لبنان اور اسرائیل جنگ بندی کا مستقبل
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
غزہ سے اسلامی مزاحمت حماس اور جہاد اسلامی نے 7 اکتوبر کو طوفان اقصیٰ نامی آپریشن کا آغازکیا تھا۔ اس طوفان کے بعد غاصب صیہونی حکومت اور اس کی قابض فوج نے غزہ پر جارحیت اور عوام کی نسل کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا۔
یہ نسل کشی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے سات اکتوبر کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی حمایت کے لیے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے جنوبی لبنان اور شمالی فلسطین کی 120کلو میٹر طویل سرحد پر غاصب صیہونی فوج کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کریں گے اور یہ سلسلہ آٹھ اکتوبر کو شروع کردیا گیا۔
لبنان اور غاصب صیہونی فوج کے درمیان ہونے والی جنگ کے ایک سال کے عرصے میں جہاں لبنان پر اسرائیل کی شدید بمباری جاری رہی، وہاں حزب اللہ کی جانب سے بھی غاصب اسرائیلی فوج کے بہت بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔ اس جنگ میں حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت بشمول سید حسن نصر اللہ، سید ہاشم صفی الدین، فواد شکر، ابراہیم عقیل اور اسی طرح حماس کی اعلیٰ قیادت میں اسماعیل ہانیہ اور یحییٰ سنوار سمیت صالح العاروری اور دیگر بھی شہید ہوئے۔
لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد لبنانی شہری شہید ، دسیوں ہزار زخمی اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوئے اور مہاجرین ہوگئے۔ بہرحال یہ جنگ جاری رہی اور حزب اللہ نے غاصب صیہونی فوج کو اس کے مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکے رکھا۔ یہاں تک کہ حزب اللہ کی سب سے اہم کامیابیوں میں نیتن یاہوکی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ، شمال فلسطین میں چالیس کلومیٹرگہرائی میں لاکھوں صیہونی آباد کاروں کا انخلاء جو تاحال واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اس طرح کی اور متعدد کامیابیاں شامل ہیں۔ایک طویل مدتی جنگ کے بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے مجبور ہو کر لبنان کے ساتھ جنگ بندی کا ایک منصوبہ بنایا جس پر لبنان کی حکومت بھی آمادہ ہوگئی اور عالمی استعماری قوتیں جو اسرائیل کی پشت پناہ ہیں، سب نے اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے لبنانی حکومت کو دباؤ ڈالنا شروع کیا۔
اس معاہدے میں کہا گیا کہ جنوبی لبنان کی سرحد پر اقوام متحدہ کی ماضی کی قرارداد کے مطابق عالمی امن فوج تعینات ہوگی اور لبنانی فوج کو سرحدوں کی ذمے داری جیسی بات بھی کی گئی۔ بہرحال اس معاہدے کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا کہتا جاؤں کہ اسرائیل نے اپنے بچاؤ کے لیے ایک نیا منصوبہ بنایا تھا اور چاہتا تھا کہ حزب اللہ کو تنہا کردیا جائے۔
حزب اللہ نے لبنان میں خانہ جنگی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے لبنانی حکومت کی رائے کا احترام کیا اور معاہدے کو تسلیم کیا۔ یہ جنگ بندی معاہدہ 60 روز کے لیے کیا گیا تھا اور یہ 27 نومبرکو انجام پذیر ہوا تھا جو اب 26جنوری کو ختم ہونے والا ہے۔ ساٹھ روزہ جنگ بندی کے معاہدے کے دوران غاصب صیہونی حکومت اور قابض فوج نے متعدد مرتبہ خلاف ورزیاں کی ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے، جب کہ دوسری جانب حزب اللہ نے حکومت سمیت عوام اور معاہدے کے اراکین کو واضح کردیا ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے خلاف ورزیاں جاری رکھی جاتی ہیں تو پھر حزب اللہ کے پاس اسرائیل کے خلاف دفاعی کارروائیوں کا قانونی جواز موجود ہے۔
حزب اللہ لبنان کے دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی دیر برداشت نہیں کرے گی۔ اب جیسے جیسے معاہدے کے خاتمے کے دن قریب آ رہے ہیں تو یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت مسلسل معاہدے کے خلاف ورزیوں میں ملوث ہوتی چلی جا رہی ہے۔
حال ہی میں صیہونی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ مزاحمتی تحریک کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں طے شدہ 60 دن کی واپسی کی مدت کے اختتام پر جنوبی لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو نہیں چھوڑے گا۔ یہ رپورٹ غاصب صیہونی حکومت کے ایک ایک نامعلوم اسرائیلی اہلکار نے دی یروشلم پوسٹ کو بتائی ہے کہ ’’ جب تک کوئی بڑا سرپرائز نہ ہو، لبنانی فوج 60 دن کی جنگ بندی کے دوران مکمل طور پر تعینات نہیں ہو سکے گی، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کوکچھ طویل عرصے تک رہنا پڑے گا۔‘‘
یعنی اس شبے کا اظہارکیا جا رہا ہے کہ غاصب صیہونی فوج جوکہ جنوبی لبنان کی سرحدوں کے قریب موجود ہے، وہ واپس نہیں جانیوالی ہے اور شاید ایک طویل مدت تک کے لیے یہاں قیام کرے جیسا کہ پہلے ہی جنوبی لبنان میں شعبا فارمز کے علاقوں پر صیہونی فوج کا ناجائز تسلط قائم ہے۔
