اقبال اور پاکستانی جرنیلوں کا تصورِ انسان
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
انسانی معاشرے کے لیے تصورِ انسان کی اہمیت بنیادی ہے۔ اس لیے کہ جیسا جس معاشرے کا تصور انسان ہوتا ہے معاشرہ اور ریاست ویسی ہی ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلامی معاشرے کا تصور انسان یہ ہے کہ انسان اس زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ سیدنا ابوبکرؓ خود کو خلیفۃُ الرسول کہا کرتے تھے۔ ہمارے علما نے کہا ہے کہ انسان فرشتوں سے بھی بہتر ہے۔ ہمارے صوفیا نے فرمایا ہے کہ انسان اس پوری کائنات کا خلاصہ ہے۔ ہمارے خارج میں موجود ’’کائنات‘‘ کائناتِ اکبر ہے اور انسان ’’کائناتِ اصغر‘‘ اس تصورِ انسان کا اثر ہماری شاعری پر بھی پڑا ہے۔ استاد ذوق کا بے مثال شعر ہے۔
بشر جو اس تیرہ خاکداں میں پڑا یہ اس کی فروتنی ہے
وگرنہ قندیل عرش پر بھی اس کے زرے کی روشنی ہے
حالی نے کہا ہے۔
فرشتے سے بہتر ہے انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
ایک اور شعر ہے۔
فرشتہ مجھ کو کہنے سے مری توہین ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
تصورِ انسان کی بحث ہو اور اقبال نہ یاد آئیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اقبال بیسویں صدی کے عظیم ترین عبقریوں میں سے ایک تھے۔ اقبال نے جس معاشرے اور جس ریاست کا خواب دیکھا تھا اس کا تصورِ انسان اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ تھا۔ ذرا دیکھیے تو اقبال مرد مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے کیا فرما رہے ہیں۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
ہمسایہ جبریل امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کس کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
جس سے جگر لالہ میں ہو ٹھنڈک وہ شبنم
دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
اقبال کی اس نظم کا اقبال کی باقی شاعری سے وہی تعلق ہے جو سورئہ اخلاص کا باقی قرآن سے ہے۔ اسی لیے اردو کے ممتاز نقاد اور شاعر سلیم احمد نے اقبال کی اس نظم کو اقبال کا سورئہ اخلاص قرار دیا ہے۔ لیکن اقبال مومن کے بارے میں صرف ایک نظم کہہ کر نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے اس تصورِ انسان پر بہت تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
٭٭
ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفرین کار کشا کار ساز
٭٭
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
٭٭
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندئہ مومن کی اذاں سے پیدا
٭٭
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سّرِ کلیم و خلیل
٭٭
یہ غاری یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
٭٭
تقدیر کے پابند جمارات و نباتات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
اقبال قیام پاکستان کے بعد زندہ ہوتے تو وہ اپنے تصورِ انسان کی بنیاد اس ریاست کی تسلیم کرتے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کی اساس اقبال کا تصورِ انسان ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاست اقبال کے مردِ مومن کا طواف کررہی ہوتی۔ پاکستان کی عدلیہ میں ہر طرف مومنوں کا راج ہوتا۔ پاکستانی فوج کی قیادت ہر دور میں کوئی نہ کوئی مردِ مومن کررہا ہوتا۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ اقبال صرف برصغیر میں ایک مسلم ریاست کا تصور پیش کرکے رہ گئے۔ ان کے خلا کو ایک حد تک قائداعظم نے پُر کیا مگر وہ بھی قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد اللہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ قائد ِ ملت لیاقت علی خان پاکستان کو اقبال کے خواب کے مطابق ڈھال سکتے تھے مگر انہیں شہید کردیا گیا اور بالآخر پاکستان پر جرنیلوں کا قبضہ ہوگیا۔
