Express News:
2025-01-18@12:55:37 GMT

درپردہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

2009 میں ایک تحقیق کی گئی جو کیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کی تھی نظریہ بڑا دلچسپ تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ واقعی بری چیز ہے؟‘‘ محققین کے مطابق یہ آپ کے لیے اچھی ہو، ایسا ممکن ہے جب اس کا کوئی مقصد ہو یا جب گالی دیے بغیر نہ رہ سکتے ہوں تو اس کا دینا مغلظات کا بکنا ہی ٹھیک ہے۔

سائنس دانوں کے مطابق تکلیف کے وقت ہماری زبان سے بے اختیار نکلنے والے مغلظات دراصل ارتقائی عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق دماغ کے ایک حصے امیگڈلا کو تحریک دے کر ’’ مقابلہ کرو یا بھاگو‘‘ کو دباتی ہیں اور دماغی مادے ایڈرینالین کو بڑھاتی ہیں جو فطری طور پر درد سے نجات دلاتا ہے۔ایک اور مزے دار سطر پر غور فرمایے ’’ گالی دینا ہر شخص کی ضرورت ہے، سائنس نے ثابت کردیا۔‘‘

سائنسی جریدے لنگوا میں شایع ہونے والی تحقیق کا موضوع تھا۔ ’’ کیا گالم گلوچ ہر ثقافت میں ایک ہی طرح کا اثر رکھتی ہے؟‘‘ اس تحقیق کے مطابق ممنوعہ الفاظ کا استعمال ہمارے سوچنے، عمل کرنے اور تعلق پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر برن نے گالم گلوچ کے حوالے سے ایک اور تحقیقی نقطہ اجاگرکیا۔ ان کے مشاہدے کے مطابق اگر فالج کی وجہ سے کسی کے دماغ کا بایاں حصہ مفلوج ہو جائے اور وہ بولنے سے قاصر ہو جائے تب بھی وہ گالی دے سکتا ہے۔

نفسیات کے استاد ڈاکٹر رچرڈ سیٹو نے اس موضوع پر تحقیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ درد کی کیفیت میں گالی دینے سے کیسے آرام ملتا ہے؟‘‘

 گالی دینے سے آرام ملتا ہے یا نہیں لیکن ہمارے سوشل میڈیا نے اس عمل کو اس قدر مزین کر کے دکھایا ہے کہ لوگ بڑے مزے سے روانی میں بولے چلے جاتے ہیں، بڑی سے بڑی واہیات گالی انتہائی آرام سے بیچ محفل میں بلکہ مائیک پرکیمرے کے سامنے۔

جی، ہاں ! کیمرے کے سامنے وہ بھی خواتین اور جوان لڑکیوں اور لڑکوں کے بیچ۔ ایسا ہم نے پہلی بار ہی دیکھا تھا۔ پڑوسی ملک کے فنون لطیفہ کے کسی مقابلے کے پروگرام میں اینکر موصوف اپنے معزز مہمانان اور مقابلے کے شرکا کی گفتگو کو انجوائے کر رہے تھے اور معزز مہمان جن کی اس قدر بے ہودہ گالی سن کر تو ہوش ہی اڑ گئے، ان کے لیے معزز استعمال کرنا تو بنتا ہی نہیں، مسکراتے چہرے سے روانی سے بولتے چلے گئے اور میزبان جو خاصی مشہورکامیڈین ہیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر نام دار بھی معروف اینکر ہیں مہمان کی واہیات گالی پر ایسے ہی رہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

ان کے منہ سے تو پھول جھڑ رہے ہوں۔ یہی نہیں ہمارے اپنے نوجوان بھی جو یوٹیوب چینلزکھول کر بیٹھے ہیں، روانی سے بڑی بڑی گالیوں کو بکنا غالباً ٹرینڈ سمجھتے ہیں، ایک ایسا ٹرینڈ جو ہمارے مذہب اور ادب کے منافی ہے۔

 سائنس دانوں کا گالم گلوچ پر تحقیق کرنا تو ظاہر ہے کہ ریسرچ ضروری ہے، پر اس کے ایسے مثبت اثرات سمجھ سے باہر ہیں۔ سائنس نے کیا ثابت کیا اورکیا نہیں، یہ کیوں ضروری ہے کہ انسانی اخلاق کے منافی اطوارکو اچھے سنہرے لباس میں لپیٹ کر عوام الناس کو گمراہ کیا جائے،کیا یہ بھی کسی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے؟