غاصب اسرائیل کے ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی رپورٹس میں لبنان کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بندی کے متعلق اسرائیل کے آیندہ اقدامات کے حوالے سے موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب نئے آنیوالے امریکی صدر ٹرمپ کے حامی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن حکومت جاتے جاتے ٹرمپ کے لیے مشکلات اور مسائل کا انبار لگا رہی ہے تاکہ جب ٹرمپ اقتدار سنبھالیں تو وہ کمزور ہوجائیں اور انھی مسائل میں الجھے رہیں۔
شام میں بھی سی آئی اے نے ایسا ہی ایک پروجیکٹ شروع کردیا ہے، جو اب جولانی کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ لبنان اور غاصب ریاست اسرائیل کے مابین ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ دراصل اس لیے شروع کیا گیا تھا اور امریکا سمیت مغربی حکومتوں کی تائید حاصل ہوئی تھی۔
کیونکہ اسرائیل کو میدان جنگ میں بھاری نقصان اٹھانے اور لبنان میں 4000 سے زائد افراد کی شہادت کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا تھا، لٰہذا حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس معاہدے کی میعاد 26 جنوری کو ختم ہونے والی ہے، اسرائیل کو مقبوضہ قصبوں سے اپنی فوجیں نکالنے اور لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کے امن دستوں کے حوالے کرنے کے لیے 60 دن کا وقت دیا گیا تھا، لیکن اسرائیل مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ لبنانی حکومت بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
نگران وزیراعظم نجیب میکاتی نے بھی معاہدے کے ضامن اراکین کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے پر پابند کیا جائے۔جنگ بندی کے معاہدے پر اسرائیل کی خلاف ورزیوں پر حزب اللہ لبنان نے واضح اور دو ٹوک موقف دہراتے ہوئے بتا دیا ہے کہ وہ صرف ساٹھ دن مکمل ہونے تک انتظارکریں گے اور اگر خلاف ورزیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا تو پھر اسرائیل کی جارحیت اور معاہدے کے خلاف ورزی کے خلاف حزب اللہ کو لبنان اور لبنان کے عوام کے دفاع سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
اگر اسرائیل مقررہ تاریخ سے آگے لبنان کی سرحدوں کے اطراف میں رہنے کی کوشش کرے گا، تو تمام بین الاقوامی اصول اور معاہدے لبنان اور اس کے عوام کو تمام ضروری ذرایع سے اپنے علاقوں کو مکمل طور پر آزاد کرنے کا حق دیتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی فوج جنگ بندی کے حزب اللہ نے اسرائیل کے اسرائیل کو کہ اسرائیل اور معاہدے پر اسرائیل اسرائیل کی معاہدے کے اور لبنان ہونے والی لبنان اور اس معاہدے لبنان کے لبنان کی کے خلاف کے ساتھ رہی ہے اور اس
پڑھیں:
غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ
غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
جدہ (آئی پی ایس )سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ فیصل نے یہ بھی کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اسرائیلی حکومت پر دبا ڈالنا چاہیے کہ وہ غزہ کو امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔انطالیہ میں غزہ کی جنگ بندی کے بارے میں عرب اسلامی وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر نے یہ بات کہی، اجلاس میں انکلیو میں ہونے والی پیش رفت کے ساتھ ساتھ فوری اور پائیدار جنگ بندی کے حصول کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق کے استعمال کے قابل بنانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی کو واضح طور پر مسترد کیا جاتا ہے، سعودی عرب جنگ بندی مذاکرات میں مصر اور قطر کی کوششوں کو سراہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے سے متعلق کسی بھی تجویز کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں، اس کا اطلاق ہر طرح کی نقل مکانی پر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو فلسطینیوں کی بعض اقسام کی روانگی کو رضاکارانہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آپ رضاکارانہ انخلا کی بات نہیں کر سکتے، جب کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر امداد نہیں مل رہی ہے، اگر لوگوں کو کھانا، پانی یا بجلی نہیں مل رہی ہے اور اگر انہیں مسلسل فوجی بمباری کا خطرہ ہے، تو یہاں تک کہ اگر کسی کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو یہ رضاکارانہ انخلا نہیں ہے، یہ جبر کا تسلسل ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی تجویز جس میں فلسطینیوں کی روانگی کو فریم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یا جسے ان حالات میں رضاکارانہ انخلا کا موقع کہا جاتا ہے، محض حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس حقیقت کی وضاحت جاری رکھنی چاہیے، لگاتار کام کرنا چاہیے اور امید ہے کہ یہ پیغام سب کے لیے واضح ہوگا، خاص طور پر اس ایکشن پلان کے فریم ورک کے اندر جس پر ہم نے آج کمیٹی میں اتفاق کیا ہے۔ فیصل بن فرحان نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی جن میں یہودی بستیوں کی توسیع، گھروں کو مسمار کرنا اور زمین پر قبضہ شامل ہے۔