ولی رام ولبھ : عہد ساز ادیب
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
کسی بھی زبان کی ترقی و ترویج اس وقت ممکن ہوتی ہے جب اس زبان میں ادب مستقل بنیادوں پر تحریر ہوتا رہے اور ادبی مکالمہ جاری و ساری رہے۔ تحریر و مکالمہ زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سندھی زبان کو بہت اعلیٰ پائے کے ادیب و شاعر نصیب ہوئے جن میں ایک اہم نام محترم ولی رام ولبھ کا بھی ہے۔
سندھی ادب کے حوالے سے انتہائی معتبر نام، جن کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت تھی۔ آپ رہنمائی کا ہنر جانتے تھے۔ولی رام ولبھ نے تھرپار کر کے شہر مٹھی میں 18 اگست 1941 میں جنم لیا۔ پرائمری کی تعلیم مٹھی سے حاصل کی۔ اردو میں ماسٹرز سندھ یونیورسٹی سے کیا۔آپ نے اردو میں ماسٹر کرنے کے بعد ایل ایل بی کیا پھر عمرانیات میں ماسٹر کیا۔ مختلف شعبہ جات میں کام کیا، اس کے بعد وہ سندھ یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کے مختلف شعبوں سے وابستہ رہے۔
دوران تعلیم 1970 کے بعد ہی لکھنے، لکھانے اور ترجمے کا کام شروع کر دیا تھا۔ تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ سندھی ادب میں نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔ ولبھ صاحب نے متعدد عالمی ادب کی کتابیں سندھی زبان میں ترجمہ کیں۔ ان کی ترجمہ کی گئی کتابوں کے کئی ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے تراجم کے ذریعے غیر ملکی ادب کو سندھی زبان میں منتقل کیا، جس کی وجہ سے نئے موضوعات اور تیکنیک متعارف ہوئیں۔
انھوں نے سندھی ادب میں مشرق و مغرب کے معروف ادیبوں کی تخلیقات کو متعارف کروایا، جس سے قارئین کے علمی اور ادبی سمجھ میں وسعت پیدا ہوئی۔ ان کے تراجم کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے میں تخلیقی پہلوکو نظر انداز نہیں کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانے، ناول یا شاعری کسی اور زبان میں نہیں بلکہ سندھی میں تحریرکیے گئے ہیں۔
بہت کم مترجم، ترجمہ کرتے وقت، خالق کی تحریرکی اصل روح کو برقرار رکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ محترم ولی رام ولبھ نے کئی ناول اورکہانیوں کی کتابیں ترجمہ کیں، انھوں نے قرۃ العین حیدر،کرشن چندر اور امرتا پریتم جیسے ادیبوں کے ناول بھی ترجمے کیے۔ ان کے تراجم پڑھنے والے قارئین ناولوں کے سحر میں ڈوب جاتے تھے۔
ناول اور افسانوں کے تراجم میں کرشن چندرکا ناول غدار، قرۃ العین حیدر کا ناول سیتا ہرن، بند دروازہ، امرتا پریتم، البیرکامیو کا ناول اسٹرینجر کا ترجمہ سندھی میں دھاریو کے نام سے کیا۔ عالمی ادب سے، تیسری دنیا کی کہانیاں تھکی زمین اور دیگر کہانیاں ( البرتو موراویا، اطالوی ) نین تارا اور دیگر کہانیاں (اردو اور ہندی)، پردیسی کہانیاں (امریکی، لاطینی امریکی، یورپی، آسٹریلیائی اور جنوبی افریقی کہانیاں) وغیرہ شامل ہیں۔
ولی رام ولبھ نے دنیا کے ادب سے بہترین کہانیاں، ناول، شاعری تحقیق، مذہب اور فلسفے پر مبنی ادب کو ترجمے کے توسط سے سندھی زبان میں منتقل کیا۔ ان کی ادبی خدمات کا مربوط حوالہ رسالہ آرسی کا اجراء تھا۔ آرسی رسالہ سندھی ادب میں نئے خیالات، نظریات اور تخلیقی مواد کے فروغ کا ذریعہ بنا۔ اس رسالے کے ذریعے انھوں نے اعلیٰ پائے کی تحریریں قارئین تک پہنچائیں۔