 ہائی بلڈ پریشرکی علامات میں غصے کا بلند ہونا بھی ہے،کیا انسان کی حسیات منفی رجحان اور تاثرات کو الٹ لے رہے ہیں یا غلط سلط باتوں سے شیطانی حرکتوں کو آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر اسی زمرے میں ایک مثال ہے جو ایک نارمل انسان کوگالیاں بکنے گویا جذبات بھڑکانے اور دباؤ بڑھانے سے بھی پیدا ہو سکتا ہے، پھر سکون کے لیے لغویات کا استعمال تو جیسے منشیات کا استعمال کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔

ہمارے ہاں ایک رواج بن گیا ہے عام گفتگو اور بول چال میں بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے یا مزاج کے لیے گالی کا استعمال عام ہو رہا ہے، خاص کر ادھیڑ عمر کے اور نوجوان طبقہ اس میں شامل ہیں۔ آپ نے ایسے بھی لوگ دیکھے ہوں گے جو ہر نئی بات کی ابتدا ایک موٹی سی فحش گالی سے کر کے اپنا قد بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ لوگ گالم گلوچ والے لوگوں کو اگر برا سمجھتے ہیں تو ان کی بات پر توجہ بھی دیتے ہیں،گویا لغویات اپیل کرتی ہیں۔ یہ ایک عام رویہ ہے لیکن مذہبی اور اخلاقی طور پر اس رویے کی کوئی گنجائش نہیں۔

 عہد حاضر کی اس رکیک اخلاقی برائی سے کیا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے؟ سائنس دان اسے انسانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھیں یا ضرورت، لیکن حقیقت میں یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اسے اگر یوں کہہ لیا جائے کہ انسانی فطرت کو شیطانی معاشرے کی جانب دھکیلنے کا ایک ایسا گُر جو بظاہر پرسکون کرنے والا تو ہے پر درحقیقت انسانی جبلتوں کے منافی ہے، انسانی فطرت میں اس کی کہیں جگہ نہیں ہے، لیکن اب یہ کھل کر ٹی وی اسکرینز اور سوشل میڈیا پر چھا رہا ہے۔ جو انسانی دماغ کو ایک شیطانی معاشرے کا حصہ بنانے کی عادت کی جانب راغب کر رہا ہے۔

 اسلام میں بدگوئی اور طعنہ زنی کو بہت برا سمجھا گیا ہے۔ بدگوئی کا اہم پہلوگالی ہے۔ اسلام میں گالی دینے کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ کے مطابق ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، جلد اول، حدیث نمبر47)

اسلام میں ہر اس بات سے منع یا ناپسند فرمایا ہے جس کے کرنے سے مسلمان پریشان ہو، بیمار ہو، جو اس کے لیے اور معاشرے کے لیے برا ہو۔ لہٰذا یہ تو طے ہے کہ جن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گالی دینا ہر انسان کی ضرورت ہے بالکل غلط ہے کیونکہ انسان کے مزاج کو ٹھنڈا رکھنے، متوازن رکھنے اور بہتر طور پر عمل کرنے کے لیے وہ تمام امور جنھیں سائنسی تحقیق شور مچا مچا کر اچھا کہے یا دعوے کرے درست نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی معاشرے میں بگاڑ کی صورت میں ناموافق عوامل عود کر آتے ہیں۔

ہمارے ہاں معاشرے میں سیاسی تخت ہو یا گھریلو الجھنیں، عوامی مسائل ہوں یا کچھ اور جن پر حرام کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے وہ انسان کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ اس سے ہمیشہ مسائل ہی جنم لیتے ہیں۔

ہمارے مشرقی ماحول میں ابھی بھی گھروں میں اس طرح کی آبیاری سے گریز کیا جاتا ہے جہاں بد اخلاقی، بدگوئی اور لچر پن کو اولیت دی جائے یا درگزر نہیں کیا جاتا، پھر بھی آئے دن اخبارات و رسائل میں سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر بیانات اور بدگوئی کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں جو مسلمان معاشرے کے لیے دیمک ہے۔ ہم بدگوئی اورگالم گلوچ سے بچاؤ اور اپنے معاشرے کو خوب صورت بنانے کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں، اگر نہیں تو ایک بار رب العزت کے احکامات کو توجہ سے پڑھیں جو دنیائے عالم کے لیے ایک مکمل کتاب ہے جو ہمیں صحت مند رجحان کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا استعمال کے مطابق کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

