2024ء ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھونچالوں کی زد میں رہا۔ ہمارے ہاں سیاسی چپقلش، ہر سطح پر عدم برداشت، الجھاؤ، تناؤ قومی فطرتِ ثانیہ بن گئی لگتی ہے۔ نفسا نفسی، انانیت، مقابلہ بازی نے ڈیرے جمارکھے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ شہر میں ایک آدھ ہی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہوتا تھا۔ مسجد، سجدے، بزرگوں کی دعائیں کافی ہو جایا کر تی تھیں۔ اب ہر کس وناکس سوشل میڈیا پر سر کھپائی، تجارت پیشہ موٹیویشنل سپیکرز، وی لاگرز (الا ماشاء اللہ) اور بالآخر ماہرینِ نفسیات، کونسلنگ کے پھیر میں رہتے ہیں۔ شخصیت و کردار سازی،صبر و تحمل، سادگی، ایثار سب ساتھ چھوڑ گئے۔زندگی کے ہر دائرے میں سطحیت یا پھر نرگسیت کا دور دورہ ہے۔کتنی جوانیاں یورپ جانے کے خواب دکھا کر سمندروں کی نظر کر دیں۔ یا غیر قانونی سرحد عبور کرتے گولیاں کھا کر اپنے ساتھ خاندانوں کو بھی ویران کر دیا۔ پیسہ الگ برباد ہوا۔ نیا شمسی سال ملک وملت کے لیے خیر کی خبر لائے۔ پروردگار اپنی شانِ کریمی سے ہی ہمیںاپنی رہنمائی سے نواز کر ہمارے سارے چاک رفو کردے!
پورا سال غزہ کے غم نے اعصاب شل کیے رکھے۔ ہولو کاسٹ اگر کچھ ہے تو وہ ہم نے بہ چشمِ سر دنیا کے وسط غزہ میں درندگی، بے رحمی کی انتہا پر دیکھ لیا۔ تاآنکہ اب اسرائیلی اپوزیشن لیڈر بائیڈن کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ اس نے جاتے جاتے 8 ارب ڈالر اضافی فوجی امداد دی اور اپنی حمایت سے نواز کر غزہ جنگ لڑنے کے قابل بنایا۔ (70 تا 80 فی صد اسلحہ بھی امریکہ نے فراہم کیا۔ 85 ہزار ٹن بارود غزہ پر گرایا جا چکا۔) اب بمباری 2025 ء کے نئے ریکارڈ بنانے کو جاری وساری ہے۔ تازہ ترین بمباری پر فلسطینی کا سوال تھا، کہ یہ 15 ٹینٹوں کی بستی پر حملہ کیا معنی رکھتا ہے جبکہ اس میں عورتیں، بچے اور بوڑھے تھے اور ہماری کل متاع پھٹے ٹینٹوں (بارش میںٹپکتے) کے سوا کچھ بھی تو نہیں! اسرائیلیوں، امریکیوں (وائٹ ہاؤس، پینٹاگون) کے سینوں میں دم ہے دل نہیں ہے! یا جیسے اللہ نے فرمایا:’پتھر کی طرح (سخت) بلکہ اس سے بھی زیادہ قساوتِ قلبی! یا جانوروں کی طرح، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے!
یہ ارشاد ملاحظہ ہو امریکی سفیر برائے اسرائیل جیکب لیؤ کا۔ جب ’فیوز نیٹ‘ ادارے نے رپورٹ دی کہ ’ اسرائیل کی طرف سے خوراک اور انسانی ضروریات کی غزہ کے لیے بندش پر بھوک سے اموات اگلے ماہ تک فاقہ زدگی (Famine) کی سطح پار کر جائے گی۔‘ اس پر امریکی سفیر نے سفاک ڈھٹائی سے کہا کہ یہ درست نہیں کہ ان پر جبری بھوک مسلط کی گئی ہے (اموات دینے کو۔) کیونکہ غزہ میں نسلی صفایا (Ethnic Cleansing) پہلے ہی تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود آج بھی بمباری جاری ہے؟ نسلی صفایا سے مراد 23 لاکھ (قبل از 7 اکتوبر 2023ئ) فلسطینی آبادی کیا ختم کی جا چکی ہے؟ جبکہ رائٹر، AFP کی 5 جنوری 2025 ء رپورٹ میں 45,805 فلسطینی اسرائیل نے اب تک قتل کیے ہیں (بمباریوں اور بھوک سے) اعدادو شمار کا کیا ہیر پھیر ہے کہ سال بھر بلا تعطل بمباریوں کے باوجود ایک لاکھ سے بھی کم؟ باقی فلسطینی کہاں گئے!
