امریکہ میں قیامت خیز مناظر، آگ بگولے بن کر امریکیوں پر ٹوٹ پڑی، ہلاکتوں میں ہوشرباء اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
نیویارک (نیوزڈیسک)امریکی شہر لاس ایجلس میں ہولناک آگ کے باعث کئی گھر اور عمارتیں تباہ ہوگئیں جس کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے اور پورے شہر میں قیامت کا سماء ہے۔وہیں اب اطلاعات سامنے آئی ہیں لاس اینجلس میں آگ لگنے کے بعد اب ’آگ کے بگولے‘ بننا شروع ہوگئے ہیں جس کے مناظر کیمرے کی آنکھ نے قید کر لیے۔
رپورٹ کے مطابق آگ بجھانے کے لیے فائر فائٹرز کی سخت محنت جاری ہے۔ تاہم حکام کو خدشہ ہے کہ اگلے ہفتے کے اوائل میں دوبارہ تیز ہواؤں کی توقع ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
لاس اینجلس کاؤنٹی میں لگنے والی سب سے بڑی آگ جسے پالیساڈیس فائر کا نام دیا گیا ہے مزید 1000 ایکڑ تک پھیل گئی ہے۔ اس سے مزید گھر تباہ ہو گئے ہیں اور لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ فوراً علاقہ چھوڑ کر اپنی قیمتی جانوں کو حفاظت کو یقینی بنائیں۔
پالیساڈیس آگ نے 22,000 ایکڑ سے زیادہ کا ایک بڑا رقبہ جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ CAL فائر کے اہلکار ٹوڈ ہاپکنز کے مطابق، آگ سے 5,000 سے زائد عمارتیں تباہ ہوئیں جن میں 426 گھر بھی شامل ہیں۔
وہیں ایک چونکا دینے والی ویڈیو بھی سوشل میڈیا زیر گردش ہے جس میں دکھایا گیا کہ پالیساڈیس فائر سے آگ کے بگولے (شعلوں کا بھنور) اٹھنا شروع ہوگئے ہیں
، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب شعلوں کا ایک بڑا کالم قابو سے باہر ہو کر دھواں، راکھ اور جلتا ہوا ملبہ اٹھاتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب آگ سے گرم ہوا اٹھتی ہے اور گھومنے لگتی ہے۔امریکی جنگلات میں لگی آگ بے قابو، 5 افراد ہلاک، ایک لاکھ سے زائد افراد علاقہ چھوڑنے پر مجبوررپورٹ میں بتایا گیا کہ آگ کے بگولے بننے کے عمل نے حکام کی تشویش مزید بڑھا دی ہے۔
لاس اینجلس کے فائر ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے ڈیوڈ اورٹیز نے کہا کہ آگ بہت سی مختلف سمتوں میں مسلسل پھیل رہی ہے اور بڑھ رہی ہے۔واضح رہے کہ امریکا کے شہر لاس اینجلس میں منگل سے لگی بدترین آگ پر تاحال قابو نہ پایا جاسکا جس کے باعث 12 ہزار سے زائد مکان اور عمارتیں جل کر راکھ ہوگئیں۔
لاس اینجلس میں بھڑکنے والی آگ مزید آگے بڑھنے لگی، 12 ہزار عمارتیں ختم، اموات بڑھ گئیں
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: لاس اینجلس
پڑھیں:
کرم: امدادی قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 10
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) کرم میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زائد سے حالات کشیدہ ہیں اور علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ وہاں کی آبادی ایک طرح سے محصور ہو کر رہ گئی۔ جمعرات کو انہی لاکھوں محصور شہریوں کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لے جانے والے 33 گاڑیاں پر حملہ کیا گیا تھا۔
کرم: تعاون نہ کرنے کی پاداش میں اشیائے ضرورت کی سپلائی بند
ایک مقامی پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد اب دس تک پہنچ چکی ہے اور ہلاک شدگان میں دو سکیورٹی اہلکار، چار ڈرائیور اور چار شہری شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ پانچ سے چھ ڈرائیورز کو ایک مقامی گروپ نے اغوا کر لیا ہے۔(جاری ہے)
ضلع کرم حالیہ برسوں سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں کی لپیٹ میں رہا ہے. لیکن پھچلے سال نومبر میں تشدد میں اضافہ تب ہوا جب حملہ آوروں نے شیعہ مسلمانوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر فائرنگ کی، جس میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔
تب سے لے کر اب تک اس تشدد میں کم از کم 140 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اس فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں کا استمعال کر رہے ہیں۔
قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے میں صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔ ضلع کرم کا رابطہ فی الحال بیرونی دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