 ’’چل جُھوٹے ۔۔‘‘

ہم سب جانتے ہیںکہ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لئے آخری حد تک کوششیں کر رہے ہیں ، بالخصوص خیبرپختونخوا میں، جو اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی علاقے سے خوارجیوں کے حملے اور ہمارے جوانوں کے شہید ہونے کی خبر آجاتی ہے۔ آرمی چیف ، ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے ملک میںسرمایہ کاری لانے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ا ور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جس علاقے میں دہشت گردی رہے گی اس علاقے میں سرمایہ کاری نہیں ہو سکے گی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہاں روزگار نہیں ہوگا اور جب روزگار نہیں ہو گا تو خوشحالی نہیں ہو گی۔ خیبرپختونخوا کا ایک مسئلہ اور ہے کہ وہاں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے جو نظریاتی گمراہی اور فکری مغالطے پیدا کرتی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ دشمن نے ہمارے اندر نقب لگانا شروع کر دی ہے۔ یہ انتہائی ضروری تھا کہ خیبرپختونخوا کے سیاسی رہنمائوں کو دہشتگردی کے فکری ، نظریاتی اور سیاسی مقابلے کے لئے آن بورڈ لیا جائے اوراسی لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان، پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے فیصل کریم کنڈی، مسلم لیگ نون کے پی کے صدر امیر مقام، اے این پی کے علی حیدر ہوتی اور ایمل ولی خان کے ساتھ ساتھ آفتاب شیرپائو سمیت دیگر بھی ہمیں ان تصویروں میں نظر آ رہے تھے جن سے جنرل عاصم منیر نے ملاقاتیں کیں۔

سچ پوچھیں تو مجھے پی ٹی آئی کے چئیرمین اور اس صوبے سے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر ان تصویروں میں نظر نہیں آئے تھے مگر بعد میں پتا چلا کہ علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہ بھی ان ملاقاتوں میں موجود تھے جوخالصتاً غیر سیاسی تھیں کیونکہ ان ملاقاتوں کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کے متحد ہوجائیں کیونکہ دہشت گرد جب بم دھماکے کرتے ہیں یا گولیوں کی بارش تو یہ نہیں دیکھتے کہ مرنے والے کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیںاور اسی طرح جب ہمارے افسر اور جوان سرحدوں پر خوارجیوں کا راستہ روکتے ہیں، اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے ہیں تو یہ نہیں پوچھتے کہ اے دہشت گردو تم مسلم لیگ نون والوں کو مارنے کے لئے آ رہے تو رک جائو اور اگر پی ٹی آئی والوں کو مارنے جا رہے تو چلے جائو بلکہ مجھے کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور جے یو آئی نے جو زخم کھائے ہیں وہ سب سے گہرے ہیں۔ یہ بہت ہی مقدس اورمحترم ملاقاتیں تھیں جن کا مقصد اپنے معصوم شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ تھا۔ ان کے ذریعے ہم نے اپنے بچوں کی جانیں بچانی تھیں اور اپنے نوجوانوں کا روزگار بھی کیونکہ اگر امن نہیں ہوگا تو کاروبار نہیں ہو گا اور کاروبار نہیں ہوگا تو روزگار نہیں ہوگا۔ ذرا غور کیجئے، حضرت ابراہیم علیہ سلام نے جس شہر کی بنیادیںاٹھائی تھیں اس کے لئے سب سے پہلے امن ہی کی دُعا کی تھی کہ بے شک امن ہر دوسری سہولت اور نعمت سے پہلے آتا ہے۔
مجھے افسوس ہوا کہ پی ٹی آئی ان مقدس اور محترم ملاقاتوں کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ ایک طرف ان کے سربراہ نو مئی کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ان کے سوشل میڈیا ٹرولز شہیدوں کا سرعا م مذاق اڑاتے ہیں اور دوسری طرف سے یہ فوج سے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر سیاسی مذاکرات کرنے کے اتنے شوقین ہیںکہ اگر ان کے خوابوں اور ان کی خواہشوں میں بھی کوئی ملاقات ہوجائے تو یہ اسے سچ سمجھتے ہیں، اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ جیسے واضح ہو چکا کہ ان ملاقاتوں کا مقصد سو فیصد سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی کی کوششیں تھا اور یہ فوج کے ذمہ داران کا اعلیٰ ظرف، حب الوطنی اور قومی سطح پراتحاد کی خواہش تھی کہ رکیک ترین حملوں کے باوجود پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے وہاں ان کے لوگوں کو بغیر کسی تعصب اور نفرت کے بلایا گیا تھا۔ بیرسٹر گوہر نے اس موقعے پر سیاسی گفتگو کرنے کی کوشش کی اور سیکورٹی ذرائع نے واضح کیا کہ انہیں جواب میں بتا دیا گیا کہ وہ سیاسی گفتگو، سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جا کر کریں۔ یہ بات پاک فوج کے ترجمان بھی بارہا واضح کر چکے ہیں کہ فوج کسی قسم کے سیاسی مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی کہ سیاست ، سیاستدانوں کا کام ہے۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ جب انہیں سیاسی گفتگو کرنے پر شٹ اپ کال بھی مل گئی اس کے بعد بھی انہوں نے تین، چار روز گزرنے کے بعد اس ملاقات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور اس پر جیل میں بند پارٹی کے بانی کو بھی گمراہ کیا۔ شائد ان کے لئے آرمی چیف سے ملاقات اتنی بڑی کامیابی تھی کہ وہ پھولے نہیں سمائے اور عمران خان سے بھی اس پر ایک بیان جاری کروا لیا۔ یہ دراصل ایک بیانیہ بنانے کی کوشش تھی کہ ان کے فوج کے ساتھ رابطے بحال ہوگئے ہیں اورجو مذاکرات وہ کرنے جا رہے ہیں وہ بھی فوج کی آشیرباد سے ہو رہے ہیں۔ دلچسپ معاملہ تو اس وقت ہوا کہ ابھی یہ سب اس ملاقات کی خوشی میں سوشل میڈیا پر گھنگھرو باندھ کے ناچنے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ سیکورٹی ذرائع سے حقیقت سامنے آ گئی اور وہ گھنگھرو ناچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کے بکھر گئے۔

