Express News:
2025-01-18@12:54:58 GMT

چند اہم نظریات اور ان کا مفہوم

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

نظریہ کے لفظی معنی ’’ نظر سے دیکھنے‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح میں اس کا مفہوم مستحکم سوچ انداز فکر اور تصور حیات کے معنی میں لیے جاتے ہیں۔ نظریات چاہے مذہبی ہوں یا سیاسی ان کا انسانی تہذیب کی تشکیل میں اہم کردار رہا ہے۔ نظریات کی تبدیلی نہ صرف انداز فکر کو بدل دیتی ہے بلکہ انسان کا طرز عمل بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس لیے نظریات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا مطالعہ بالخصوص فلسفہ کے طلبا کے لیے بہت ضروری ہے۔

آئیے! اس کالم میں چند اہم نظریات کے مفہوم کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

تصورات: اس نظریہ کی رو سے کائنات اور اس کی اشیا کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ حقیقت کا عکس ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی مکان بناتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے مکان کا تصور آتا ہے جب مکان بنتا ہے تو مکان درحقیقت تصورات کا عکس ہے۔ اس نظریہ میں روح اور خیال اور سطور کو اولین حیثیت حاصل ہے۔

مادیت: یہ نظریہ ’’ نظریہ تصور‘‘ کی نفی کرتا ہے، اس کے نزدیک کائنات میں سوائے مادے کے دنیا میں کسی چیزکا وجود نہیں، ہم تصورات کو بھی اس وقت سمجھتے سکتے ہیں جب ہم مادے کی حیثیت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس نظریہ میں مادیت کو اولین حیثیت حاصل ہے۔

ثانویت: اس نظریہ کی رو سے کائنات میں مادہ اور روح دونوں کارفرما ہیں، دونوں کے باہم ملاپ سے نظام کائنات میں ایک خاص ترتیب عطا ہوئی ہے یہ نظریہ Dualism کہلاتا ہے۔

فطرت پرستی: یہ نظریہ رکھنا کہ اشیا پیدا ہوتی ہیں، ارتقا سے گزرتی ہیں اور فنا ہو جاتی ہیں یہ علت اور معلول cause & effect کے تحت بغیر کسی کی مداخلت کے طے شدہ قوانین کے تحت ہو رہا ہے۔ اس نظریہ کو فطرت پرستی کا نام دیا جاتا ہے۔

وجودیت: وجود کے معنی عام طور پر جسم کے سمجھے جاتے ہیں، یہاں اس کے معنی فرد کے ہیں، اس نظریہ میں اجتماعی زندگی کے مقابلے میں فرد کی انفرادی زندگی کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یعنی اس نظریے میں روح، جوہر یا نفس کو نہیں بلکہ وجود کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔جدلیاتی مادیت: اس نظریہ کی رو سے تمام سیاسی اور تاریخی واقعات سماجی قوتوں کے تصادم کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور یہ سب معاشی عوامل کے تحت وجود میں آتے ہیں۔

مثالیت پسندی: زندگی جس طرح ہے اسے اس طرح پیش کرنے کے بجائے اس طرح پیش کرنا جیسے کہ اسے ہونا چاہیے یہ نظریہ اصطلاح میں مثالیت پسندی کہلاتا ہے انگریزی میں اسے آئیڈیل ازم کہتے ہیں۔

حقیقت پسندی: دنیا تضاد، مفادات اور تنازعات پر مبنی ہے، اس لیے اس پر اخلاقی اصولوں کو کلی طور پر نافذ نہیں کیا جاسکتا اس لیے حقیقت پسندی کا نظریہ زندگی جیسی ہے، اسے ایسا ہی پیش کرتا ہے۔ اسے انگریزی میں Realism کہتے ہیں۔

قدامت پسندی: یہ نظریہ روایتی رسوم و رواج کو برقرار رکھنے اور ان کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

بنیاد پرستی: کسی بھی بنیاد پر یا اصل پر قائم رہنا یا اس کی کوشش کرنا بنیاد پرستی کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح کسی بھی مذہب کے اندر اس رویہ کے طور پر بیان کی جاسکتی ہے جس کے تحت مذہب کے پیروکار مذہب کے بنیادی اصولوں پر سختی کے ساتھ کاربند ہونا چاہتے ہوں۔

جدیدیت: یہ ایک شعوری میلان ہے یہ اپنے عصر حاضر کے تقاضوں سے باخبر ہو کر جدید اور ناگزیر علوم اور اشیا کو قبول کرنے کا نام ہے۔ یہ نظریہ روایتی سوچ کو جدید نظریات میں تبدیل کرنے پر زور دیتا ہے۔

آمریت: جب کوئی آمر طاقت کے زور پر قوانین کو نظرانداز کرکے اقتدار پر قبضہ کرکے حکومت کرتا ہے، اسی طرز حکومت کو آمریت کا نام دیا جاتا ہے۔ حکومت کی وہ قسم جس میں ایک مخصوص طبقہ کے چند افراد کو بعض امتیازی خصوصیت کے سبب حکومت کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے ٹیکنوکریٹ حکومت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر اشرافیہ کا تعلق مذہبی طبقے سے ہو تو ایسی حکومت کو تھیوروکریسی کہتے ہیں۔

