Jasarat News:
2025-01-18@09:57:33 GMT

کیا یہی خبریں ہیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

کیا یہی خبریں ہیں

پاکستانی ٹی وی اور اخبارات دیکھ کر تو لگتا نہیں کہ یہ کسی سرتا پا مقروض اور سسکتی ہوئی معیشت والے ملک کی کہانی ہے، میڈیا میں تو کہیں ملک کے عوام کے حقیقی مسائل کا ذکر ہی نہیں ہوتا، بلکہ پاکستانی سیاست میں ہل چل ہے پورا ملک ذرائع ابلاغ میں اچھالے جانے والے شوشوں کے ہاتھوں یرغمال ہے، ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ ملک میں ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ پی ٹی آئی ہے جو ملک کو اٹھا کر کہیں لے جانے کی کوشش کررہی ہے، دوسری طرف حکومت ہے جو یہ تاثر دے رہی ہے کہ وہی ہے جو اس ملک کو بچا اور چلا سکتی ہے، لیکن قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ بہت مختصر یادداشت کی مالک ہے۔ اگر تھوڑا بہت غور کریں تو یہ کہانی تو پاکستان میں بہت پرانی ہے، ایک زمانے میں جنرل ایوب خان ملک بچانے کا کام کرتے دکھائی دے رہے تھے اور محترمہ فاطمہ جناح ملک دشمن ظاہر کی جارہی تھیں۔ ایوب خان کے طویل اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے اور ذوالفقار علی بھٹو نجات دہندہ بنا کر لائے گئے، لیکن صرف چھے سال بعد 1971 میں ہتھیار ڈالنے اور مشرقی پاکستان کے سقوط کی ایک ذمے دار پاک فوج نے بھٹو کو ملک دشمن ثابت کیا اور خود نجات دہندہ بن کر جنرل ضیاالحق آگئے، لیکن گیارہ برس تک اقتدار میں رہنے کے باوجود وہ کوئی ایسا کام نہ کرسکے جو ملک کے نجات دہندہ کو کرنا چاہیے، البتہ بھٹو کی پھانسی، سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اور لسانی اور علاقائی عصبیت پھیلا کر سیاسی نظام میں مستقل تباہی کے بیج بوگئے جو آج تک برگ وبار لارہے ہیں، ضیاء الحق کو حادثے کے ذریعہ راستے سے ہٹایا گیا اور بھٹو کی بیٹی بینظیر نجات دہندہ بنا کر سامنے لائی گئیں، لیکن نجات تو کیا یہاں سے باریوں کا کھیل شروع ہوگیا، دوسال، ڈھائی سال کی حکمرانی کا ڈراما شروع ہوا، قوم کو کچھ نہیں ملا ان باریوں کے دوران کبھی میاں نواز شریف اور کبھی بے نظیر کو وہ کردار دیا جاتا رہا جو آج کل عمران خان کو قرار دیا گیا ہے، ان دونوں کی باریوں کے بعد جنرل پرویز مشرف نجات دہندہ بن کر آئے لیکن 9 سال میں وہ بھی قوم کو کسی معاشی یا سیاسی بحران سے نجات نہیں دلاسکے، وہ بھی وکلا کی ایک تحریک کے ذریعہ کمزور کیے گئے اور ماضی کے چور سپاہی کھیلنے والوں کو میدان حوالے کرکے ملک سے چلے گئے، اور اتفاق سے پیپلز پارٹی ہی کو جرنیلی اقتدار کے بعد پھر نجات دہندہ بناکر لایا گیا، لیکن فرق یہ تھا کہ اس مرتبہ بھٹو کی بیٹی نہیں داماد نجات دہندہ بنائے گئے، یہ کھیل زیادہ نہیں چلا تو پھر نواز شریف کو لایا گیا اور یہ کھیل اتنا عام ہوچکا تھا کہ لوگ باریوں کا چکر سمجھنے لگے، قوم حقیقی تبدیل کی تلاش میں تھی اسے اسی نام پر تبدیلی کا خواب دکھایا گیا اور عمران خان کی صورت میں ایسی تبدیلی لائی گئی کہ عقل حیران رہ گئی، ملک کی تباہی کے ذمے دار نواز شریف اور زرداری ثابت کردیے گئے، لیکن ان دونوں پارٹیوں کے اہم لوگوں کو پی ٹی آئی میں شامل کروا دیا گیا، گویا وہ گنگا اشنان کرکے آگئے، اس تبدیلی کو میڈیا کے ذریعے تبدیلی ثابت کروایا گیا، ان میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے تین تین پارٹیاں بدل کر آنے والے بھی اور جنرل مشرف کے مارشل لا کی ٹیم والے بھی، اور ساڑھے تین سال میں اس تبدیلی نے وہ رنگ دکھائے کہ قوم اب تک بھگت رہی ہے۔

اب پھر میڈیا کے ذریعے قوم کو یرغمال بنارکھا ہے، ٹی وی چینلوں پر پہلی خبر پی ٹی آئی کی اندرونی لڑائی کی، دوسری خبر بانی پی ٹی آئی کے بیان کی تیسری خبر اس بیان پر حکومتی ردعمل کی، چوتھی خبر بانی پی ٹی آئی کے مقدمات کی، پانچویں چھٹی بھی اسی سلسلے کی، اور ایک خبر بجلی کے نرخ بڑھنے کی، دیگر سرکاری خبروں کے مطابق ملک ترقی کی منازل پھلانگتا ہوا تیزی سے جاپان سے بھی آگے نکل جانے والا ہے، لیکن کیا یہ سب حقیقت ہے، کیا ملک میں اب مسلم لیگ، پی پی، ایم کیو ایم اور جے یو آئی ف کی حکومت اور پی ٹی آئی کے سوا کوئی مسئلہ نہیں رہا، معیشت تباہ، صنعتیں بند، مہنگائی میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ، بیروزگاری کی شرح میں اضافہ، ٹیکسوں کی بھرمار، قرضوں کا بوجھ، آئی ایم ایف کی شرائط اور بے امنی، لیکن کسی فیکٹری سے دہشت گردوں کی پیداوار، روز نیا آپریشن اور روز نئی دہشت گردی کا سلسلہ اس ڈرامے پر سوال ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے، ملک خطرے میں ہے، سنتے اور پڑھتے پچاس سال سے زیادہ ہوگئے، لیکن عوام کی ہر طرح کی قربانی کے باوجود یہ خطرہ ٹلا نہیں، تو پھر ملک کو چلانے والے بتائیں کہ وہ ملک کو کہاں لے جارہے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی ایک الگ مسئلہ ہے لیکن ہر سال پنجاب میں دھند، اس کے نتیجے میں حادثات، کاروبار اور تعلیم کی بندش وغیرہ سے نمٹنے کے لیے کیا انتظام کیا گیا، کیوں ایک ہی مسئلہ ہر سال پورے پنجاب کو لپیٹ میں لے لیتا ہے، کون سی پارٹی کی حکومت اس پر قابو پاسکی، ملک کے مسائل وہیں کھڑے بلکہ بڑھے ہیں اور مصنوعی سیاسی کھینچا تانی پر اس قدر شور ہے کہ لوگ اسی میں الجھے رہتے ہیں کہ شاید یہی اس ملک کا اولین مسئلہ ہے، قوم کی آنکھیں نہ کھلیں تو سب کچھ لٹ جائے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نجات دہندہ پی ٹی ا ئی ملک کو ملک کے

پڑھیں:

پاکستان کی قدر کرو

اے ابن آدم ہم ایک آزاد خود مختیار ریاست ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں جو بھی قیادت ملی وہ غلامانہ اور مفلوج سوچ کی حامل ہے۔ ملک کو بچانا ہے تو جماعت اسلامی کو لانا ہوگا۔ ایماندار، محبت وطن لوگوں کی واحد جماعت ہے، بغیر رشوت کے کام کرتی ہے۔ ملک میں روز بروز کرپشن بڑھتی جارہی ہے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کی جڑیں روز اوّل سے ہیں جو وقت کے ساتھ مضبوط ہو چکی ہیں اور یہ قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتی سیاسی جوڑ توڑ کے علاوہ ملک کے لیے کئی اور کام کرنے کی ضرورت ہے اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ سب سے پہلے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، پولیس، رینجرز، سی آئی اے، ایف آئی اے، نیب جیسے ادارے کیا کررہے ہیں جن اداروں کو جرائم اور کرپشن کے لیے بنایا جاتا رہا وہ خود کرپشن میں ملوث ہیں اگر ملک میں ایماندار طریقے سے احتساب کیا جائے تو حکومت اور اپوزیشن کا ہر ذمے دار آپ کو کرپشن زدہ نظر آئے گا۔ غریب چوری کرلے تو اسے سزا ملتی ہے اور اربوں کا کرپشن کرنے والا باعزت طریقے سے کرپشن کی جاری چین کا حصہ بن کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ سندھ میں کرپشن پیپلز پارٹی کی زیر سرپرستی اپنے بام عروج پر ہے۔ کے الیکٹرک کا ادارہ جس طرح سے عوام کو لوٹ رہا ہے یا بجلی کے تمام اداروں کو لے لو سب اس وقت سوئی گیس کا محکمہ بھی لوٹ مار میں لگ چکا ہے میں آپ کو بتاتا ہوں گیس کا پریشر نہ ہونے کی وجہ سے میٹر یا تو چلتا نہیں ہے اگر چلتا ہے تو ماہانہ یونٹ 2 سے 25 تک یا ایم ایم بی ٹی یو 0.2-0.3-0.5 تک بھی نہیں پہنچتا اس صورت میں PUG چارجز اور اس پر PUG EXCISE TAX لگا کر بھیجا جارہا ہے۔ اس PUG کا مطلب بھی ساتھ لکھا ہوتا ہے بل پھر یعنی Slow Meter Rate پھر Slow Meter کی وجہ سے سوئی سدرن گیس کی ویب سائٹ پر لکھی ہے کہ آپ کو جس بہتر پریشر سے گیس سپلائی کی جارہی ہے آپ کا میٹر ٹیکنیکل (گراریوں) کی خرابی کی وجہ سے گیس اسٹینڈرڈ کے مطابق پاس نہیں کررہا اگر (SSGC) خود سے بل میں PUG چارجز کی بنیادی وجہ (میٹر خراب) تک پہنچ چکا ہوتا ہے تو فوری طور پر میٹر تبدیل اس لیے نہیں کیا جاتا کہ (Slow Meter) کی مد میں تقریباً کم سے کم 1000 روپے کسٹمرز سے لوٹے جاتے رہے، میٹر تبدیل کر بھی دیا تو (SSGC) گیس تو دے نہیں رہی میٹر تبدیل پر بھی یونٹ تو بنیں گے نہیں اس لیے PUG چارجز کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے رہو اس کو ٹھیک کروانا ہو تو کم از کم 3 مختلف (SSGC) آفس بھیج کر خوار کروایا جاتا ہے۔ بل ایک دفعہ ٹھیک کروانے کے بعد (SSGC) اپنے سسٹم میں نہیں ڈالتے اور PUG چارجز پھر سے لگ کر آتے رہتے ہیں جو کہ 1000 یا 400 روپے اضافی چارجز کے علاوہ ہے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے ہر آدمی بجلی اور گیس کے بلوں پر غور نہیں کرتا بس اُس کو بل جمع کروانے کی جلدی رہتی ہے ہر ادارے کے بڑے بڑے کسٹمرز سینٹر کام کررہے ہیں مگر وہاں سے عوام کو سوائے ذلت کے کچھ نہیں ملتا۔ KE کا اسٹاف و افسران تو فرعون بن چکے ہیں جس افسر کے پاس جائو تو ایک جملہ سننے کو ملتا ہے میں بے اختیار ہوں آپ فلانے صاحب سے ملیں جب آپ فلانے صاحب کے کمرے میں جاتے ہیں تو سیکورٹی گارڈ روک لیتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں آپ انتظار فرمائیں جب آپ کا اندر جانے کا نمبر آتا ہے تو جواب ملتا ہے یہ بل تو جمع کروانا ہی ہوگا کمپنی کی پالیسی ہے ہمارے ملک میں افسر شاہی فرعون بنے ہوئے ہیں جبکہ ان کی تنخواہیں عوام دیتے ہیں مگر افسوس کے کوئی اس بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ اندرون سندھ سے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو لاکر بڑی بڑی پوسٹوں پر لگادیا ہے جن کو نہ انگریزی لکھنی آتی ہے نہ بولنی آتی ہے۔ وہ بس مال بنانے کی مشینیں ہیں ایک سے بڑھ کر ایک سفارشی کراچی کے اداروں میں عیاشی کررہے ہیں کراچی کی قیادت ان کے ہاتھوں میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے سب مل کر کھا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا دشمن ملک بھارت ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق بھارت 2025ء میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن جائے گا۔ آئی ایم ایف کے اندازہ کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی 4.339 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی جو جاپان کے 4.310 ٹریلین سے تجاوز کر جائے گی بھارت کے لیے یہ سب کچھ من موہن سنگھ کے باعث ہے جو پاکستان کے شہر چکوال کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے، من موہن انتہائی غریب تھے۔ اسٹریٹ لائٹ میں پڑھا کرتے تھے۔ بھارت من موہن سنگھ کو مسیحا تصور کرتا ہے۔ چین کو شی جن پنگ کی صورت میں ایک مسیحا ملا ہوا ہے چین ترقی پہ ترقی کرتا جارہا ہے ملائیشیا کیا تھا مگر ڈاکٹر مہاتیر محمد قیادت نے ملک کو بنا ڈالا۔ بنگلا دیش میں حالیہ انقلاب کے بعد ڈاکٹر یونس جیسا ایماندار مسیحا مل گیا اگر آپ متحدہ عرب امارت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں پر مٹی آتی تھی مگر اسے شیخ زاید بن النہان جیسا لیڈر ملا جس نے متحدہ عرب امارت کو بدل کر لکھ دیا آج وہاں بے پناہ دولت ہے مجھے ابوظبی کی مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا تو مسجد کے ایک کونے میں شیخ زاید کی کچی قبر کی زیارت کی فاتحہ ہاتھ اٹھا کر وہ پڑھنے نہیں دیتے سعودی عرب کی طرح وہ کہتے ہیں دل میں پڑھیں اور منہ قبر کی طرف نہیں بلکہ کعبہ کی طرف ہونا ہے یہ ایمان والے لوگ اُن کی قبر پر کوئی سلامی دینے نہیں آتا۔ آپ کی قبر پر 24 گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے نہ کوئی اگر بتی نہ کوئی گلاب کے پھول اگر شیخ زاید کا پاکستان سے تعلق ہوتا تو اُن کا بڑا عظیم الشان مزار بنادیا جاتا۔ محفل سماع ہوتی، چندا آتا، لنگر ہوتا دراصل ہمارے علما حضرات نے ہمیں فرقوں میں تقسیم کردیا ہے، ہمارے پاکستان کو دو چیزوں نے تباہ کردیا ہے۔ لسانیت، فرقہ واریت۔ ماضی میں یہ قوم ایک جشن مناتی تھی وہ تھا یوم آزادی 14 اگست۔ وقت کے ساتھ ہر قوم نے اپنا ایک ڈے منانا شروع کردیا۔ سندھی اجرک ڈے، بلوچ ڈے، مہاجر ڈے، پنجابی ڈے، پشتون ڈے ابھی 2 مزید ڈے کا اضافہ ہوا ہے سرائیکی ڈے جو آرٹ کونسل کراچی میں ہوا تھا دوسرا ہزارہ ڈے تھا جس کی باقاعدہ مجھے لالہ رفیق خان نے دعوت دی تھی۔ اے ابن آدم تم کو ایک سازش کے تحت ٹکڑوں میں تقسیم کیا جارہا ہے ہوش کے ناخن لو متحد ہونے کی بات کرو۔ دراصل ہم ناشکرے لوگ ہیں محب وطن اور ایماندار لوگوں کی ہم قدر نہیں کرتے، ہمارے ملک میں ڈاکٹر محبوب الحق جیسے معاشی ماہر موجود رہے، ہم نے ان کی قدر نہیں کی، ہمیں ذلت کی زندگی گزارنے کی عادت پڑ چکی ہے، ہم نے ٹیپو سلطان اور حیدر علی، محمد بن قاسم کو چھوڑ دیا ہے، ہم نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان کو اپنا مسیحا سمجھ کر ان کے پیچھے چل رہے ہیں مگر زندگی روز بروز بدحال ہورہی ہے ہمیں اب جماعت اسلامی کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی قدر کرو
  • اب پروٹوکول کون دے گا
  • اسٹیڈیمز میں صحافیوں کا داخلہ بند! بھارت جھوٹی خبریں پھیلانے لگا
  • خدا خیر کرے
  • لائینز ایریا کو کے الیکٹرک کے ظلم سے نجات دلائی جائے، ذوالفقار قائم خانی
  • کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کو 14 سال قید ہو سکتی ہے : فیصل واوڈا 
  • خدا کا عذاب
  • پاکستان کبھی باضابطہ اتحادی نہیں رہا،لیکن ایک مضبوط شراکت دار ہے،امریکا
  • پاکستان کبھی باضابطہ اتحادی نہیں رہا لیکن ایک مضبوط شراکت دار ہے؛ وائٹ ہاؤس