تحریک انصاف نے حکومت کیساتھ مذاکرات میں ڈیڈلائن میں توسیع پر اتفاق کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
اسلام آباد (آئی این پی)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن میں توسیع پر اتفاق کیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے گزشتہ ماہ جیل میں قید پارٹی کے بانی عمران خان سے ملاقات کے بعد الٹی میٹم کا اعلان کیا تھا، اس مقصد کے لیے اب تک پی ٹی آئی اور حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹیوں کے درمیان مذاکرات کے 2 دور ہو چکے ہیں۔
پی ٹی آئی نے عمران خان اور جیلوں میں بند دیگر پارٹی رہنماں کی رہائی، 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے مظاہروں کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔یہ مذاکرات بظاہر 2 جنوری کو ہونے والی آخری ملاقات کے بعد سے تعطل کا شکار ہیں، اور اطلاعات ہیں کہ دونوں فریق مذاکرات کے طریقہ کار پر آنکھیں بند نہیں کر سکے، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے جیل میں عمران خان تک غیر نگرانی رسائی پر اصرار تنازع کی ایک نئی وجہ بن گیا ہے۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پر سعودی عرب جانیوالی خاتون گرفتار، پیٹ سے کیا نکلا؟ جانیں
پی ٹی آئی کی ڈیڈ لائن میں 20 دن باقی رہ گئے ہیں، خدشہ تھا کہ مذاکرات ختم جائیں گے۔ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شبلی فراز نے کہا کہ مثبت پیش رفت ہونے پر مذاکرات 31 جنوری سے آگے بھی جا سکتے ہیں اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی
پڑھیں:
خیبرپختوخوا واجبات: وفاقی حکام کا صوبائی حکومت کے مؤقف سے اتفاق
وفاقی حکام نے وفاق کے ذمے واجبات کے حوالے سے خیبرپختوخوا حکومت کے مؤقف سے اصولی اتفاق کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: واجب الادا 75 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا وزیراعظم کو خط
پریس سیکریٹری برائے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق پیر کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکام کے ایک اجلاس میں وفاق پر صوبے کے واجبات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اور وفاقی حکام نے اس حوالے سے صوبائی حکومت کے مؤقف سے اصولی اتفاق کیا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اور وزیر آبی وسائل کے علاوہ متعلقہ وفاقی سیکریٹریز جبکہ متعلقہ صوبائی اراکین کابینہ، چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
اس دوران پن بجلی کے خالص منافعے کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے بقایاجات، نئے این ایف سی ایوارڈ اور ضم اضلاع کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی سے متعلق معاملات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔
متعلقہ صوبائی حکام کی طرف سے اجلاس کے شرکا کو مذکورہ معاملات پر بریفنگ۔ اجلاس میں ان معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے وفاقی سطح پر کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
صوبائی حکام نے اجلاس کو بتایا کہ پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق کے ذمے صوبے کے 1900 ارب روپے کے بقایاجات ہیں جبکہ پن بجلی کے منافع کی ادائیگیوں کے عبوری طریقہ کار کے تحت بھی وفاق کے ذمے 77 ارب روپے واجب الادا ہیں۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ ان ادائیگیوں کے طریقہ کار کے لیے آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد بلایا جائے۔
مزید پڑھیے: صوبے کو حقوق نہ دیے گئے تو تحریک چلائیں گے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا
صوبائی حکومت نے کہا کہ آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کی سفارشات کی حتمی فیصلے کے لیے جلد سی سی آئی کے اجلاس میں پیش کی جائیں۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس سلسلے میں وزیر اعظم کو مراسلہ بھی ارسال کرچکے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ سابقہ قبائلی علاقوں کا صوبے کے ساتھ انتظامی انضمام تو ہوگیا لیکن مالی انضمام ابھی تک نہیں ہوا۔ قبائلی علاقوں کے انضمام سے صوبے کی آبادی مجموعی ملکی آبادی کے 14.7 فیصد سے بڑھ کر 17.7 فیصد ہوگئی لہٰذا آبادی کے تناسب سے این ایف سی میں صوبے کا حصہ 14.2 فیصد سے بڑھ کر 19.46 بنتا ہے اور اس حساب سے صوبے کو این ایف سی میں سالانہ 350 ارب روپے ملنے ہیں۔
صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ اس سلسلے وفاقی حکومت جلد سے جلد موجودہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کرے۔ اس وقت ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ بھی وفاقی حکومت کے ذمے ہیں۔ رواں مالی سال کے لیے ضم اضلاع کے اخراجات جاریہ کا حجم 127 ارب روپے ہے لیکن اس کے مقابلے میں وفاقی حکومت نے صرف 66 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
صوبائی حکومتنے بتایا کہ باقی خسارہ صوبائی حکومت اپنے وسائل سے پورا کر رہی ہے لہٰذا وفاقی حکومت اس بجٹ کو بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل پر پی ٹی آئی حکومت مشکل میں، اپنے ہی ارکان کی مخالفت
اجلاس میں بتایا گیا کہ ضم اضلاع کے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی آبادی کاری کے لیے وفاق نے مزید 66 ارب روپے دینے ہیں۔ ضم اضلاع کے 10 سالہ تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے لیے وفاق نے سالانہ 100 ارب فراہم کرنے تھے۔ اس مد میں وفاق نے اب تک 600 ارب روپے کے مقابلے میں صرف 122 ارب روپے فراہم کیے ہیں
صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ وفاق کی طرف سے اے آئی پی پروگرام کے لیے کمیٹی کی تشکیل غیر قانونی اقدام ہے۔
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پن بجلی کے منافع، این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز سے متعلق ہمارے سارے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں اور ہم نہ کوئی غیر قانونی مطالبہ کر رہے ہیں نہ ہی کچھ اضافی مانگ رہے ہیں لہٰذا ان معاملات سے متعلق وفاقی حکومت آئینی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ضم اضلاع کے مخصوص حالات وفاق کے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کے لیے وفاقی حکومت جلد اجلاس بلائے۔
اس موقعے پر وفاقی حکام نے یقین دہانی کرائی کہ ضم اضلاع کے فنڈز کی فراہمی کے لیے ترجیحی بنیادوں اقدامات کیے جائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خیبر پختونخوا واجبات خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور