طاغوت کا انکار اللہ کو معبود ماننے کی اولین شرط ہے،مسرت جنید
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
کراچی( پ ر)حلقہ خواتین جماعت اسلامی ضلع شمالی میں مدرسات کے لیے قرآن فہمی کورس کی پہلی کلاس میں رکن کراچی شوریٰ اور ناظمہ ضلع تیموریہ (وسطی ) مسرت جنید نے اسلام کے نظام عبادات پر مفصل روشنی ڈالی۔اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہر وہ طاقت جو انسانوں سے اپنی بات منوانے کیلئے اللہ کے مقابل آجائے طاغوت ہے اور طاغوت کا انکار اللہ کو معبود ماننے کی اولین شرط ہے۔ انہوں نے کہا کہ امت کے زوال کی بڑی وجہ قاری کا قرآنی اصطلاحات سے صرف نظر اور لا علمی ہے،اس لیے قرآن جو دلوں کو بدلنے کی تاثیر رکھتا ہے قاری اس کے فہم سے محروم رہ جاتا ہے اور معاشرے پر بھی قرآنی قوانین کی برکات نظر نہیں آتیں۔ الہ،رب،عبادت اور دین قرآن کی بنیادی اصطلاحات ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ معتمدہ ضلع شمالی امیمہ محتشم نے کہا کہ قرآن نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرتا ہے، قرآن سے وابستہ ہر فرد جب تک عملی طور پر اس جد و جہد میں حصہ نہ لے قرآن پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا۔اس لیے مدرسات اچھی تیاری، فہم قرآن اور دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ قران کا پیغام عام کریں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
قرآن کریم کے حقوق
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جو قیامت تک نسلِ انسانی کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور اس وقت ان آسمانی کتابوں میں سے صرف وہی محفوظ حالت میں موجود ہے جو حضرات انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل ہوئیں۔ قرآن کریم نہ صرف پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہے، بلکہ سب سے زیادہ پڑھا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ سنا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ اعزاز اور اعجاز عطا فرمایا ہے کہ دن بدن اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دنیا میں جوں جوں مسلمانوں کی حالت پتلی ہو رہی ہے قرآن کریم کا دائرہ پھیل رہا ہے۔ اس وقت بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک کروڑ سے زیادہ حافظ قرآن کریم موجود ہیں، جو دن رات قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور رمضان المبارک چونکہ قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے، اس لیے اس مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت بھی زیادہ ہوتی ہے۔
قرآن کریم کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو ”ذکر“ کے لیے آسان کر دیا ہے۔ اس ”ذکر“ کا معنی یہ بھی ہے کہ یاد کرنے کے لیے قرآن کریم کو آسان کر دیا گیا ہے، جس کا ہم گزشتہ چودہ سو برس سے مسلسل مشاہدہ کر رہے ہیں کہ یہ بڑی آسانی سے یاد ہو جاتا ہے، بچوں کو بھی یاد ہوتا ہے اور بوڑھے بھی اسے یاد کر لیتے ہیں، مرد بھی یاد کرتے ہیں اور عورتوں کو بھی حفظ ہو جاتا ہے۔ میں نے سات سال کی بچی بھی قرآن کریم کی حافظہ دیکھی ہے اور ساٹھ سال کی خاتون کو بھی قرآن کریم یاد کرتے اور مکمل کرتے دیکھا ہے۔ یہ قرآن کریم کی صداقت کی دلیل اور اس کا اعجاز ہے، جو ہمارے زوال کے دور میں بھی پوری قوت کے ساتھ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔
اسی طرح ”ذکر“ کا یہ معنی بھی ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے آسان کر دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس میں عام انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے عام فہم زبان اور عام فہم اسلوب اختیار کیا ہے۔ انسانوں میں ذہنی، علمی اور فکری حوالے سے جتنے درجات بھی ہیں، ان سب کے لیے قرآن کریم میں ان کی ذہنی سطح پر گفتگو کا سامان موجود ہے، لیکن عام لوگوں کے لیے ان کی ذہنی سطح پر بات کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مشکل سے مشکل مسئلے میں ایک عام انسان کو سمجھانے کے لیے اس کی نفسیات اور ذہنی سطح کا لحاظ رکھا ہے۔
ایک مثال سے اس بات کا جائزہ لے لیجئے کہ ہم جب چار پانچ سال کے بچے کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں تو اسے سب سے پہلے اس کے اردگرد ماحول میں موجود اور اس کے مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے نام بتائے جاتے ہیں۔ الف انار اور اے ایپل اسی کی عملی صورت ہے۔ یہ تعلیم کا بالکل ابتدائی لیول ہوتا ہے اور نسلِ انسانی کی تعلیم کا جب آغاز ہوا تھا تو آدم علیہ السلام کو بھی سب سے پہلے چیزوں کے نام ہی بتائے گئے تھے۔ اسے مشاہدات کی زبان کہتے ہیں کہ اردگرد مشاہدے میں آنے والی چیزوں کے نام اور فائدے بتا کر ایک بچے کی تعلیم شروع کی جاتی ہے۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ہمیں بہت سی باتیں سمجھانے کے لیے یہی اسلوب اختیار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی قدرت اور اس کی توحید کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کیا جائے تو یہ مشکل ترین مسائل شمار ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ مسائل سمجھانے کے لیے اردگرد کے مشاہدے کی دعوت دی ہے اور جابجا فرمایا ہے کہ زمین کو دیکھو، آسمان کو دیکھو، سورج اور چاند کے نظام کو دیکھو، درخت اور پودے دیکھو، ہوا اور پانی کے سسٹم کو دیکھو، بادل برستے دیکھو اور خود اپنے وجود اور جسم کے اندر کی صلاحیتوں کو دیکھو کہ یہ کس نے بنائی ہیں، ان کا خالق کون ہے اور ان کو ایک سسٹم کے مطابق کون چلا رہا ہے؟ تمہیں خودبخود خدا کے وجود کا پتہ چل جائے گا، اس کی قدرت کا اندازہ ہو گا اور اس کی توحید پر تمہارا یقین پختہ ہو گا۔
ایک جگہ فرمایا کہ یہ زمین، آسمان، چاند اور ستاروں کا جو نظام پورے ضبط اور یکسانیت کے ساتھ چل رہا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلیل ہے۔ اس لیے کہ اگر اس معاملے میں کسی اور کے پاس بھی کچھ اختیار ہوتا تو یہ سارا نظام اتھل پتھل ہو جاتا، پھر ہر خدا اپنی پیدا کردہ چیزیں لے کر الگ کھڑا ہوتا اور سب ایک دوسرے پر برتری اور غلبے کی کوشش میں لگ جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں توحید کا فلسفہ مکھی اور مکڑی کی مثالوں سے سمجھایا ہے اور ایسے عام فہم انداز میں بات کی ہے کہ ایک سیدھا سادا دیہاتی اور ان پڑھ آدمی بھی توحید کے فلسفے کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔
قرآن کریم جہاں یاد کرنے کے لیے آسان ہے، وہاں سمجھنے کے لیے بھی آسان ہے، لیکن سمجھنے کے لیے آسان ہونے کے مختلف درجات ہیں اور ان کا فرق نہ کرنے کی وجہ سے فکری الجھنیں اور گمراہیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک ہے قرآن کریم کے پیغام اور نفسِ مفہوم کو سمجھنا اور کسی آیت کریمہ کو پڑھ کر یا سن کر اس کا مقصد سمجھ لینا، یہ تو ہر مسلمان کے لیے آسان ہے، ضروری ہے اور اس پر قرآن کریم کا حق ہے۔ لیکن کسی آیت پر علمی بحث کرنا، اس سے مسائل مستنبط کرنا اور اس کے اصول و احکام اخذ کرنا اس کا یہ لیول نہیں ہے، اس کے لیے بہت سے علوم کے ساتھ واقفیت ضروری ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور کسی ملک کی کوئی عدالت کسی قانون شکنی کرنے والے کا یہ عذر قبول نہیں کرتی کہ چونکہ اسے قانون کا علم نہیں تھا، اس لیے اس نے اس کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ قانون سے واقف ہونا ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صرف قانون کے عمومی مطالعہ کی بنیاد پر عدالت عالیہ میں کھڑا ہو کر دستور و قانون کی تشریح اور اس پر ”آرگو“ کرنے کا حق مانگے گا تو وہ اسے نہیں ملے گا، اس لیے کہ اس کا معیار بالکل مختلف ہے اور اس کا پراسیس قطعی طور پر الگ ہے۔ اس کے لیے لاء کی ڈگری، بار کا لائسنس اور وکالت کا تجربہ درکار ہے، اس کے بغیر کسی کو قانون کے عام مطالعہ کی بنیاد پر قانون کی تشریح و تعبیر کا حق نہیں ملتا۔
یہی صورت حال قرآن کریم کے حوالے سے ہے کہ اس کے عام امیج کو سمجھنا اور اس کے بنیادی احکام سے واقف ہونا ہر مسلمان کا حق اور اس کی ذمہ داری ہے، لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کی تعبیر و تشریح کے لیے بحث کرنا ہر شخص کا حق نہیں ہے اور اس کے لیے اسی طرح علوم دینیہ کی ڈگری اور تدریس و تعلیم کا تجربہ شرط ہے، جیسے قانون کی تعبیر و تشریح میں حصہ لینے کے لیے شرائط موجود ہیں۔
اس حوالے سے ہم بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے سرے سے کوئی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ جب تک پورا عالم دین نہیں ہو گا وہ قرآن کریم کو نہیں سمجھ پائے گا اور دوسری طرف یہ رجحان عام ہوتا جا رہا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کی چند آیات کا ترجمہ کرنے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے، وہ دین کے ہر معاملے میں خود کو اتھارٹی تصور کرنے لگتا ہے اور ہر مسئلے میں ٹانگ اڑا کر اپنی تعبیر و تشریح کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔(جاری ہے)