کیا غیر منصفانہ قانون کی پابندی لازم ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
سقراط کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے، اگلی صبح انہیں زہر کا پیالہ دیا جائے گا۔
ان کا شاگرد کریٹو ان کے پاس پہنچ کر انہیں آگاہ کرتا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی ان کو قید خانے اور ایتھنز سے فرار کرانے کا بندوبست کرچکے ہیں؛ بس سقراط مان لیں، تو باقی تیاری پوری ہے۔
لیکن سقراط کوئی بھی بات یونہی ماننے والے تو نہیں تھے۔ انہوں نے تو ساری عمر اسی اصول پر گزاری تھی کہ بغیر سوچے اور پرکھے کوئی بات قبول نہیں کرنی، اور صرف وہی بات قبول کرنی ہے جو تجزیے کے بعد درست معلوم ہو، نتائج کی پروا کیے بغیر؛ اس لیے انہوں نے کریٹو سے کہا کہ وہ پہلے انہیں اس پر مطمئن کرے کہ قید خانے سے ان کا فرار اخلاقی طور پر درست فیصلہ ہوگا۔
یہاں سے وہ انتہائی دلچسپ مکالمہ شروع ہوتا ہے جس میں سقراط اور کریٹو اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ قانون کی پابندی کیوں ضروری ہے، اور کیا عدالت کا ایسا فیصلہ بھی ماننا ضروری ہے جو ہمارے نزدیک غلط ہو؟
یہ مسئلہ قانون اور اخلاق کے تعلق کا ہے۔ اس تعلق پر مغربی اصولِ قانون میں 2 بڑے مکاتبِ فکر ہیں۔ خود کو Legal Positivists کہنے والوں کا مؤقف یہ ہے کہ قانون وہی ہے جو ریاست نے وضع کرکے دیا ہے اور اس کی پابندی ’جہاں ہے، جیسے ہے کی بنیاد پر‘ ضروری ہے، قطع نظر اس سے کہ کسی فرد کے اخلاقی معیار پر وہ قانون پورا اترتا ہے یا نہیں؟ بہ الفاظِ دیگر، ریاستی قانون انفرادی اخلاقی معیار سے ماورا اور بالاتر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خود کو Naturalists کہنے والوں کا نظریہ ہے کہ ریاستی قانون سے بالاتر ایک اور قانون، ’قانونِ فطرت‘، موجود ہے جو ریاستی قانون کے لیے اخلاقی معیارات طے کرتا ہے، اور ریاستی قانون صرف اسی حد تک جائز اور نافذ العمل ہوتا ہے جس حد تک وہ قانونِ فطرت سے ہم آہنگ ہے، چنانچہ اس مکتبِ فکر کے نزدیک، غیر فطری یا غیر اخلاقی قانون سرے سے قانون ہی نہیں ہے، نہ ہی اس پر عمل جائز ہے۔
یہ صرف نظری بحث نہیں ہے، بلکہ عملی لحاظ سے اس کے نتائج بہت اہم ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا عدالت کا کام قانون کانفاذ ہے یا انصاف کی فراہمی؟ چونکہ آئین نے سپریم کورٹ کو ’مکمل انصاف‘ فراہم کرنے کا اختیار دیا ہے، اس لیے ابھی چند ماہ پہلے سپریم کورٹ کے بعض ججوں نے قانونی رکاوٹوں کو نظر انداز کرکے ان ارکانِ اسمبلی کو بھی پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت کا موقع دیا جو پہلے ہی سنّی تحریک میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انصاف ہے کیا؟ کیا قانون کا نفاذ ہی انصاف نہیں ہے یا انصاف قانون سے ماورا ہوتا ہے؟ اگر جج قانون کو نظر انداز کرکے اپنے تصورِ انصاف پر فیصلے سنانے لگیں، تو کیا لوگوں کے حقوق کا فیصلہ قانون کے بجائے ججوں کی ذاتی پسند و ناپسند پر ہوں گے؟ دوسری طرف اگر ججوں کا کام بس یہ ہے کہ وہ حقیقی زندگی کے واقعات پر قانون کا، جیسا کہ وہ ہے، اطلاق کریں، تو کیا اس طرح ریاستی بندوبست افراد کے حقوق پر حاوی نہیں ہو جائے گا؟