ان کے افسانوں اور نثر نگاری میں سندھی سماج، ثقافت اور انسانی جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ ان کے افسانے مخصوص انداز میں لکھے گئے ہیں اور ان میں مقامی رنگ اور معاشرتی مسائل کو اجاگرکیا گیا ہے۔ ان کی نثر نگاری میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے، جو قارئین کو متاثرکرتی ہے۔ولبھ صاحب کے تراجم و ادبی کاوشیں، زبان اور ادب کو فروغ دینے کے لیے ان کی لازوال جدوجہد قابل تحسین ہیں، انھوں نے نظمیں بھی تخلیق کیں جو بے حد پسند کی گئیں۔ ولی رام ولبھ نے کہانیاں بھی لکھیں، یہ کہانیاں موضوعاتی طور پر دلچسپ اور منفرد ہیں، ان کہانیوں کے موضوعات، ماحول، اسلوب اور تیکنیک مہارت سے ترتیب دیے گئے ہیں۔
ولی رام ولبھ کی مدھم اسلوب کی کہانیوں کا مرکز انفرادی و سماجی دُکھ ہیں، انھوں نے شعوری طور پر، عام طبقے سے ان کہانیوں کو ترتیب دیا ہے، جو ان کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں، وہ سمجھتے تھے کہ عام لوگ زبان و ثقافت کے امین ہیں۔
ایک اچھے ادیب ہونے کے ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے۔ اچھے انسان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اورگھرکے افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب آپ کا گھر گاڑی کھاتے میں تھا، ان کا گھر، ہمیشہ ادبی مکالموں کا گہوارہ ہوا کرتا۔ سندھ کے ہر علاقے کا ادیب، جب حیدرآباد آتا تو ان سے ملاقات کیے بغیر واپس نہ لوٹتا۔
ان سے گفتگو ہمیشہ با فیض ہوتی کیونکہ مختلف زبانوں پر دسترس کے ساتھ ولبھ صاحب، نثری و شاعری کی اصناف پر اچھی معلومات رکھتے تھے۔ ان کے گھر میں واقع لائبریری ادیبوں کے لیے کشش کا باعث تھی، جس سے اکثر استفادہ حاصل کیا جاتا تھا۔ آپ زیادہ تر وقت خاندان کے درمیان گھر پرگزارتے۔ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی۔ ان کی بڑی بیٹی ڈاکٹر پشپا ولبھ معروف شاعرہ ہیں۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ افسانہ نگار، دانشور و مترجم جس نے بہت شہرتیں سمیٹیں مگر اپنی ذات میں بیحد سادہ اورگوشہ نشین ہی رہے۔ ذرا بھر بھی ان میں ذات کا زعم نہ تھا۔ ایک کونے میں بیٹھ کر انھوں نے علم و ادب کی کئی شمعیں فروزاں کیں۔
ولی رام ولبھ 82 سال کی عمر میں 29 اکتوبر کو انتقال کرگئے۔ ان کی کمی گھر والوں کے ساتھ ان کے قارئین بھی محسوس کرتے رہے گے۔ دیا ہوا مثبت احساس اور بانٹیں ہوئیں محبتیں کبھی فنا نہیں ہوتیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سندھی زبان سندھی ادب انھوں نے کے تراجم کے ساتھ
پڑھیں:
وادی سندھ کی تحریریں سمجھنے پر ایک ملین ڈالر انعام کا اعلان، مگر ان کو سمجھنا مشکل کیوں؟
انڈیا کی ریاست تامل ناڈو کی حکومت نے وادی سندھ کا رسم الخط ڈی کوڈ کرنے والوں کے لیے 10 لاکھ ڈالرز کا اعلان کیا ہے۔
تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن نے یہ اعلان وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت کے صد سالہ جشن کے موقع پر کیا۔
وادی سندھ کی تہذیب 2500 قبل مسیح سے 1700 قبل مسیح کے درمیان پروان چڑھی اور پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہوئی۔ گزشتہ صدی کے شروع میں ہڑپہ اور موہنجوداڑو میں اس تہذیب کے آثار دریافت ہوئے تو آثار قدیمہ کے ماہرین کو کھدائی کے دوران دوسری اشیا کے ساتھ ساتھ لکھائی کے کئی نمونے بھی ملے۔ ان تحریروں کے حروف جانوروں کے نقشوں اور علامتوں پر مشتمل ہیں اور اس رسم الخط کو ’انڈس اسکرپٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
تاہم اس معدوم شدہ رسم الخط کو ایک سو سال کی کوششوں کے بعد بھی اب تک سمجھا نہیں جاسکا ہے۔
تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ کا خیال ہے کہ ان کی ریاست کی آبادی دراصل اسی وادی سندھ کے باشندے تھے جنہیں بعد میں وسطی ایشیا سے آریائی حملہ آوروں نے جنوبی ہندوستان کے علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔
یہ بھی پڑھیے:وادی سندھ کی تہذیب کے نشانات کہاں کہاں پائے گئے ہیں؟
دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی اپنی تاریخ آریائی حملہ آوروں سے جوڑتی ہے۔
تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ تامل زبان کو بھی وادی سندھ کی زبان کی جدید شکل قرار دیتے ہیں۔ اس رائے سے کئی دوسرے محققین بھی اتفاق کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ وادی سندھ کی زبان جنوبی ہندوستان کی موجودہ دراوڑی گروہ سے تعلق رکھنے والی زبانوں کے زیادہ قریب ہوسکتی ہے۔ لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وادی سندھ کی زبان کے بارے میں مزید معلومات درکار ہیں۔
تاہم ماہرین کو مختلف وجوہات کی بنا پر آج تک ان نامعلوم تحریروں کا مطلب سمجھنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ان کا کوئی باربط اور باقاعدہ معنی سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ایک وجہ ان اسکرپٹس کی کم تعداد کا ہے۔ آج تک اس رسم الخط کے صرف 4 ہزار نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ دوسرا اہم مسئلہ ان تحریروں کے اختصار کا بھی ہے۔ یہ تحریریں زیادہ تر 4 یا 5 علامتوں پر مبنی ہوتی ہیں اور کسی مہر، دیوار یا پتھر کی تختی پر درج ملی ہیں۔
ایک اور مشکل یہ بھی ہے کہ اب تک ماہرین کو وادی سندھ کی باقیات سے ایسی تحریر نہیں ملی ہے جو ’انڈس اسکرپٹ‘ کے ساتھ ساتھ کسی دوسری زبان پر بھی مشتمل ہو یا اس رسم الخط کے کسی نمونے کا دوسری زبان میں ترجمہ ہوا ہو۔ ایسی صورتحال میں اس دوسری زبان کے ذریعے ’انڈس اسکرپٹ‘ کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ملتی لیکن ایسی کوئی تحریر ابھی تک نہیں ملی ہے۔
تاہم وادی سندھ کے آثار کے ابھی تک ایک چھوٹے سے ہی حصہ کی کھدائی ہوئی ہے۔ آئندہ وقتوں میں مزید کھدائی سے ایسا نمونہ ملنے کا امکان موجود ہے کیوں کہ اس وقت اس تہذیب کی میسوپوٹیمیا (موجودہ ایراق)، چین اور فارس کی دوسری تہذیبوں سے تجارتی مراسم موجود تھے۔ وادی سندھ کے ظروف اور اوزار عمان سے بھی دریافت ہوئے ہیں۔ ایسے میں ایسی کسی تحریر کا ہونا بعید از قیاس نہیں جس میں دوسری معلوم زبان بھی شامل ہو۔
ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس بات کا تعین ابھی تک نہیں کیا جاسکا ہے کہ اس خطے میں بولی جانے والی زبانوں میں سے کون سی زبان ایسی ہے جو وادی سندھ کی معدوم زبان سے نکلی ہو۔ ایسی کسی زبان کا پتہ چلے تو اس کی مدد سے وادی سندھ کی تحریروں کا مطلب نکالا جاسکتا ہے۔ یونان، روم اور مصر کی تختیوں کو پڑھنا ممکن اس لیے ہوا کیوں کہ ان علاقوں کی قدیم اور جدید زبانوں میں تعلق کا ماہرین کو علم تھا۔
ان وجوہات کی بنا پر وادی سندھ کی یہ تحریریں آج بھی ماہرین کے لیے پہیلی بنی ہوئی ہیں اور انہیں سمجھنے کے لیے تامل ناڈو کے وزیراعلیٰ کو ایک ملین ڈالرز کے انعام کا اعلان کرنا پڑا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
dravidian history indus script indus valley civilization tamil nadu آریائی اسکرپٹ تاریخ تامل ناڈو دراوڑی رسم الخط زبانیں وادی سندھ کی تہذیب وزیراعلی