معصوم بچہ عباد اور کھلے گٹر
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
بے حد اندوہناک خبر ہے کہ معصوم بچہ شادی ہال کے سامنے کھلے گٹر میں گر کر جاں بحق ہو گیا، ریسکیو، رضاکار اسے بروقت نالے سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اسی دکھ، غم اور ناکام کوشش کے درمیان بچے کی لاش نالے سے بہتی ہوئی ندی میں پہنچ گئی۔
کھلے نالوں اور گٹروں پر ڈھکن لگانے کی کس کی ذمے داری ہے؟ حکومت تو شہریوں کے حقوق اور تحفظ سے دستبردار ہو چکی ہے۔ بے شمار بچے ایسے ہی سانحات کا آئے دن شکار ہوتے ہیں گھروں میں قیامت اتر آتی ہے والدین اپنے بچوں کی اچانک موت کا سن کر جیتے جی مر جاتے ہیں، دل میں ایک برچھی سی لگتی ہے جو قلب کو شق کر دیتی ہے، زخمی دل اور تڑپتی روح کا کوئی مداوا نہیں، کوئی پرسان حال نہیں، صوبہ سندھ اور اس پر حکومت کرنیوالوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت جعلی ووٹوں پر وجود میں آئی ہے اور اب اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے حق دار کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے دلخراش واقعات کا رونما ہونا آج کی بات نہیں ہے بلکہ کئی عشروں سے حکمران خواب غفلت میں گم ہیں۔
انھیں عوام کی قطعی فکر نہیں ہے۔ہم یہ دیکھتے ہیں کہ معاشرتی ڈھانچہ بے حد کمزور اور بوسیدہ ہو چکا ہے، اپنے مفاد کے سوا کسی کو کچھ نظر نہیں آتا ہے، بچے کی ہلاکت میں شادی ہال کی انتظامیہ پوری پوری قصور وار ہے کہ ان منتظمین کو نہیں معلوم تھا، تقریبات کے مواقعوں پر بچے باہر نکل جاتے ہیں، خاص طور پر گولا گنڈا، آئس کریم یا چپس کے پیکٹ خریدنے کے لیے، ان حالات میں حادثہ ہو سکتا ہے اور اگر بجلی چلی جائے تو اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔
شادی ہال کے اطراف کے علاقے کو صاف ستھرا اور گٹر کے ڈھکنوں سے بند کرنا ان لوگوں کا فرض ہے۔ اسی طرح بے شمار دکاندار اپنی دکان کے سامنے کے حصے کو کوڑا کرکٹ سے پاک نہیں کرتے نہ ہی اونچے نیچے راستے کو ہموار کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ اس طرح ہوتا یہ ہے کہ بزرگ حضرات کو دکان سے خریداری کرنے میں بے حد مشکل پیش آتی ہے اور گندگی ہونے کی وجہ سے وبائی امراض جنم لیتے ہیں علاقے اور محلے بیماریوں کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
معاشی پریشانیاں لوگوں کو جینے نہیں دیتیں۔ اسی وجہ سے لوگ کسی نہ کسی طرح باہر کے ملکوں میں روزگار کے حصول کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ عباد کے والد صاحب بھی دبئی میں فکر معاش کے حل کے لیے مقیم تھے جن بچوں کے لیے پرائے دیس رہ کر وہ مشقت کر رہے تھے وہی بچے اگر کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائیں اور پھر ایک بچہ لقمہ اجل بن جائے تو پھر ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، یہ بات وزرا، کمشنر، گورنر اور مشیروں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی ہے؟