اصول ہے کہ انسان جیسا خود ہوتا ہے دوسرے انسانوں کو بھی وہ ویسا ہی بنانا چاہتا ہے۔ کارل مارکس کے فلسفے میں سب کچھ معاشیات تھی چنانچہ روس اور چین میں کمیونسٹ انقلابات آئے تو ان ملکوں نے اپنی قوم کو معاشی حیوان بنا کر کھڑا کردیا۔ مغرب میں خدا اور مذہب کے خلاف بغاوت ہوئی تو انسان صرف ایک ’’مادی حقیقت‘‘ بن کر رہ گیا۔ فرائیڈ کے فلسفے میں جنسی جبلت بنیادی چیز تھی چنانچہ فرائیڈ کا انسان صرف ’’جنسی حیوان‘‘ ہے۔ پاکستان کے جرنیل ’’بونے‘‘ ہوتے تو وہ اپنی قوم کو بھی ’’بونا‘‘ بنانے کی جدوجہد کرتے مگر پاکستان کے جرنیل صرف ’’بالشتیے‘‘ ہیں اس لیے وہ اپنی قوم کو بھی بالشتیوں کی قوم بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمارے جرنیل امریکا اور یورپ کے ’’غلام‘‘ ہیں چنانچہ وہ اپنی قوم کو بھی ’’جرنیلوں کی غلام‘‘ بنانے کی تک و دو کرتے رہتے ہیں۔
جنرل ایوب نے 1958ء میں اقتدار پر قبضے کیا تو انہوں نے فوج کو سیاست دان پیدا کرنے والی فیکٹری بنادیا۔ اس فیکٹری کی پہلی بڑی ’’پروڈکٹ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بھٹو ذہین تھے۔ صاحب ِ علم تھے ان کا ایک عالمی تناظر تھا مگر ان کا تصورِ انسان پست تھا۔ ان کی زندگی میں نہ مسلمان ہونے کے باوجود نہ کہیں خدا تھا۔ نہ کہیں رسول تھا نہ کہیں قرآن و حدیث تھے۔ ان کے لیے اہم صرف دنیا اور اس کی کامیابی تھی۔ چنانچہ انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ’’ولدیت‘‘ تبدیل کرلی اور وہ اپنے باپ کے بجائے جنرل ایوب کو ’’ڈیڈی‘‘ کہنے لگے۔ الطاف حسین جنرل ضیا الحق سے پہلے سیاست میں موجود تھے مگر وہ جنرل ضیا الحق کی سرپرستی سے پہلے صرف ’’انسان‘‘ تھے مگر جنرل ضیا الحق کی سرپرستی نے انہیں ’’جن‘‘ بنادیا۔ اس جن نے کراچی کو 35 سال میں 92 ہزار لاشوں کا تحفہ دیا۔ یہ جن مہاجروں کی مذہبیت، ان کی تہذیب، ان کا علم، ان کا شعور، ان کا اخلاق اور ان کا کردار کھا گیا اور اس جن نے مہاجروں کو دہشت گرد اور بھتا خور بنادیا۔ میاں نواز شریف جنرل ضیا اور جنرل جیلانی کی نظر عنایت سے پہلے صرف ایک صنعت کار کے بیٹے تھے اور ان کا دماغ لکڑی کا تھا مگر جنرل ضیا اور جنرل جیلانی کی سرپرستی نے انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ اور بالآخر ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ عمران خان کو ریاست اور ریاست کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی۔ وہ صرف ایک کرکٹر اور فلاحی کام کرنے والی شخصیت تھے۔ مگر جرنیلوں نے انہیں ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جرنیل خود سیاست دانوں کے بت بناتے ہیں اور پھر خود ہی ان بتوں کو توڑنے پھوڑنے لگتے ہیں۔ جرنیلوں کے اس طرزِ عمل نے پاکستانی سیاست کو کولہو کا بیل بنادیا ہے۔ یہ بیل 1958ء سے اب تک صرف ایک دائرے میں گردش کیے چلا جارہا ہے۔ ساری دنیا میں انتخابات سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرتے ہیں مگر پاکستان میں جرنیل انتخابات میں اس بڑے پیمانے پر دھاندلی کرتے ہیں کہ انتخابات سے ایک نیا سیاسی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا بھر میں ملک آئین سے چلتے ہیں مگر پاکستان میں آئین بھی جرنیلوں کو خواہشات کا پابند ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں اس آئین کو معطل کردیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں عدالت سے اس کی من مانی تشریح کرالیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں آئین کو ایک ’’فضول دستاویز‘‘ میں ڈھال دیتے ہیں۔ سیدنا علی ؓنے کہا تھا معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر عدل کے بغیر نہیں مگر پاکستانی جرنیلوں نے ملک کی تمام عدالتوں کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ بھٹو کو جس قتل کے الزام میں سزائے موت دی وہ قتل بھٹو نے نہیں کرایا تھا۔ اب عمران خان کو جن ’’جرائم‘‘ کی پاداش میں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جارہی ہیں۔ ان جرائم کا ارتکاب عمران خان نے نہیں کیا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ صحافت اور معاشرے کا عروج و زوال ایک ساتھ ہوتا ہے۔ جب صحافت عروج کی طرف جاتی ہے تو معاشرہ بھی عروج کی طرف جاتا ہے اور جب صحافت زوال پزیر ہوجاتی ہے تو معاشرہ بھی زوال پزیر ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی جرنیلوں نے ذرائع ابلاغ کو اپنا غلام بنادیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ خبر میں عمران خان کا نام بھی نہیں لے سکتے وہ انہی ’’بانی پی ٹی آئی‘‘ کہتے ہیں۔ پاکستانی جرنیلوں، پاکستانی نوجوانوں سے اس حد تک خائف ہیں کہ انہوں نے 1984ء سے اب تک طلبہ یونین پر پابندی عائد کررکھی ہے اور ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے اقبال کا ’’مردِ مومن‘‘ اور ’’شاہین‘‘ پیدا کرنے کے بجائے ’’بالشتیے‘‘ پیدا کررہے ہیں۔ جیسے آقا ویسے غلام۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مگر پاکستان اپنی قوم کو ہے کہ انسان پاکستان کے جنرل ضیا اقبال کا انہوں نے صرف ایک کا تصور ہوتا ہے مومن کی کو بھی نے کہا
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ بڑے ملک کا چھوٹا انسان یا بڑا تاجر
ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری بار صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی دنیا بھر میں اک طوفان سا اٹھا دیا ہے اک طرف اپنے ہمسائے کینیڈا کو اپنی اکیاون ویں ریا ست بنانے کا بیان دے رہے ہیں دوسری طرف میکسیکو کو دھماکا رہے ہیں، اک جانب اپنے ناٹو اتحادی کو چھوڑ نے کے بیانات دے رہی ہیں دوسری جانب گرین لینڈ کو ہتھیانے کا اعلان کررہے ہیں۔ آگے بڑھ کر پاناما کو بھی دھمکانے کے ساتھ غزہ کے مجاہدین کو بھی دھمکانے سے بعض نہیں آرہے ہیں۔
بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مغرور بادشاہ نیک صفت افراد کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ایک عالم نے قرائن سے یہ بات جان لی اور وقت کے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا ’’اے دنیا کے بادشاہ، لاؤ لشکر اور دنیاوی ساز و سامان میں ہے شک تو ہم سے بہت زیادہ ہے، لیکن سکون اطمینان میں ہم بہت بہتر ہیں۔ مگر موت سب کو برابر کر دے گی۔ ان شاء اللہ قیامت یا روز آخرت ہمارے جیسے لوگوں کا حال تجھ سے بہت بہتر ہوگا۔ اے پادشا نیک صفت لوگوں کا حال بظاہر خراب و خستہ لگتا ہے لیکن ان کا دل روشن اور گناہوں کی طرف آمادہ کرنے والا حس مردہ ہے۔ ہم جیسے بزرگوں کا طریقہ ذکر خدا کرنا، شکر ادا کرنا، ایثار و قناعت 1 خدا کی ذات میں کسی اور کو شریک نہ کرتا ہے، اس کے ساتھ توکل و حلم کا جذبہ ہے، اگر کسی میں یہ صفات نہ ہو تو وہ نیک صفت انسان نہیں ہو سکتا اور جو دین کے بتائے ہوئے طریقوں سے روگردانی کرے، عیش و عشرت کا خواہش مند ہو، آوارہ صفت ہو، جو سامنے آئے ہڑپ کر جائے اور جو منہ میں آئے کہہ گزرنے والا ہو۔ چاہے اس نے درویشوں کی صورت اختیار کی ہوئی ہو۔ یہ حکمران دنیا کے کسی بھی خطے میں یا کسی قوم کے ہوں، ان کی خصوصیات اگر ایک جیسی ہوں جن کا بیان اوپر کیا گیا ہے ان کا حشر بھی بیان کر دیا گیا۔ دنیا کے مختلف خطوں میں حکمرانوں کو منتخب کرنے کے مختلف طریقہ رائج ہیں۔ سب اپنے اپنے علاقوں کی نفسیات روایات اور اقدار کے ساتھ رجحانات کے مطابق حکمرانوں کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ کہیں پر حکمران خود سے اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔ چھوٹے ملکوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے، کہیں پر مصنوعی جمہوریت کے ذریعہ کہیں پر حقیقی طریقے سے حکمرانوں کو منتخب کر کے اقتدار میں لایا جاتا ہے۔
امریکا کے انتخابات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں پر ادارے کس قدر مضبوط ہیں۔ پچھلے دنوں امریکا میں انتخابات میں غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر منتخب ہو کر دنیا بھر کے روایتی حلقوں کو حیران و پریشان کر گئے۔ امریکا کی حیثیت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی قوت والے ملک کی ہے۔ اس کا حکمران دنیا بھر کا حکمران تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ٹرمپ کی صورت میں دنیا کو ایک ایسا حکمران میسر ہو گیا۔ جس کے بارے میں کوئی بھی مکمل اندازہ نہیں لگا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی صورت دنیا کو ایک ایسا حکمران مل گیا جس کی موجودہ دور میں شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ٹرمپ ایک پیشہ ور سیاستدان نہیں تھا، نہ ہی اس نے اپنی انتخابی مہم میں ایسے طریقے استعمال کیے جیسے کہ اس کے مخالف سیاستدانوں نے اختیار کیے جس کی وجہ سے وہ شکست سے دوچار ہوئے اور ٹرمپ کو فتح حاصل ہوئی۔ ٹرمپ نے ایک بزنس مین کی سوچ رکھتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ امریکا امریکن کے لیے ہے۔ اور امریکا کو بنانے میں بھی باہر سے آنے والے افراد شامل ہیں جن کی اپنی روایات، اقدار، ہے، ظاہر ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو رہے ہیں، ان کے اپنے طرز زندگی کے بھی اثرات امریکا جیسے بڑے ملک میں پڑ رہے ہیں ایک طرف امریکن عوام ان باہر سے آنے والوں کو اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں ناگزیر سمجھتے ہیں دوسری طرف وہ ان کے طرز زندگی نے سے خوف زدہ ہو کر ٹرمپ کے منصوبوں میں آلہ کار بن گئے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم جس طریقہ سے چلائی اور اس کو کامیاب سے ہمکنار کیا۔ یہ اس کی ذہانت ہے جس کا مظاہرہ کر کے اس نے بزنس میں والی کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک بزنس مین یہ دیکھتا ہے کہ اس کی کسی پروڈکٹ کو عوام کے کسی طبقے میں کتنی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ وہ یقینا اپنی اس پروڈکٹ کو سیل کرکے منافع تو خوب حاصل کرے گا مگر کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی اس پروڈکٹ کی وجہ سے ’’اس کی ساکھ خراب ہو‘‘ جس کی وجہ سے اس ’’کا پورا بزنس ہی تباہ ہو جائے۔