یہ سرزمینِ شام (جو خلافت عثمانیہ کے تحت یا اسلامی اصطلاح بلاد الشام کی رو سے لبنان، شام، اردن، فلسطین پر مشتمل ہے۔) میں غزہ فتح کرنے میں سال بھر جتے رہے۔ مگر نہ کر سکے! غزہ نے سبھی اسلحے کے انبار مغرب کی مہذب دنیا کے، اپنے سینے پر سہہ کر بھی سر بلندی ، عزیمت اور استقامت کی عجب تاریخ اپنے لہوسے رقم کی ہے۔ امریکہ اسرائیل ناکام و نامراد، خائب و خاسر روسیاہ ہے آج بھی۔
غزہ سے نمٹے نہ تھے، افغانستان میں شرمناک شکست کا داغ دھلا نہ تھا کہ شام نے مزید چر کے لگا دیئے۔ 54 سال کا قرضہ11دن میں چکا دیا! گھگھی بندھی شامی فوج یونیفارم اتار کر بھاگ نکلی۔ بشار الاسد روس فرار ہو گیا۔ امریکہ بشار کو نکالنا نہ چاہتا تھا۔ اوباما، ٹرمپ، بائیڈن سبھی چاہتے تھے کہ خانہ جنگی چلتی رہے۔ کھلی فتح کسی کو نہ ملے۔ ایک کمزور شام اسرائیل کے حق میں بہتر تھا۔ (امریکہ ہر مسلم ملک میں انتشار،
خانہ جنگی کو ترجیح بلکہ ہوا دیتا ہے تاکہ اندر سے کھوکھلے ہو جائیں۔ عراق، سوڈان، لیبیا، یمن، لبنان اور اب پاکستان۔ بلوچوں کی پشت پناہ غیر ملکی قوتیں ہیں۔) اب جو یہ اچانک یلغار ادلب سے نکلی اور دمشق جا پہنچی! اتنی مہلت مغرب کونہ ملی کہ اسرائیل، لبنان، ایران، یوکرین، غزہ گھڑمس میں ان پر کیا لیبل لگائیں۔ رد کیونکر کریں۔ ’القاعدہ‘ ہوتی تو بمباریاں کر کے سرخرو ہو جاتے۔ یہ نئے نام سے اٹھے ہیں۔ نہ اگلے بن پڑے نہ نگلے۔ سفید کلمے والے جھنڈے نے سٹی گم کر دی۔ اموی مسجد پر سانس رکنے لگی، بازی ہرتی لگی۔ اچانک اٹھنے والے اس لشکر کی بھرپور پذیرائی شامی عوام نے کی اور دنیا بھر میں اسے ’آزادی‘ قرار دے کر ایسے جشن منائے کہ امریکہ منہ تکتارہ گیا! جو کسر رہ گئی تھی وہ احمد الشرع اور وزراء سبھی ٹائی سوٹ پہن کر، دو خواتین مناصب پر بٹھا کر مغرب کے ’انتہا پسندی‘ کے لیبل کو غیر موثر کر گئے۔ جرمنی، فرانس نے اپنے وفد میں دو خواتین نامناسب لباس والی بھیج کر بھی ٹسٹ کر لیا – احمد الشرع نے نگاہ بچاتے ہوئے خاتون کا بڑھا ہوا (مصافحے کو) ہاتھ نظر انداز کر کے ساتھ کھڑے مرد سے ہاتھ ملا لیا! (مغربیے اس نوجوان پاکیزہ نفسی کو کیا جانیں۔
نہایت زیرک ہے احمد الشرع، بہت دانشمندی سے کام لے رہا ہے۔ یہ اس نے رات بھر میں نہیں سیکھا۔ اس کے پیچھے تربیت اور تیاری ہے۔احمد الشرع سے لڑکیوں کی تعلیم بارے سوال اٹھایا اسے الجھانے کو افغانستان کی مثال دے کر، تو اس نے شام کے معاشرے کی مختلف اٹھان کا حوالہ دے کر بات سمیٹ دی۔ اگرچہ اب بی بی سی رپورٹ میں اس تکلیف کا پورا اظہار ہے جو عبوری حکومت نظام تعلیم میں تبدیلی کر رہی ہے۔ وزارت تعلیم کے نصاب میں واضح جھکاؤ اسلام کی طرف ہے۔سائنس سے ڈارون کا نظریہ ارتقاء اور بگ بینگ تھیوریاں نکال دینے کی بات۔ اسد دور کی شان بڑھانے والی بے راہ رو شاعری و دیگر مواد نکال دیا ۔ رومن دور کی ہیروئن ملکہ ذنوبیا نکال دی۔ اسلامی تعلیمات کی غلطیاں دور کیں۔ جس پر اب مغرب کی پروردہ سیکولر سول سوسائٹی متحرکین (پاکستان کی طرح!) کو خطرے کی گھنٹیاں بجتی لگ رہی ہیں۔ چنانچہ یورپ وغیرہ سے یہ شام لوٹنے والی سول سوسائٹی اب اپنی واویلے کی ڈیوٹی سنبھالنے کو ہے۔ حالانکہ عبوری حکومت فاتحین کی ہے جنھوں نے ادلب میں سالہا سال قربانیاں دیں، بے دخلیاں، بمباریاں، غزہ جیسے حالات سہے۔ ایران، روس، امریکہ، بشار سبھی کی دشمنی جھیلی۔ فیصلے کرنے، پالیسی سازی کو یورپ میں نوکریاں کرتے، یورو سمیٹتے جمہوری حق اور مشمولیات (Inclusive) کی رٹ لگاتے آن پہنچے۔ یہ سارے مشمولیے ، 54سال کہاں تھے جب اقلیتی صدور اکثریت کا صیدنایا جیل میں قیمہ بنا کر قبریں بھر رہے تھے؟ ملک بھر کھنڈر ، ملبہ بنا دیا تھا؟