دوسری جنگِ عظیم کے سیاق و سباق میں 2 مشہور قانونی فلسفیوں، ایچ ایل اے ہارٹ اور لون فُلر،کے درمیان یہ اہم بحث چھڑی کہ کیا نازی جرمنی میں ریاستی اہلکاروں کو ہٹلر کے جاری کردہ قوانین اور احکام پر عمل کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟ یاد ہوگا کہ جنگ کے بعد ان اہلکاروں پر مقدمات قائم ہوئے تو ان میں کئی ایک نے یہ عذر پیش کیا کہ وہ تو قانون پر عمل کر رہے تھے اور قانون پر عمل کرنے پر سزا نہیں دی جاسکتی۔ فُلر چونکہ قانونِ فطرت کے ماننے والوں میں تھے، اس لیے ان کا کہنا تھا کہ ان قوانین کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان اہلکاروں کا یہ عذر قابلِ قبول نہیں تھا۔ ہارٹ، جو ریاستی قانون پر حاوی اخلاقی معیارات کے قائل نہیں تھے، یہ بات نہیں مان سکتے تھے، لیکن ان کے لیے سوال یہ تھا کہ پھر ان اہلکاروں کو سزا کیسے دی جاسکتی تھی؟ انہوں نے اس کا آسان حل یہ تجویز کیا کہ آج ایک ایسا قانون منظور کیا جائے جس میں یہ قرار دیا جائے کہ ہٹلر کے ان قوانین پر عمل جائز نہیں ہے، اور آج جاری کردہ اس قانون کو اس وقت سے نافذ العمل قرار دیا جائے جب ہٹلر برسرِ اقتدار آیا تھا۔ کیا اس پر یہ اعتراض بنتا ہےکہ مؤثر بہ ماضی قانون کے ذریعے کسی کو سزا دینا غیر اخلاقی کام اور ناانصافی پر مبنی عمل ہے کیونکہ جس وقت ان افعال کا ارتکاب کیا جا رہا تھا، اس وقت یہ قانون موجود ہی نہیں تھا؟ ہارٹ کے نزدیک اس اعتراض کا جواب بہت سیدھا سادہ تھا: کہ ریاستی قانون کو کسی اخلاقی معیار پر نہیں پرکھا جاسکتا۔
قانون کے لیے اخلاقی معیارات کے قائلین کسی زمانے میں قانونِ فطرت کو خدائی قانون کا حصہ مانتے تھے۔ تھامس ایکویناس اور دیگر مسیحی اہلِ علم نے یہ تصور دیا تھا کہ خدائی قانون کا کچھ حصہ وہ ہے جو انسان تنہا عقل کے ذریعے دریافت نہیں کرسکتا تھا، اس لیے وہ پیغمبروں کو وحی کے ذریعے دیا گیا؛ جبکہ وہ حصہ جو عقل سے دریافت کیا جاسکتا تھا، اسے انسانی عقل پر چھوڑ دیا گیا اور اسی کو قانونِ فطرت کہتے ہیں۔ یوں قانونِ فطرت کے اخلاقی معیارات کو خداکی جانب سے وحی کیے گئے قانون کی طرح اور اس کے برابر واجب التعمیل مانا گیا۔
بعد میں جب طویل کشمکش کے بعد ریاست اور قانون کی بحث سے مذہب کو نکال باہر کیا گیا، تو ہیوگو گروتیس اور دیگر قانونی فلسفیوں نے مذہب کے بجائے مجرد انسانی عقل کو قانونِ فطرت کا ماخذ مان لیا۔ پھر اس لامذہبی اور مجرد عقلی اخلاقیات کے معیارات پر بھی تفصیلی تنازعات پیدا ہوئے۔ بالخصوص یہ سوال بار بار سامنے آتا رہا کہ قانونِ فطرت کا ماننا کیوں لازم ہے؟
اس سوال کا ایک جواب جان لاک جیسے ان فلسفیوں نے دیا جنہوں نے ریاست کو ایک ’عمرانی معاہدے‘ کی تخلیق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کے وجود میں آنے سے قبل انسان آزاد تھا اور ’حالتِ فطرت‘ میں، جب نہ کوئی حاکم تھا اور نہ محکوم، اسے ’فطری حقوق‘ حاصل تھے؛ بعد میں جب انسانوں نے آزادی کا غلط استعمال کیا اور مسائل پیدا ہوئے، تو بالآخر سب اس پر مجبور ہوئے کہ وہ باقاعدہ ریاستی نظم تشکیل دے کر اپنے ’کچھ حقوق‘ اس کے سپرد کریں تاکہ ریاستی نظم ان کے باقی حقوق کا تحفظ کرے۔ یوں ریاست کا مقصدِ وجود انسان کی فطری آزادی اور فطری حقوق کا تحفظ قرار پایا۔ یہی تصور امریکی آئینی نظام کی بنیاد بنا۔ دوسری طرف ژاں ژاک روسو نے اس تصور کو ’جمہوری لبادہ‘ پہنایا اور انقلابِ فرانس کی صورت میں قانونِ فطرت اور جمہوریت کا ملغوبہ سامنے آگیا جس میں فرد بیک وقت حاکمِ مطلق بھی قرار پایا اور محکومِ مطلق بھی!