اب صورت یہ تھی کہ ٹرمپ دوبارہ کامیاب ہونے کے بعد پورے امریکا کے صدر ثابت ہونے کے ساتھ تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کا باعث ہوگا جیسا کہ امریکا کے سب سے بڑے بزنس بل گیٹ نے اپنی تمام دولت کو انسانیت کے لیے وقف کر کے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے بزنس مین سے بڑھ کر انسانیت کا خادم بن کر پوری دنیا میں وہ عزت و نیک نامی حاصل کرلے گا جو کہ ایک بزنس مین یا سیاستدان بن کر حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر بن کر اپنی اس بات پر سختی سے عمل کرنا ہو گا کہ وہ پورے امریکا کے صدر ہیں۔ ان کو سپر پاور کے صدر کی حیثیت سے فیصلہ کرنے ہوں گے نہ کہ ایک محدود اور مخصوص طبقے کی خواہشات کی تکمیل کے لیے یقینا ان کو اپنے فیصلے علاقائی فکر وسوچ سے بالاتر ہو کر نہ صرف سپر پاور امریکا بلکہ پورے مغرب کے ساتھ تمام دنیا کے امن استحکام مد نظر رکھنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے عہدے پر پہنچتے ہی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک کامیاب بزنس مین کی طرح امریکا اور پوری دنیا کی فلاح و بہبود کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں گے یا ایسے محدود فکر کے انسان کی حیثیت بدستور قائم و دائم رہیں گے جو صرف علاقائی طبقاتی فکر و سوچ رکھنے والا انسان ہو یا وہ ایک مدبر بن کر عالم انسانیت لیے امن آشتی کا ماحول قائم کریں گے۔ اب ان کے اوپر منحصر ہے کہ وہ روایتی بادشاہ ثابت ہوتے ہیں یا انسانیت کا امین۔ اپنے آپ کو ایک بہت بڑا مدبر اور رہنما کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں جیسے کے نیوزی لینڈ کی سابق خاتون وزیراعظم جسینڈا رائس، جس کے بعد دنیا بھر میں اس خاتون کو بہت بڑے اور اعلیٰ مقام پر اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ اس کے مقابلے پر سپر پاور امریکا کا صدر اس مرتبہ تک نہیں پہنچ پا رہا ہے حالانکہ وہ اقتدار میں ان لوگوں کی مدد سے آیا تھا جو کہ اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بڑا اور بہتر سمجھتے ہیں۔
امریکی صدر کے بہت سے اقدامات ان قوتوں کو قوت فراہم کر رہے ہیں جو اس طرح کی محدود طرز فکر رکھتے ہیں جب کہ نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم کا موقف ان سے بالکل مختلف سمت میں رہا ہے اس کی سوچ بین الاقوامی یا انسانیت کے لیے رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز محدود طرزِ عمل کا حامل ہے جو کہ بڑے ملک کی سربراہ کے شایان شان نہیں ہے ان کا نعرہ ہے کہ امریکا امریکن کے لیے پہلے ہے جو کہ امریکا جیسے سپر پاور کے لیے ایک چھوٹی بات ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تو اپنے قول وفعل سے ثابت کر دیا کہ وہ انسانیت کی امین ہے اس نے دنیا کے چھوٹے بڑے ملکوں کے سربراہوں کے سامنے ایک ایسی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ جس کو اپنا کر ڈونلڈ ٹرمپ، نریندر مودی اور نیتن یاہو جیسے حکمران انسانیت کی فلاح کے لیے بڑے بڑے کام انجام دے کر اس دنیا کو امن کا گہوارہ بنوانے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نریندر مودی اور نیتن یاہو کے مقابلے میں ڈونلڈ ٹرمپ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جسینڈا کی پیروی کرتے ہوئے فلاح انسانیت کے لیے اقدامات اٹھا کر انسانیت جو کو نقصانات پہنچانے والوں سے دنیا کو محفوظ کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کوریا کے صدر کو راہ ر است پر لانے کا رادہ کیا ہوا ہے یا داعش کے خاتمے کا یقین دلایا ہے۔ اس کے برعکس نیوزی لینڈ امریکا کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹا سا ملک ہے مگر اس ملک کی وزیر اعظم مدبرین کی صف میں مقام کی حامل ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اک بڑے ملک کے چھوٹے سربراہ بنتے ہیں یا ایک اعلیٰ مدبر؟؟