Express News:
2025-01-18@12:58:12 GMT

لبنان اور اسرائیل جنگ بندی کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

غزہ سے اسلامی مزاحمت حماس اور جہاد اسلامی نے 7 اکتوبر کو طوفان اقصیٰ نامی آپریشن کا آغازکیا تھا۔ اس طوفان کے بعد غاصب صیہونی حکومت اور اس کی قابض فوج نے غزہ پر جارحیت اور عوام کی نسل کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا۔

یہ نسل کشی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لبنان میں موجود اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے سات اکتوبر کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی حمایت کے لیے اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے جنوبی لبنان اور شمالی فلسطین کی 120کلو میٹر طویل سرحد پر غاصب صیہونی فوج کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کریں گے اور یہ سلسلہ آٹھ اکتوبر کو شروع کردیا گیا۔

لبنان اور غاصب صیہونی فوج کے درمیان ہونے والی جنگ کے ایک سال کے عرصے میں جہاں لبنان پر اسرائیل کی شدید بمباری جاری رہی، وہاں حزب اللہ کی جانب سے بھی غاصب اسرائیلی فوج کے بہت بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔ اس جنگ میں حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت بشمول سید حسن نصر اللہ، سید ہاشم صفی الدین، فواد شکر، ابراہیم عقیل اور اسی طرح حماس کی اعلیٰ قیادت میں اسماعیل ہانیہ اور یحییٰ سنوار سمیت صالح العاروری اور دیگر بھی شہید ہوئے۔

لبنان پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد لبنانی شہری شہید ، دسیوں ہزار زخمی اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہوئے اور مہاجرین ہوگئے۔ بہرحال یہ جنگ جاری رہی اور حزب اللہ نے غاصب صیہونی فوج کو اس کے مقاصد میں کامیاب ہونے سے روکے رکھا۔ یہاں تک کہ حزب اللہ کی سب سے اہم کامیابیوں میں نیتن یاہوکی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ، شمال فلسطین میں چالیس کلومیٹرگہرائی میں لاکھوں صیہونی آباد کاروں کا انخلاء جو تاحال واپس آنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اس طرح کی اور متعدد کامیابیاں شامل ہیں۔ایک طویل مدتی جنگ کے بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے مجبور ہو کر لبنان کے ساتھ جنگ بندی کا ایک منصوبہ بنایا جس پر لبنان کی حکومت بھی آمادہ ہوگئی اور عالمی استعماری قوتیں جو اسرائیل کی پشت پناہ ہیں، سب نے اس معاہدے پر عملدرآمد کے لیے لبنانی حکومت کو دباؤ ڈالنا شروع کیا۔

اس معاہدے میں کہا گیا کہ جنوبی لبنان کی سرحد پر اقوام متحدہ کی ماضی کی قرارداد کے مطابق عالمی امن فوج تعینات ہوگی اور لبنانی فوج کو سرحدوں کی ذمے داری جیسی بات بھی کی گئی۔ بہرحال اس معاہدے کی تفصیل میں جائے بغیر صرف اتنا کہتا جاؤں کہ اسرائیل نے اپنے بچاؤ کے لیے ایک نیا منصوبہ بنایا تھا اور چاہتا تھا کہ حزب اللہ کو تنہا کردیا جائے۔

حزب اللہ نے لبنان میں خانہ جنگی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے لبنانی حکومت کی رائے کا احترام کیا اور معاہدے کو تسلیم کیا۔ یہ جنگ بندی معاہدہ 60 روز کے لیے کیا گیا تھا اور یہ 27 نومبرکو انجام پذیر ہوا تھا جو اب 26جنوری کو ختم ہونے والا ہے۔ ساٹھ روزہ جنگ بندی کے معاہدے کے دوران غاصب صیہونی حکومت اور قابض فوج نے متعدد مرتبہ خلاف ورزیاں کی ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے، جب کہ دوسری جانب حزب اللہ نے حکومت سمیت عوام اور معاہدے کے اراکین کو واضح کردیا ہے کہ اگر اسرائیل کی جانب سے خلاف ورزیاں جاری رکھی جاتی ہیں تو پھر حزب اللہ کے پاس اسرائیل کے خلاف دفاعی کارروائیوں کا قانونی جواز موجود ہے۔

حزب اللہ لبنان کے دفاع کے لیے کسی بھی قسم کی دیر برداشت نہیں کرے گی۔ اب جیسے جیسے معاہدے کے خاتمے کے دن قریب آ رہے ہیں تو یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت مسلسل معاہدے کے خلاف ورزیوں میں ملوث ہوتی چلی جا رہی ہے۔

حال ہی میں صیہونی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل حزب اللہ مزاحمتی تحریک کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے میں طے شدہ 60 دن کی واپسی کی مدت کے اختتام پر جنوبی لبنان کے مقبوضہ علاقوں کو نہیں چھوڑے گا۔ یہ رپورٹ غاصب صیہونی حکومت کے ایک ایک نامعلوم اسرائیلی اہلکار نے دی یروشلم پوسٹ کو بتائی ہے کہ ’’ جب تک کوئی بڑا سرپرائز نہ ہو، لبنانی فوج 60 دن کی جنگ بندی کے دوران مکمل طور پر تعینات نہیں ہو سکے گی، جس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کوکچھ طویل عرصے تک رہنا پڑے گا۔‘‘

یعنی اس شبے کا اظہارکیا جا رہا ہے کہ غاصب صیہونی فوج جوکہ جنوبی لبنان کی سرحدوں کے قریب موجود ہے، وہ واپس نہیں جانیوالی ہے اور شاید ایک طویل مدت تک کے لیے یہاں قیام کرے جیسا کہ پہلے ہی جنوبی لبنان میں شعبا فارمز کے علاقوں پر صیہونی فوج کا ناجائز تسلط قائم ہے۔

غاصب اسرائیل کے ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی رپورٹس میں لبنان کے ساتھ اسرائیل کی جنگ بندی کے متعلق اسرائیل کے آیندہ اقدامات کے حوالے سے موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کو بھی آگاہ کردیا گیا ہے۔ دوسری جانب نئے آنیوالے امریکی صدر ٹرمپ کے حامی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن حکومت جاتے جاتے ٹرمپ کے لیے مشکلات اور مسائل کا انبار لگا رہی ہے تاکہ جب ٹرمپ اقتدار سنبھالیں تو وہ کمزور ہوجائیں اور انھی مسائل میں الجھے رہیں۔

شام میں بھی سی آئی اے نے ایسا ہی ایک پروجیکٹ شروع کردیا ہے، جو اب جولانی کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ لبنان اور غاصب ریاست اسرائیل کے مابین ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ دراصل اس لیے شروع کیا گیا تھا اور امریکا سمیت مغربی حکومتوں کی تائید حاصل ہوئی تھی۔

کیونکہ اسرائیل کو میدان جنگ میں بھاری نقصان اٹھانے اور لبنان میں 4000 سے زائد افراد کی شہادت کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا تھا، لٰہذا حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس معاہدے کی میعاد 26 جنوری کو ختم ہونے والی ہے، اسرائیل کو مقبوضہ قصبوں سے اپنی فوجیں نکالنے اور لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کے امن دستوں کے حوالے کرنے کے لیے 60 دن کا وقت دیا گیا تھا، لیکن اسرائیل مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ لبنانی حکومت بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔

نگران وزیراعظم نجیب میکاتی نے بھی معاہدے کے ضامن اراکین کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے پر پابند کیا جائے۔جنگ بندی کے معاہدے پر اسرائیل کی خلاف ورزیوں پر حزب اللہ لبنان نے واضح اور دو ٹوک موقف دہراتے ہوئے بتا دیا ہے کہ وہ صرف ساٹھ دن مکمل ہونے تک انتظارکریں گے اور اگر خلاف ورزیوں کا سلسلہ نہ تھم سکا تو پھر اسرائیل کی جارحیت اور معاہدے کے خلاف ورزی کے خلاف حزب اللہ کو لبنان اور لبنان کے عوام کے دفاع سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

اگر اسرائیل مقررہ تاریخ سے آگے لبنان کی سرحدوں کے اطراف میں رہنے کی کوشش کرے گا، تو تمام بین الاقوامی اصول اور معاہدے لبنان اور اس کے عوام کو تمام ضروری ذرایع سے اپنے علاقوں کو مکمل طور پر آزاد کرنے کا حق دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غاصب صیہونی فوج جنگ بندی کے حزب اللہ نے اسرائیل کے اسرائیل کو کہ اسرائیل اور معاہدے پر اسرائیل اسرائیل کی معاہدے کے اور لبنان ہونے والی لبنان اور اس معاہدے لبنان کے لبنان کی کے خلاف کے ساتھ رہی ہے اور اس

پڑھیں:

حماس،اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر متفق ،اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ

غزہ: دیر البلاح میں اسرائیلی فضائیہ کے وحشیانہ حملوں میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے والے مکانات سے بچے کارآمد اشیاء تلاش کررہے ہیں غزہ: دیر البلاح میں اسرائیلی فضائیہ کے وحشیانہ حملوں میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہونے والے مکانات سے بچے کارآمد اشیاء تلاش کررہے ہیں

مقبوضہ بیت المقدس /غزہ سٹی /دوحا/ واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک +اے پی پی) اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق فلسطین اور اسرائیل کے عہدیداروں نے کہا کہ حماس نے غزہ جنگ روکنے اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی منظوری دے دی ہے تاہم حماس نے منظوری کو تحریری شکل میں پیش نہیں کیا ہے۔اسرائیلی میڈیا کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ
اسرائیل کے عہدیداروں نے بتایا کہ فریقین نے معاہدے پر اتفاق کرلیا ہے اور قطری وزیراعظم آج پریس کانفرنس میں جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کریں گے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم دوحا میں موجود مذاکراتی ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں جب کہ اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کی فیلا ڈیلفی راہداری سے انخلا شروع کر دیا۔جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے قبل ہی غزہ میں جشن شروع ہوگیا۔جنگ بندی معاہدے پر تباہ حال فلسطینی جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ادھر امریکی خبررساں ایجنسی نے جنگ بندی مذاکرات سے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کے بعد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے اختتام کی امید پیدا ہوگئی ہے۔عرب میڈیا الجزیرہ کے مطابق حماس کی جانب سے الجزیرہ کو بتایا گیا ہے کہ حماس رہنما خلیل الحیہ کی سربراہی میں وفد نے قطر اور مصر کے ثالثوں کو جنگ بندی معاہدے پر اپنی رضامندی سے آگاہ کردیا ہے۔دوسری جانب مصری حکومت نے رفح سرحدی گزرگاہ کے پاس طبی مرکز قائم کردیا ہے اور عملہ اور ایمبولینس پہنچادی گئی ہیں۔عرب میڈیا کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی سے زخمیوں اور مریضوں کو ہنگامی بنیادوں پر اسپتال منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے۔مصری ہلال احمر کمیٹی کی ٹیمیں بھی صوبہ شمالی سینا پہنچ چکی ہیں، ہلال احمر کی ٹیمیں غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان کی ترسیل کی نگرانی کریں گی۔ مصر میں العریش کے گوداموں سے ہزاروں ٹن امدا اور طبی سامان کی ترسیل بھی شروع ہوگئی ہے۔ علاوہ ازیں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں موجود اسرائیلی مغویوں کی رہائی کا معاہدہ طے پانے کا دعویٰ کردیا۔اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنے بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں مغویوں کی رہائی کا معاہدہ ہوگیاہے، وہ جلد ہی رہا ہوجائیں گے۔اپنی ایک دوسری پوسٹ میں ٹرمپ نے الیکشن جیتنے کے حوالے سے کہا کہ نومبر کی تاریخی کامیابی کے بغیر یہ جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوسکتا تھا۔ٹرمپ نے کہا کہ یہ امریکا اور دنیا کے لیے کئی بہترین چیزوں کا نقطہ آغاز ہے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس میں واپسی سے قبل ہی بہت کچھ حاصل کرلیا ہے۔دوسری جانب اسرائیل کے داخلی سلامتی کے وزیر اور انتہا پسند یہودی جماعت کے سربراہ ایتمار بین گویر نے وزیراعظم نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کیا تو وہ حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔العربیہ اردو کے مطابق انہوں نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے کہ ہم غزہ جنگ کے دوران مرنے والے400سے زیادہ اسرائیلی فوجیوں کی اموات کو جنگ بندی کرکے ضائع نہ ہونے دیں۔ واضح رہے کہ پیر کو اسرائیلی وزیر خزانہ بزلیل سموٹریچ نے کسی بھی جنگ بندی معاہدے کو اسرائیل کے لیے تباہی قرار دیا ہے اور اس کے اگلے دن اسرائیل کے داخلی سلامتی کے وزیرایتمار بین گویر نے جنگ بندی معاہدے کی صورت میں حکومت سے الگ ہو جانے کی دھمکی دی ہے۔مزید برآں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کو فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق کرنا پڑے گا۔ واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل میں غزہ جنگ کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی سکیورٹی فورسز اور اقوام متحدہ کی عبوری قیادت کی تجویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بعد از جنگ استحکام لانے کے لیے اقوام متحدہ کی عارضی قیادت اور بین الاقوامی سکیورٹی فورسز تعینات کرنے کی تجویز دی ہے۔قبل ازیں جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود اسرائیلی فوج کی غزہ میں بمباری جاری رکھی اور 24 گھنٹے کے دوران مزید 63 فلسطینی شہید، متعدد زخمی ہوگئے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ جنگ بندی معاہدہ، حماس کا نیا مطالبہ سامنے آگیا
  • اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی
  • غزہ میں جنگ بندی سے صیہونیوں کی حتمی شکست
  • غزہ جنگ بندی معاہدہ؛ یمن سے حوثی بھی اسرائیل پر حملے روک دیں گے
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر ایرانی وزارت خارجہ کا بیان
  • اسرائیل و حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ بہتر مستقبل کا موقع ہے، اینٹونیو گیوٹریس
  • فائر بندی معاہدے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد اسرائیل نے غزہ پر حملے تیز کر دیے
  • غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات
  • حماس،اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر متفق ،اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ
  • قطری وزیراعظم کا غزہ میں حماس، اسرائیل جنگ بندی معاہدے کا اعلان