ادھر مصر بھی مخمصے میں رہا۔ آخر تک تو سیسی بشار کو تھپک رہا تھا۔ اپنے ملک میں اخوان کی مقبول جمہوری حکومت، امریکہ کی مدد اور ایماء پر اسرائیل کے تحفظ کی خاطر الٹا کر حکومت کرنے والا سیسی بھی سسک ٹھٹھک کر رہ گیا۔ خصوصاً حماۃ فتح کر کے فاتح لشکر کے کمانڈر نے کہا کہ ہم نے اخوان (کے خون )کا بدلہ لے لیا۔ (1982 ء میں حافظ الاسد نے 3دن وحشیانہ بمباری اور قتل عام سے حماۃ کی اخوان کچل کر رکھ دی تھی!) بہر طور شامی حکومت احتیاط اور تدبر سے کامیابی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ عرب دنیا نے تیز رفتار قبولیت دی ہے نئی شامی حکومت کو۔ امدادی سامان، وفود، وزرائے خارجہ آ جا رہے ہیں۔ فرقہ واریت، اقلیت کے مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش موثر حکمت عملی سے ناکام کر دی ہیں۔ مصر نے بھی پس وپیش کے بعد خیر سگالی رابطہ کیا اور طبی ریلیف کا سامان بھی بھیجا۔ (جولائی 2020 ء میں ادلب پر مصر نے ایران کے ساتھ شراکت میں حملے کو فوج بھی بھیجی تھی!) سواب اگرچہ چیلنج تو در پیش ہیں کھنڈر بنے ملک کی بحالی اور مظلوم، دکھی، لٹے پٹے خاندان، لاپتگان کی اذیت سمیت۔ اللہ کی مدد، اخلاص و ایمان کے بل پر منزلیں اللہ سر کروا دے گا۔ ٹرمپ بھی آرہاہے۔ اس سے پہلے واشنگٹن سمیت مشرقی امریکہ بدترین برفانی طوفان کی زد میںہے۔اور کیلی فورنیا غیر معمولی آگ سے بھسم ہو رہا ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ہم امت کی خیرکے لیے دست بہ دعا ہیں!
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: احمد الشرع
پڑھیں:
امریکہ کے47ویں صدرڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور کیرئیر پر ایک نظر
ویب ڈیسک —
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے سینتالیسویں صدر کی حیثیت سے ایک مرتبہ پھر وائٹ ہاؤس پہنچے ہیں جو ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس سے پہلے وہ 2016 سے 2020 تک امریکہ کے پینتالیسویں صدر کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس تمام عرصے میں ان کی شخصیت اور نظریات نے ریپبلکن پارٹی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ صدارتی انتخابات میں ان کی دوبارہ کامیابی سے امریکی ووٹروں نے انہیں ایک بے مثال اور طاقتور مینڈیٹ دیا ہے۔
انہوں نے دو بار امریکہ کے صدر کی حیثیت سے اپنے انتخاب پراامریکی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ،”میں ہر شہری سے کہتا ہوں کہ میں آپ کے لیے لڑوں گا۔ آپ کے خاندان اور آپ کے مستقبل کے لیے۔ اور جب تک میرے جسم میں ایک سانس بھی باقی ہے۔ ہر روز میں آپ کے لیے جدوجہد کروں گا۔”
انہوں نےعزم طاہر کیا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ان کے اپنے الفاظ میں، "ہم امریکہ کو مضبوط،محفوظ اور خوشحال نہ بنا دیں، جس کے حقدار ہمارے بچے ہیں اور جس کے آپ حقدار ہیں۔”
منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ۔ فائل فوٹو
ٹرمپ۔اپنے وجدان پر انتہائی بھروسہ کرنے والی شخصیت
کرس بیوٹنر نے جو نیو یارک ٹائمز کے تحقیقاتی رپورٹر ہیں، منتخب صدر کو ایک ایسی شخصیت سے تعبیر کیاہے "جنہیں خود اپنے وجدان پر انتہائی بھروسہ ہے۔ "
سوزین کریگ، بھی نیو یارک ٹائمز سے وابستہ ایک تحقیقاتی رپورٹر ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابیوں پر بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، "انہوں نے دی نیویارک ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا اور تب وہ 20 کروڑ کے مالک تھے۔اور اس کے ایک دہائی بعد جب وہ پروگرام’ 60 منٹس ‘ میں بات کر رہے تھے تو وہ ایک ارب ڈالر کے مالک بن چکے تھے۔ "
ٹرمپ نے اپنی جانب توجہ مرکوز کرنے اور خود کو ایک ڈیل میکر بنا کر پیش کرنے میں ملکہ حاصل کیا۔ انہوں نے اپنےنام سے لائسنسنگ کانٹریکٹس کے ذریعے لاکھوں کمائے۔
ٹرمپ نے دشواریوں کا سامنا بھی کیا
Trump rating
ان کامیابیوں کے پیچھے مشکلات بھی تھیں۔ ان کی کمپنیوں نے چھ مرتبہ دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا۔ ان کے کیسینوز کو نقصان ہوا اور وہ بند ہو گئے۔
ٹرمپ اپنے ٹی وی شو “
ٹرمپ اپنے ٹی وی شو "The Apprentice” کے ذریعے واپس آئے اور یہ ان کے اب تک کے سب سے بڑے کردار کی جانب لے گیا۔
کچھ کے خیال میں ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی جزوی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی جواب میں انکار کو تسلیم نہیں کرتے ۔
US President-elect Donald Trump speaks during an choosing night eventuality during a West Palm Beach Convention Center in West Palm Beach, Florida, on Nov. 6, 2024.
غیر معذرت خواہانہ اوربلا روک ٹوک انداز کے ساتھ، ٹرمپ تقسیم پیدا کرنے والے قوم پرست امیدوار تھے۔ انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کا معاملہ ان کا ایک اہم موضوع تھا۔ ان کی ایک تقریر کا اقتباس۔
"جب میکسیکو اپنے لوگوں کو بھیجتا ہے تو وہ اپنے بہترین لوگوں کو نہیں بھیجتے۔ وہ منشیات لا رہے ہیں، وہ جرائم لا رہے ہیں، وہ ریپ کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ کچھ اچھے لوگ بھی ہیں۔”
صدر کے طور پر ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے تین جج مقرر کیے جنہوں نے اسقاطِ حمل کے وفاقی حقوق کو تبدیل کر نے میں مدد دی۔
2020 کے اوائل میں کووڈ 19 کی وباء
2020 کے اوائل میں کووڈ 19 کی وباء ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک آزمائش تھی۔ انہوں نے زندگی بچانے والی ویکسینز کی تیز رفتاری سے تیاری پر زور دیا لیکن ساتھ ہی بظاہر انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ سائنسدان وائرس کو ختم کرنے کے لیے جسم میں بلیچ داخل کرنے پر تحقیق کریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ۔ فائل فوٹو
ایک ایسے وقت میں جب 90 لاکھ سے زیادہ امریکی کووڈ سے متاثر ہوئے اور مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کر گئی، اس سال نومبر کے صدارتی انتخابات میں ووٹروں نے جو بائیڈن کو اپنا آئندہ صدر منتخب کر لیا۔
ٹرمپ کے خلاف مقدمات
اپنے منصب سے الگ ہونے کے بعد ٹرمپ کو متعدد فوجداری الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پہلے ایسے سابق صدر ہیں جنہیں فوجداری جرم کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔ تاہم اس کے باوجود وہ ہمیشہ سے زیادہ مقبول ہیں
گزشتہ سال ٹرمپ دو قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے۔ جن کی وجہ سے ان کے حامیوں سے ان کا رشتہ اور مضبوط ہوا۔
پیم اسمتھ، منتخب صدر ٹرمپ کی حامی ہیں، ان حملوں کے وقت انہوں نے کہا تھا، "خدا نے ٹرمپ کے لیے کچھ سوچ رکھا ہے۔ ان کی جان یقیناً کسی مقصد، کسی خاص وجہ سے بچی ہے اور توقع ہے کہ ایسا اسی لیے ہوا کہ وہ ملک کے سینتالیسویں صدر بنیں۔”
ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکی سیاست پہلے جیسی نہیں رہی۔ وہ شخص جس نے کبھی جرنلسٹ کیٹ بانر کے ساتھ مل کر "دی آرٹ آف دی کم بیک”نامی کتاب لکھی تھی، میدان میں واپسی کا فن استعمال کرتے ہوئے اب ایک بار پھر اقتدار میں واپس آ رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ۔