کچھ مزید عرصہ گزرنے کے بعد جیریمی بینتھم نے قانونِ فطرت اور فطری حقوق کو محض افسانہ قرار دیتے ہوئے ’لذت‘ کو بنیادی اخلاقی قدر قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی قانون کو پرکھنے کے لیے معیار بس یہ ہے کہ کیا وہ ’زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ لذت‘ دینے میں کامیاب ہے یا نہیں؟ انگلینڈ میں، جہاں بینتھم کے ان افکار کو قبولیت ملی، بادشاہ کو زمین پر خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا اور اینگلی کن چرچ کے پیروکاروں کے لیے مذہبی امور میں بادشاہ کی حیثیت وہی تھی جو رومن کیتھولک چرچ میں پوپ کے لیے ہوتی تھی۔
’مقدس رومی سلطنت‘ میں تو پھر بھی مذہبی امور اور دنیوی امور کے سربراہ – پوپ اور بادشاہ – الگ الگ تھے، لیکن جب انگلینڈ میں بادشاہ نے مذہبی اور سیاسی دونوں امور کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لے لی، تو اب بادشاہ کے جاری کردہ فرمان کو مذہبی تقدس بھی حاصل ہوگیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بادشاہ کے اختیارات پارلیمان کو منتقل ہوگئے تو انگلینڈ کے قانونی نظام کا اصل الاصول یہ قرار پایا کہ جائز و ناجائز اور صحیح و غلط کا اختیار پارلیمان ہی کو حاصل ہے۔ اب عقیدہ یہ ہوا کہ پارلیمان جو کچھ زمینوں پر باندھتی ہے، وہی کچھ آسمانوں پر باندھا جاتا ہے، اور جو کچھ وہ زمینوں پر کھولتی ہے، وہی کچھ آسمانوں پر کھولا جاتا ہے۔ چنانچہ برطانیہ اور اس کے زیرِنگیں ممالک میں یہ نظریہ رائج ہوا کہ ریاست ہی قانون اور حقوق کی تنہا ماخذ ہے۔ ریاست جب چاہے، حقوق کو معطل یا منسوخ بھی کرسکتی ہے اور ریاست کے بنائے ہوئے قانون کی اخلاقی حیثیت پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
تاہم بیسویں صدی کے نصف آخر میں ریاستی قوانین سے بالاتر ’انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون‘نے پھر ریاستی قوانین کے لیے قانونِ فطرت اور اخلاقی معیارات کی بحث چھیڑ دی۔ یہ سوال پھر اہمیت اختیار کر گیا کہ اگر ریاستی قانون اخلاقی معیار پر پورا نہ اترے اور عدالتی فیصلہ غیر منصفانہ ہو، تو کیا اس کی پابندی پھر بھی لازم ہوتی ہے؟ وہی سوال جو سقراط نے کریٹو سے کیا تھا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا لازم ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمد مشتاق احمد Legal Positivists Naturalists انگلینڈ پارلیمان دوسری جنگ عظیم زہر کا پیالہ سقراط قانون کریٹو مقدس رومی سلطنت ہٹلر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انگلینڈ پارلیمان اخلاقی معیارات ریاستی قانون اخلاقی معیار کی پابندی قانون کا کہ ریاست قانون کے کہ قانون قانون کو قانون کی نہیں ہے ہوتا ہے اور اس کے بعد اس لیے کے لیے
پڑھیں:
اسکائی فورس” پابندی کا شکار؛ اکشے کمار کی فلم کو مشرقِ وسطیٰ میں بڑا جھٹکا
اکشے کمار کی نئی فلم "اسکائی فورس”، بھارت سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ریلیز ہوئی لیکن مشرقِ وسطیٰ کے کئی اہم ممالک، جیسے یو اے ای، سعودی عرب، قطر، عمان وغیرہ میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
فلم پر پابندی کی باضابطہ وجہ معلوم نہیں ہو سکی، لیکن انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق، "اسکائی فورس” کی کہانی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے واقعات پر مبنی ہے۔
ماضی میں ایسی کئی فلموں کو مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو ممکنہ طور پر اس پابندی کی وجہ ہو سکتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب مشرقِ وسطیٰ میں ایسی فلموں پر پابندی عائد کی گئی ہو۔
"فائٹر” (2024)، جو بھارتی اور پاکستانی افواج کے تنازع پر مبنی تھی، پر بھی پابندی لگائی گئی تھی۔
"آرٹیکل 370” (2024) کو بھی حساس سیاسی مواد کی وجہ سے خلیجی ممالک میں ریلیز کی اجازت نہیں ملی تھی۔
"ٹائیگر 3” (2023) کو کویت، عمان، اور قطر میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وجے تھلاپتی کی فلم "بیسٹ” (2022) بھی قطر اور کویت میں بین ہوئی تھی۔
"اسکائی فورس” 1965 میں بھارتی ہوائی حملے کی کہانی پر مبنی ہے۔ فلم میں اکشے کمار، سارہ علی خان، نمرت کور، شرد کیلکر اور وییر پہاڑیہ نے اہم کردار ادا کیے ہیں۔ اسے مڈاک فلمز اور جیو اسٹوڈیوز نے پروڈیوس کیا ہے، اور ہدایتکار سندیپ کیولانی اور ابھیشیک انیل کپور ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu