لندن:

سائنسدانوں کی ٹیم نے سورج کا رنگ تقریباً 2 صدی قبل پراسرار طور پر نیلا پڑنے کی گتھی سلجھا لی۔

اسکاٹ لینڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق1831میں بہت بڑا آتش فشاں پھٹنے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار ہوا میں پھیلی جس سے سورج نیلا نظر آنے لگا، اس سے ٹھنڈ میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ 

اپنی دریافت کی توثیق کیلیے انھوں نے آئس کور ریکارڈز کے مطالعہ کے دوران نوٹ کیا کہ1831میں آتش فشاں کے پھٹنے کا کوئی عینی شاہد نہیں کیونکہ ایسا سموشیر نامی دور دراز اور غیر آباد جزیرے پر ہوا جوکہ اس وقت روس اور جاپان کے مابین متنازعہ علاقہ ہے۔

شریک تحقیق کے مطابق لیبارٹری میں آتش فشاں کے مرکز سے ملنے والی برفیلی راکھ کا تجزیہ ایک سنسنی خیز دریافت تھی۔

سائنسدانوں نے خبردار کیا کہ اس بات کا امکان ہے اسی طرح کا ایک اور آتش فشاں دوبارہ پھٹ کرکرہ ارض پر زندگی کو درہم برہم کر سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ، ملک ریاض کو سزا کیوں نہ ہوئی؟

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض، ان کے صاحبزادے علی ریاض، پی ٹی آئی رہنما شہزاد اکبر، ذلفی بخاری، ضیاالمصطفیٰ نسیم اور فرحت شہزادی کو بھی اشتہاری قرار دیتے ہوئے منقولہ وغیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ عدالت نے اشتہاری ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں جبکہ القادر ٹرسٹ کی پراپرٹی اور یونیورسٹی وفاقی حکومت کی تحویل میں دیے جانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں واقع 458 کنال سے زیادہ زمین عطیہ کی تھی جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا۔

یہ بھی پڑھیں 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا تحریری فیصلہ جاری، اہم نکات اور پس منظر

دراصل یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ میں غیرقانونی پیسے سے جائیداد رکھنے پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کی گئی تھی۔ یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی طرف سے ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے کر پاکستان کو لوٹائی گئی، تاہم مبینہ طور پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں چلی گئی جس میں ملک ریاض کو عدالتی حکم پر بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں 460 ارب روپے جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔

وی نیوز نے قانونی ماہرین، نیب پراسیکیوٹر اور کورٹ رپورٹر سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کیس میں ملک ریاض کو سزا نہیں ہوسکی۔

سابق نیب پراسیکیوٹر اور ماہر قانون عمران شفیق نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس کیس میں ملک ریاض کو اس لیے سزا نہیں ہوئی کیونکہ وہ اس کیس میں اشتہاری ہیں، عدالت نے ان کے دائمی وارنٹ جاری کردیے ہیں اور ان کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے، اب جب کبھی ملک ریاض پاکستان آئیں گے تو ان کو گرفتار کیا جائےگا اور پھر دوبارہ سے ان کے خلاف اسی کیس کا ٹرائل شروع کیا جائے گا، جس کے بعد سزا یا بری کرنے کا فیصلہ سنایا جائےگا۔

عمران شفیق نے کہاکہ میرے خیال میں ملک ریاض اس کیس میں ملزم بنتے ہی نہیں، اس کیس کے تین ملزمان ہیں عمران خان، شہزاد اکبر اور ذلفی بخاری ہیں، کیوںکہ ملک ریاض پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے کسی فیصلے سے یہ رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی۔

انہوں نے کہاکہ ملک ریاض کے خلاف نیب نے ملیر کینٹ کے استعمال سے متعلق ایک کیس بنایا تھا، اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں 465 ارب روپے کا جرمانہ کیا۔ ملک ریاض کو کیا اس لیے سزا دی جائے گی کہ ان کے پیسے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے ہیں؟ ان کو ملیر والے کیس میں سزا ہو سکتی تھی لیکن اس میں ڈیل کرلی گئی۔

سینیئر کورٹ رپورٹر ملک اسد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ملک ریاض کو اس کیس میں سزا اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ وہ اشتہاری ہیں، ملک ریاض کے خلاف کیس کی فائل کو داخل دفتر کردیا گیا اور دائمی وارنٹ جاری ہوگئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ملک ریاض پاکستان آئیں گے تو ان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل شروع کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ نیب قوانین کے مطابق ملزم کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل ہوسکتا ہے لیکن اس سے عدالتی وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے کیونکہ جب کبھی کسی موقع پر ملزم ٹرائل میں شامل ہوتا ہے تو پھر دوبارہ سے کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک ریاض کو کیس سے الگ کردیا گیا ہے اور اگر ملک ریاض یا دیگر ملزمان ٹرائل میں شامل ہوں گے تو اس کے بعد ان کا ٹرائل الگ سے شروع کیا جائےگا۔

ماہر قانون اور پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ملک ریاض اس وقت بیرون ملک میں ہیں اور اس کیس میں اشتہاری ہیں، قوانین کے مطابق تو سیکشن 512 کے تحت چالان جاری کرکے ان کے خلاف بھی ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن عدالت نے اس کو زیادہ ضروری نہیں سمجھا۔

انہوں نے کہاکہ اب عدالت نے ان کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے تو جو اثاثے ان کے نام پر ہیں ان کو ضبط کیا جائےگا جبکہ جو اثاثے کسی اور کے نام پر ہیں ان کو ضبط نہیں کیا جا سکتا، اس وقت ملک ریاض کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پاکستان آئیں، اس کیس میں ان کا ٹرائل ہو اور پھر ان کو سزا دی جائے یا بری کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں وہ عالمی رہنما جن کو کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات پر سزا کا سامنا کرنا پڑا

حسن رضا پاشا نے کہا کہ ملک ریاض کو سزا دینے کے لیے حکومت کے پاس ایک اور آپشن یہ ہے کہ ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جائیں، اگر پاکستان اور جس ملک میں وہ مقیم ہیں ان کے درمیان تحویل ملزمان کا معاہدہ ہے تو ان کو گرفتار کرکے پاکستان لایا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف ٹرائل کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews القادر ٹرسٹ کیس بشریٰ بی بی پاکستان تحریک انصاف پراپرٹی ٹائیکون پی ٹی آئی عمران خان ملک ریاض وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • ٹنڈو جام: سیوریج لائن پھٹنے کی وجہ سے تجارتی مراکز گندے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں
  • آم کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلیے جدید تحقیق متعارف کرائی ہے، مظہر کیریو
  • پراسیسڈ سُرخ گوشت کس چیز کے خطرات بڑھاتا ہے؟ نئی تحقیق
  • مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرو آپٹیکل سٹیلائیٹ کی لانچنگ، وزیراعظم کی مبارکباد
  • القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ، ملک ریاض کو سزا کیوں نہ ہوئی؟
  • عمران خان کو سزا کیوں اور کیسے ہوئی، آگے کیا ہوسکتا ہے؟
  • یوکرین اور روس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ
  • مصنوعی ذہانت پر زیادہ انحصار سے انسانی ذہانت متاثر ہونے کا انکشاف
  • شیشپر گلیشیئر سرکنے سے انسانی آبادی کو خطرہ لاحق، ماہرین نے وارننگ جاری کردی
  • عمران خان کو کترینہ کیف نے 20 تھپڑ کیوں مارے؟