پانامہ، اور کینیڈا کے ایشو اٹھا رہے ہیں۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلنا ہے کہ امریکا کی توجہ اس خطے سے کافی ہٹ جائے گی۔ اس ریجن میں بہت امکانات موجود ہیں۔ روس اپنی ضرورت اور مفاد کے تحت ان مستقل موجود امکانات کو اب حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے۔
سیکیورٹی دہشتگردی کے مسائل سب کی خوشحالی میں مستقل رکاوٹ ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ٹی ٹی پی کو لیکر تناؤ کا شکار ہیں۔ خطے کے سارے ہی ملکوں کو کسی نہ کسی شکل میں دہشتگردی کا سامنا ہے۔ اپنے اجتماعی فائدے کے لیے اس ایک مسئلے پر اتفاق رائے ضروری ہے۔
پاکستان کی پوزیشن بہت دلچسپ ہے، امریکا اور چین جو اس وقت ٹریڈ وار میں مصروف ہیں ۔ ان دونوں میں سفارتی تعلقات قائم کرانے میں بھی پاکستان اہم کردار ادا کرچکا ہے ۔ دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات میں پاکستان ایک مستقل بیلنس رکھتا آ رہا ہے۔ حالیہ کچھ سال ایسے تھے جب روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے۔
افغانستان انڈیا دونوں پاکستان پر ایک اعتراض کرتے ہیں، وہ یہ کہ پاکستان بزنس پر سفارتی اور سیکیورٹی مسائل کو ترجیح دیتا ہے۔ سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے تجارت اور بزنس میں روک لگا دیتا ہے۔ پاکستان نے اب اپنا فوکس تبدیل کرکے معیشت پر رکھا ہے۔ اگر سیاست کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو پاکستان نے پچھلے دو تین سال میں معیشت کی بہتری کے لیے درکار بہت سخت اقدامات لیے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے حکومت نے تنقید اور سیاسی نقصان کی بھی پروا نہیں کی۔
شاید یہی وہ ٹیسٹ تھا جو پاکستان پاس کرگیا ہے، روس جو پہلے خاموش سفارتکاری کے ذریعے خطے میں باہمی روابط بہتر کرنے پر کام کر رہا تھا۔ اب کھل کر سامنے آیا ہے۔ اصل مسئلے اور اس کے حل کے فورم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے مسائل حل کرنے کی بات کر رہا ہے۔ روس ان مسائل کو حل کرانے میں کردار ادا کرسکا تو یقینی طور پر اپنا ایک لیڈرشپ رول منوا ہی لے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی باباوسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
امریکا ایران پاکستان روس لیڈر یورپ