پی ٹی آئی والوں سے کہنا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اسٹیبلشمنٹ کو بے وقوف بناتے رہے اوراس کے ذریعے انہوں نے بزداروںاور محمود خانوں تک کو مسلط کئے رکھا مگر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا ہے۔ اب بات کارکردگی پر ہوگی، عوام کی خوشحالی پر ہو گی ، وطن کی مضبوطی پر ہو گی۔ میرے خیال میں فوج کو اس وقت ان سے براہ راست یا بالواسطہ کسی قسم کی بات نہیںکرنی چاہئے جب تک یہ لوگ پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ نو مئی کے حملوں پر باقاعدہ معافی نہ مانگ لیں اور اس امر کی انڈرٹیکنگ نہ دیںکہ آئندہ ایسی حرکتوں سے گریز کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے اب سیاسی لوگوں سے مذاکرات شروع کئے ہیں تو انہیں لگ پتا جائے گا کہ سیاست کس بھائو بکتی ہے۔ اس سے پہلے ان کی تمام تر کامیابیاں اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے ہی رہی ہیں چاہے وہ دو ہزار گیارہ کا جلسہ ہو، دو ہزار چودہ کے دھرنے ہوں یا دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات۔ جب سے انہیں اپنی فہم وفراست کے ساتھ سیاست کرنی پڑی ہے تب سے ان کا حال پتلا ہے، ناکامی پر ناکامی ہو رہی ہے۔ مجھے ان پر واضح کرنا ہے کہ فوج مکمل طور پر غیر سیاسی ہے اور اپنے آئینی کردار تک محدود ہے۔ جو بات شیخ رشید کو سمجھ آ گئی ہے وہ بانی پی ٹی آئی اور ان کے حواریوںکو بھی آجانی چاہئے۔ بیرسٹر گوہر نے سوچا تھا کہ وہ ماضی کی طرح اپنے فالوورز کو بے وقوف بنائے رکھنے میںکامیاب ہوجائیں گے مگر ان کے جھوٹ کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی، مخے ہم نے آرمی چیف کے سامنے معاملات رکھے اوران کی طرف سے مثبت جواب ملا، چل جھوٹے ۔۔!

متعلقہ مضامین

  • چین اور ویتنام دوستانہ پڑوسی اور اسٹریٹجک ہم نصیب معاشرہ ہے، چینی صدر
  • پاکستان کی قدر کرو
  • اب پروٹوکول کون دے گا
  • خلائی سولر اسٹیشن!
  • صیہونیت کی الف ب ت (قسط اول)
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا
  •  ’’چل جُھوٹے ۔۔‘‘
  • معاشرے کے بدنما داغ
  • خدا خیر کرے
  • سانگھڑ، اساتذہ معاشرے کا انتہائی محترم و معزز طبقہ ہے، گسٹا