آخر بلدیہ کا ادارہ کیوں وجود میں آیا ہے، یہ سب اہم عہدے دار تنخواہیں زیادہ سے زیادہ وصول کرتے ہیں اور کام صفر۔ نہ ہونے کے برابر۔ کمشنر کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر روز پابندی سے بازاروں، شاہراہوں اور اہم دفاتر کا دورہ کریں اور دیکھیں کہ کراچی کے شہری کس قدر بے بسی اور کسمپرسی کا شکار ہیں، ان کے بچے اغوا کر لیے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو بغیر کسی قصور کے گولی مار دی جاتی ہے جب کہ قاتل اور لٹیرے محلوں، گلیوں اور سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں، گھروں میں ڈاکے ڈال رہے ہیں، انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
گویا سرکار سے اجازت نامہ لے کر آئے ہیں کہ ان کے معاملات میں کوئی دخل اندازی نہ کرے، اگر کوئی جیالا ڈکیتی و چوری کے درمیان مزاحمت کرے تو ڈاکو کو مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے سیدھی گولی چلا سکتا ہے، اس کا کوئی بال بیکا نہیں کرے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے تخریب کار پکڑا نہیں جاتا ہے۔اس موقع پر مجھے ایک افسانہ یاد آگیا ہے اس کا نام ہی ’’مین ہول‘‘ ہے۔ جو بلدیہ اور حکومتی رویوں کی شاندار عکاسی کرتا ہے۔ اسی کہانی سے چند اقتباسات۔
’’چاچا خیرالدین نے نرم نرم گھاس پر اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں اور پھر انگڑائی لیتے ہوئے اپنے لاغر جسم کو گھاس کی گود پر ڈال دیا، وہ تینوں چاچا کو دیکھ کر مسکرانے لگے، بولے چاچا! لگتا ہے آج تیری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ’’طبیعت کا کیا پوچھتے ہو، یہ تو بارہ سال سے خراب ہے، روز بہ روز صحت گر رہی ہے، لیکن دیکھ لو پھر بھی جئے جا رہا ہوں، سینی ٹوریم میں داخل ہونے والے کی طبیعت کیسے ٹھیک رہ سکتی ہے؟‘‘
’’چاچا! انسان اپنی مرضی سے جیتا مرتا نہیں ہے بلکہ قدرت کی طرف سے جینے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔‘‘ ان تینوں میں سے ایک بولا جسے ادھر آئے ہوئے تین ماہ گزر گئے تھے، اس کی عمر چالیس پینتالیس کے لگ بھگ ہوگی اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ جب کبھی اس کے جسم پر گوشت ہوگا تو یہ گٹھے ہوئے جسم کا آدمی ہوگا لیکن وقت نے دوسری چیزوں کے ساتھ اس سے اس کی ہڈیوں کا گوشت بھی چھین لیا ہے۔
چاچا ! یاد ہے پچھلی جمعرات کو اسی جگہ تُو نے ہماری زندگی کی کہانیاں سنی تھیں، لیکن آج چاچا! تیری باری ہے۔ لمبے اور دبلے پتلے نوجوان نے جس کی عمر تیس بتیس سال سے زیادہ نہ تھی فرمائش کی۔ دوسروں نے بھی نوجوان کی تائید کی۔چاچا کہانی سنانے کے موڈ میں آگیا تھا۔
کچھ سوچتا ہوا بولا، میری کہانی نئی بھی ہے اور پرانی بھی۔ آپ بیتی بھی ہے، جگ بیتی بھی، اپنی بھی ہے اور پرائی بھی ۔ مجھے بلدیہ کے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے ہیں، پچھلے پچیس سال سے میں نے انتخابات میں کھڑے ہونے والوں کو ووٹ نہیں دیا اور نہ دوں گا ’’نہ‘‘ کہتے ہوئے چاچا نے مکہ بنا کر گھاس پر مارا، لیکن چاچا! تم تو اپنی کہانی سنا رہے تھے، یہ بلدیہ کا ادارہ کہاں سے آگیا؟
پستہ قد والے نے ٹوکا۔ میری کہانی کے مرکزی کردار بلدیہ کے ہی افسران اور ادارہ ہے، اگر میں اپنی کہانی سے بلدیہ کو نکال دوں تو کہانی نامکمل اور تشنہ رہے گی۔ ٹھیک ہے چاچا! تم کہانی کو آگے بڑھاؤ۔