سیکولرازم: جب ریاست مذہب کی براہ راست مداخلت قبول نہیں کرتی اور اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ریاست کو فرد کے ذاتی معاملات جو دوسروں کے لیے نقصان دہ نہیں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ایسی ریاست کو سیکولر ریاست کہا جاتا ہے۔ بعض افراد اسے لادینی ریاست کا نام دیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ یہ ایک انسان دوست نظریہ ہے جو ریاست کے تمام مذاہب کو مساوی حیثیت دیتا ہے۔

انارکسزم: کسی خطے میں زمین پر کوئی قانون نہ ہو قانونی ادارے نہ ہوں تو اسے انارکی کا نام دیا جاتا ہے۔ سیاسی اصطلاح میں کسی ریاست میں بغیر حکمرانی کے معاشرتی نظریہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

فاشزم: انتہا پسندانہ نظریات کے نفاذ اور نسلی برتری کے حصول کے لیے جبر و تشدد کا استعمال کرنا فاشزم کہلاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سخت گیر نظام ہے جس میں کسی فرد کو اختلاف کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اسے اردو میں فسطائیت کا نام دیا جاتا ہے۔

لبرل ازم: یہ فرد کی انفرادی اور فطری آزادی کا نظریہ ہے جو ریاست کے ہر فرد کو اس کے انسانی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ اس نظریے میں ریاست مذہب کے معاملے میں ایک حد تک لچک اپناتی ہے اور میانہ روی کا رویہ اختیار کرتی ہے اسے اردو میں آزاد خیالی نظریہ کا نام دیا جاتا ہے۔

جمہوریت: ایسا نظریہ جس کے تحت ہر شخص کو حکومتی معاملات میں شرکت کا حق حاصل ہوتا ہے۔

سرمایہ داری: یہ معاشی نظریہ ہے جو منافع کے لیے وسائل اور پیداوار پر نجی شعبے کے کنٹرول کی بنیاد پر قائم ہے اسے فری اکانومی مارکیٹ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

کمیونزم: یہ بھی معاشی نظریہ ہے جس کے تحت املاک اور معاشی وسائل انفرادی شہری کے بجائے ریاست کی ملکیت اور کنٹرول میں ہوتے ہیں اسے اردو میں اشتمالیت کا نام دیا جاتا ہے۔

سوشلزم: اس نظریہ نظام کے تحت عام شہری بھی معاشی وسائل افراد کے بجائے حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں اس نظام کو اشتراکیت کا نام دیا جاتا ہے۔

رومانیت: اس نظریہ کے تحت فن میں جذبات اور محسوسات کو اولین حیثیت حاصل ہے اس نظریہ کے ماننے والے تخیل کو منطق پر ترجیح دیتے ہیں۔

علم کلام: یہ بھی ایک نظریہ ہے۔ اس نظریہ کے تحت پہلے کوئی عقیدہ یا نتیجہ بنا لیا جاتا ہے پھر اس کی صداقت کے حق میں دلائل تلاش یا تیار کیے جاتے ہیں۔ اسے علم کلام کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ نظری تضادات کے حل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بنیاد پر نظریہ ہے نظریہ کے یہ نظریہ اس نظریہ مذہب کے حاصل ہے کرتا ہے کے لیے کے تحت

پڑھیں:

آزاد کشمیر کے آئین میں کوئی بھی قانون قرآن و سُنہ کے منافی نہیں ہو گا، صدر ریاست

بیرسٹر سلطان نے کہا کہ یہ حقیقت لائق فخر و تحسین ہے کہ آزاد کشمیر میں قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المسالک اور حقیقی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی نظریاتی کونسل آزاد جموں و کشمیر کا خصوصی اجلاس چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی زیر صدارت ایوان صدر مظفرآباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے مہمان خصوصی صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری تھے۔ اجلاس میں ممبران اسلامی نظریاتی کونسل مفتی کفایت حسین نقوی، مولانا صاحبزادہ پیر محمد حبیب الرحمان محبوبی، مولانا سعید یوسف، مولانا مفتی محمد حسین چشتی، مولانا محمد الطاف حسین سیفی، مولانا مفتی محمد عارف، مولانا قاری محمد اعظم عارف، سیکرٹری صدارتی اُمور ڈاکٹر محمد ادریس عباسی، سیکرٹری مذہبی امور و اوقاف سردار محمد ظفرخان، سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل حافظ رحمت اللہ تصور و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ آزاد کشمیر کے آئین میں کوئی بھی قانون قرآن و سُنہ کے منافی نہیں ہو گا۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک انتہائی اہم آئینی ادارہ ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل محدود وسائل کے باوجود اپنے آئینی فرائض بہترین انداز میں انجام دے کر قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے، معاشرہ میں اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے نہ صرف حکومت اور اسمبلی کی درست شرعی راہنمائی کر رہی ہے بلکہ آزاد خطہ میں فرقہ واریت سے پاک بین المسالک مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ جس کا سہرا چیئرمین و اراکین کونسل کے سر ہے جو اُن کی تحقیق، قانونی دانش اور بصیرت کی عکاس ہے۔

صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل 1978ء سے لیکر 1997ء تک ایک آرڈیننس کے تحت کام کرتی رہی میں نے بطور وزیراعظم 1997ء میں کونسل کا ایکٹ اسمبلی سے منظور کروایا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں بلکہ یہ حقیقت لائق فخر و تحسین ہے کہ آزاد کشمیر میں قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المسالک اور حقیقی اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین 1974ء میں تیرہویں ترمیم کے ذریعہ اسلامی نظریاتی کونسل کو وہی آئینی حیثیت حاصل ہو چکی ہے جو اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی ہے۔ آئین کی رُوح اور منشاء کے مطابق ریاست کے تمام اداروں کی بالعموم اور اسلامی نظریاتی کونسل کی بالخصوص یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات تجویز کریں جو مسلمان باشندگان ریاست کو انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے میں معاون ثابت ہوں، آزاد کشمیر میں کوئی بھی قانون قرآن و سُنہ کے منافی نہیں ہو گا۔

صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ دور حاضر میں امت مسلمہ کے اندر باہمی انتشار، اتحاد و اتفاق کی کمی اور مسالک کی بنیاد پر باہمی نفرت کا مرض ایک سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ ایسے میں تمام مسالک کے علماء کو ایک مرکز پر جمع کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس پہلو پر بھی پہلے سے زیادہ اپنا مثبت کردار ادا کرے گی یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہاں آزاد کشمیر میں کسی قسم کا لسانی یا مذہبی فرقہ واریت نہیں ہے اور علماء میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تنظیم نو، دفتری مکانیت، اعزازیہ کی فراہمی سمیت جملہ مسائل یکسو کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کروں گا۔

چیف جسٹس آزادجموں و کشمیر و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں بطور چیئرمین اپنی اور اراکین کونسل کی جانب سے اسلامی نظریاتی کونسل کے آج کے خصوصی اجلاس میں صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی شرکت پر ان کا مشکور ہوں کہ انہوں نے کونسل کی دیرینہ روایت اور خواہش کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی دیگر قیمتی مصروفیات کے باوجود کونسل کے اِس خصوصی اجلاس میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو ہماری اساس ہے۔ عبوری آئین ایکٹ 1974ء کے تحت اسلام کو ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے جہاں کوئی بھی قانون سازی اسلامی تعلیمات کے مغائر نہیں کی جا سکتی اور تمام نافذ العمل قوانین کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے سال 1978ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ حکومت اس کی مشاورت اور سفارشات کی روشنی میں نہ صرف قانون سازی اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرے بلکہ ریاست کے باشندگان کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنے اور اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے بھی عملی اقدامات کرے گی۔

چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر و چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جسٹس راجہ سعید اکرم نے کہا کہ موجودہ کونسل بھی مستند صاحب الرائے شخصیات پر مشتمل ہے۔ جن کی بدولت نہ صرف کونسل اپنا کام مؤثر انداز میں کر رہی ہے بلکہ اس فورم سے آزاد کشمیر میں بین المسالک ہم آہنگی بھی مثالی ہے۔ اس موقع پر علماء کرام نے اسلامی نظریاتی کونسل کے لیے دفتری مکانیت سمیت دیگر مطلوبہ وسائل فراہم کرنے اور پیش کردہ تجاویز پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس امر کا اعادہ کیا کہ آزاد کشمیر میں مذہبی و مسلکی رواداری اور ایک دوسرے کے نظریات کو برداشت کرنے میں وہ اپنا موثر کردار ادا کریں گے۔ اس موقع پر کشمیر کی آزادی، ملک کی سلامتی اور صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی صحت کے لیے خصوصی دعا بھی کی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • معاشی کامیابیاں اور کچھ رکاوٹیں
  • عمران خان نے ریاست کو بہت نقصان پہنچایا‘ ایم کیوایم
  • اسرائیل کی ناجائز ریاست کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا، منعم ظفر
  • پاراچنار کا لہو پکار رہا ہے، ریاست کی بے حسی اور شیعیانِ پاکستان کی ذمہ داری
  • جیل میں ایک وقت کا کھانا دیا جاتا تھا، اچھی بات ہے میرا وزن کم ہوگیا، مریم نواز
  • عمران خان ایک نظریہ اور تحریک، وہ جیل میں بیٹھا ہوا بھی آپ پر بھاری ہے، فیصل چوہدری
  • آزاد کشمیر کے آئین میں کوئی بھی قانون قرآن و سُنہ کے منافی نہیں ہو گا، صدر ریاست
  • بی جے پی حکومت برقرار رکھنے کیلیے مسلم دشمنی کے ہتھکنڈے استعما ل کرتی ہے
  • کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
  • ریاست اور عوام کے جاننے کا حق