دبلے پتلے شخص نے چاچا کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سب کے سب مفت کی کھاتے ہیں، اسکول اور دوا خانوں سے عملہ اور دوائیں غائب اور مین ہول؟ چاچا خیرو نے لمبا سانس لیا، ہماری جب شادی ہوئی تو اماں بہت خوش تھیں، خوشی کی وجہ رضیہ کا حسن تھا، موتیے جیسی رنگت، سیاہ گھٹاؤں جیسے بال، وہ دن بھی کتنے اچھے تھے۔ چاچا سوچوں کی وادیوں میں اتر گیا۔ چاچا پھر بہک گیا ان میں سے ایک نے کہا۔
نہیں بہکا، چاچا کو غصہ آگیا تھا، ساتھیوں کی سرگوشی اس نے سن لی تھی۔ سوری چاچا! آپ آگے بڑھیں۔ کئی سال ہم اولاد سے محروم رہے اور اماں نے اسے بانجھ قرار دے دیا، اب ہر روز ساس بہو میں جھگڑا ہوتا، میں اور رضیہ اماں کو سمجھاتے اولاد کا ہونا یا نہ ہونا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، اللہ چاہے گا تو بہت جلد ہم بامراد ہوں گے، پھر ایسا ہی ہوا، ہمارے گھر کو رحمت نے شاد آباد کر دیا، بچی بہت خوبصورت تھی، وقت گزرتے پتا نہیں چلا، وہ جب چار سال کی ہوئی تو ہم نے اسے اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔
پہلا ہی دن تھا جب رضیہ نے نہلا دھلا کر اسے یونیفارم پہنایا، نیا بستہ اس کے کاندھے پر لٹکایا، اسی دوران میرے سر میں درد اٹھا، میں نے رضیہ سے کہا ایک گولی دے دو اور ایک کپ چائے۔ رضیہ باورچی خانے کی سمت ہوئی، بچی گلے میں بستہ ڈالے باہر نکل گئی۔’’بلدیہ کے غیر ذمے داران افسران اور کھلے مین ہول ‘‘ چاچا کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں جیسے گہرے کرب سے گزر رہا ہو۔
چاچا! مین ہول سے باہر نکل آؤ۔ دبلے پتلے نوجوان نے آواز لگائی، مین ہول سے تو میں ساری زندگی باہر نہیں آ سکتا۔ چاچا نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔ اس کا چہرہ سرخ اور آنکھوں میں نمی تیر گئی تھی، پھر سنبھلا اور دوبارہ گویا ہوا۔جانتے ہو کھلے مین ہول میں میری اکلوتی بچی جو ہماری خوشیوں، تمناؤں کی محور اور جینے کی امید تھی، وہ گر گئی تھی۔ میں نے سب سے کہا کہ میری بچی کو تلاش کرو، جلدی نکالو، وہ زندہ ہوگی، لیکن کسی نے میری نہیں سنی۔ کتاب ’’آج کا انسان سے ماخوذ‘‘۔ افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت کل اور آج بھی تنزلی کی کھائی میں دھنسی ہوئی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان کی قدر کرو
اے ابن آدم ہم ایک آزاد خود مختیار ریاست ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں جو بھی قیادت ملی وہ غلامانہ اور مفلوج سوچ کی حامل ہے۔ ملک کو بچانا ہے تو جماعت اسلامی کو لانا ہوگا۔ ایماندار، محبت وطن لوگوں کی واحد جماعت ہے، بغیر رشوت کے کام کرتی ہے۔ ملک میں روز بروز کرپشن بڑھتی جارہی ہے پاکستان کی 76 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کی جڑیں روز اوّل سے ہیں جو وقت کے ساتھ مضبوط ہو چکی ہیں اور یہ قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو جو کام کرنا چاہیے وہ نہیں کرتی سیاسی جوڑ توڑ کے علاوہ ملک کے لیے کئی اور کام کرنے کی ضرورت ہے اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ سب سے پہلے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے، پولیس، رینجرز، سی آئی اے، ایف آئی اے، نیب جیسے ادارے کیا کررہے ہیں جن اداروں کو جرائم اور کرپشن کے لیے بنایا جاتا رہا وہ خود کرپشن میں ملوث ہیں اگر ملک میں ایماندار طریقے سے احتساب کیا جائے تو حکومت اور اپوزیشن کا ہر ذمے دار آپ کو کرپشن زدہ نظر آئے گا۔ غریب چوری کرلے تو اسے سزا ملتی ہے اور اربوں کا کرپشن کرنے والا باعزت طریقے سے کرپشن کی جاری چین کا حصہ بن کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ سندھ میں کرپشن پیپلز پارٹی کی زیر سرپرستی اپنے بام عروج پر ہے۔ کے الیکٹرک کا ادارہ جس طرح سے عوام کو لوٹ رہا ہے یا بجلی کے تمام اداروں کو لے لو سب اس وقت سوئی گیس کا محکمہ بھی لوٹ مار میں لگ چکا ہے میں آپ کو بتاتا ہوں گیس کا پریشر نہ ہونے کی وجہ سے میٹر یا تو چلتا نہیں ہے اگر چلتا ہے تو ماہانہ یونٹ 2 سے 25 تک یا ایم ایم بی ٹی یو 0.2-0.3-0.5 تک بھی نہیں پہنچتا اس صورت میں PUG چارجز اور اس پر PUG EXCISE TAX لگا کر بھیجا جارہا ہے۔ اس PUG کا مطلب بھی ساتھ لکھا ہوتا ہے بل پھر یعنی Slow Meter Rate پھر Slow Meter کی وجہ سے سوئی سدرن گیس کی ویب سائٹ پر لکھی ہے کہ آپ کو جس بہتر پریشر سے گیس سپلائی کی جارہی ہے آپ کا میٹر ٹیکنیکل (گراریوں) کی خرابی کی وجہ سے گیس اسٹینڈرڈ کے مطابق پاس نہیں کررہا اگر (SSGC) خود سے بل میں PUG چارجز کی بنیادی وجہ (میٹر خراب) تک پہنچ چکا ہوتا ہے تو فوری طور پر میٹر تبدیل اس لیے نہیں کیا جاتا کہ (Slow Meter) کی مد میں تقریباً کم سے کم 1000 روپے کسٹمرز سے لوٹے جاتے رہے، میٹر تبدیل کر بھی دیا تو (SSGC) گیس تو دے نہیں رہی میٹر تبدیل پر بھی یونٹ تو بنیں گے نہیں اس لیے PUG چارجز کے نام پر عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالتے رہو اس کو ٹھیک کروانا ہو تو کم از کم 3 مختلف (SSGC) آفس بھیج کر خوار کروایا جاتا ہے۔ بل ایک دفعہ ٹھیک کروانے کے بعد (SSGC) اپنے سسٹم میں نہیں ڈالتے اور PUG چارجز پھر سے لگ کر آتے رہتے ہیں جو کہ 1000 یا 400 روپے اضافی چارجز کے علاوہ ہے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے ہر آدمی بجلی اور گیس کے بلوں پر غور نہیں کرتا بس اُس کو بل جمع کروانے کی جلدی رہتی ہے ہر ادارے کے بڑے بڑے کسٹمرز سینٹر کام کررہے ہیں مگر وہاں سے عوام کو سوائے ذلت کے کچھ نہیں ملتا۔ KE کا اسٹاف و افسران تو فرعون بن چکے ہیں جس افسر کے پاس جائو تو ایک جملہ سننے کو ملتا ہے میں بے اختیار ہوں آپ فلانے صاحب سے ملیں جب آپ فلانے صاحب کے کمرے میں جاتے ہیں تو سیکورٹی گارڈ روک لیتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں آپ انتظار فرمائیں جب آپ کا اندر جانے کا نمبر آتا ہے تو جواب ملتا ہے یہ بل تو جمع کروانا ہی ہوگا کمپنی کی پالیسی ہے ہمارے ملک میں افسر شاہی فرعون بنے ہوئے ہیں جبکہ ان کی تنخواہیں عوام دیتے ہیں مگر افسوس کے کوئی اس بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ اندرون سندھ سے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو لاکر بڑی بڑی پوسٹوں پر لگادیا ہے جن کو نہ انگریزی لکھنی آتی ہے نہ بولنی آتی ہے۔ وہ بس مال بنانے کی مشینیں ہیں ایک سے بڑھ کر ایک سفارشی کراچی کے اداروں میں عیاشی کررہے ہیں کراچی کی قیادت ان کے ہاتھوں میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے سب مل کر کھا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا دشمن ملک بھارت ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق بھارت 2025ء میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن جائے گا۔ آئی ایم ایف کے اندازہ کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی 4.339 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی جو جاپان کے 4.310 ٹریلین سے تجاوز کر جائے گی بھارت کے لیے یہ سب کچھ من موہن سنگھ کے باعث ہے جو پاکستان کے شہر چکوال کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے، من موہن انتہائی غریب تھے۔ اسٹریٹ لائٹ میں پڑھا کرتے تھے۔ بھارت من موہن سنگھ کو مسیحا تصور کرتا ہے۔ چین کو شی جن پنگ کی صورت میں ایک مسیحا ملا ہوا ہے چین ترقی پہ ترقی کرتا جارہا ہے ملائیشیا کیا تھا مگر ڈاکٹر مہاتیر محمد قیادت نے ملک کو بنا ڈالا۔ بنگلا دیش میں حالیہ انقلاب کے بعد ڈاکٹر یونس جیسا ایماندار مسیحا مل گیا اگر آپ متحدہ عرب امارت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہاں پر مٹی آتی تھی مگر اسے شیخ زاید بن النہان جیسا لیڈر ملا جس نے متحدہ عرب امارت کو بدل کر لکھ دیا آج وہاں بے پناہ دولت ہے مجھے ابوظبی کی مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا تو مسجد کے ایک کونے میں شیخ زاید کی کچی قبر کی زیارت کی فاتحہ ہاتھ اٹھا کر وہ پڑھنے نہیں دیتے سعودی عرب کی طرح وہ کہتے ہیں دل میں پڑھیں اور منہ قبر کی طرف نہیں بلکہ کعبہ کی طرف ہونا ہے یہ ایمان والے لوگ اُن کی قبر پر کوئی سلامی دینے نہیں آتا۔ آپ کی قبر پر 24 گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے نہ کوئی اگر بتی نہ کوئی گلاب کے پھول اگر شیخ زاید کا پاکستان سے تعلق ہوتا تو اُن کا بڑا عظیم الشان مزار بنادیا جاتا۔ محفل سماع ہوتی، چندا آتا، لنگر ہوتا دراصل ہمارے علما حضرات نے ہمیں فرقوں میں تقسیم کردیا ہے، ہمارے پاکستان کو دو چیزوں نے تباہ کردیا ہے۔ لسانیت، فرقہ واریت۔ ماضی میں یہ قوم ایک جشن مناتی تھی وہ تھا یوم آزادی 14 اگست۔ وقت کے ساتھ ہر قوم نے اپنا ایک ڈے منانا شروع کردیا۔ سندھی اجرک ڈے، بلوچ ڈے، مہاجر ڈے، پنجابی ڈے، پشتون ڈے ابھی 2 مزید ڈے کا اضافہ ہوا ہے سرائیکی ڈے جو آرٹ کونسل کراچی میں ہوا تھا دوسرا ہزارہ ڈے تھا جس کی باقاعدہ مجھے لالہ رفیق خان نے دعوت دی تھی۔ اے ابن آدم تم کو ایک سازش کے تحت ٹکڑوں میں تقسیم کیا جارہا ہے ہوش کے ناخن لو متحد ہونے کی بات کرو۔ دراصل ہم ناشکرے لوگ ہیں محب وطن اور ایماندار لوگوں کی ہم قدر نہیں کرتے، ہمارے ملک میں ڈاکٹر محبوب الحق جیسے معاشی ماہر موجود رہے، ہم نے ان کی قدر نہیں کی، ہمیں ذلت کی زندگی گزارنے کی عادت پڑ چکی ہے، ہم نے ٹیپو سلطان اور حیدر علی، محمد بن قاسم کو چھوڑ دیا ہے، ہم نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان کو اپنا مسیحا سمجھ کر ان کے پیچھے چل رہے ہیں مگر زندگی روز بروز بدحال ہورہی ہے ہمیں اب جماعت اسلامی کو موقع دینے کی ضرورت ہے۔