Express News:
2025-04-18@16:09:44 GMT

احساسِ جدائی کا شاعر، اعزاز احمد آذر

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

کہتے ہیں شخصیت کو فن سے اور فن کو شخصیت سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ شخصیت کا پندار فن میں جھلکتا ہے اور فن کا پندار شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اعزاز احمد آذرکی شخصیت اس کے فن کی اور اس کی شخصیت کا مظہر ہے۔

محبت، مروت، اخلاص اور درد مندی سے پیش آنا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ وہ ایک منفرد شاعر، بے مثل ادیب، وراسٹائل کمپیئر، میزبان، محقق و ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر تھے۔ آذر صاحب 25 دسمبر1942 کو بھارت کے شہر بٹالہ میں پیدا ہوئے۔

پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے (اُردو)، ایم اے (پنجابی) اور ایم اے (سیاسیات) کے علاوہ ایجوکیشن اور قانون کی ڈگریاں حاصل کیں۔انھوں نے جب اپنے کیریئرکا آغاز ایک اسکول ٹیچر سے کیا تو بعد میں انھوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر شعبہ وکالت سے منسلک ہوگئے۔ مگر کچھ ماہ کے بعد وہ شعبہ وکالت کو بھی چھوڑنے پر مجبور اس لیے ہوئے کہ طاقتور کے مقابلے میں کمزور طبقے کے لوگوں کے ضمیروں سے کھیلنا کہاں کا انصاف ہے۔

اس کے بعد وہ غالبا1964 میں پاکستان ٹیلی وژن میں بطور اینکر شامل ہونے لگے اور بے شمار دستاویزی فلمیں لکھنے کے علاوہ ڈرامہ سیریز لکھنے لگے۔ ان کے یادگار پروگراموں میں ’’ شب خون‘‘ شامل ہے جسے ضیا اللہ حق کے دور میں جمہوری تختہ اُلٹانے پرگیارہ سال حکومت کرنے کے دوران ترتیب دیا گیا۔1974  میں وزارت اطلاعات و نشریات کے محکمے پاکستان نیشنل سینٹر میں بطور ریذیڈنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز رہے۔

بعدازاں بحیثیت ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اسی محکمے سے وابستہ رہے۔ پاکستان نیشنل سینٹر سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے 2010  میں پاکستان ٹیلی وژن لاہور سینٹر سے نشر ہونے والے پروگرام ’’ کتاب‘‘ کے بطور میزبان کتاب دوستی کے کلچر کو پروان چڑھانے کے لیے کتابوں پر تبصرہ کی صورت میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے، جب کہ ’’ سوچ وچار‘‘ پی ٹی وی کا ایک ایسا مقبول پروگرام تھا جو پنجابی زبان پر مبنی پنجاب کی ادب و ثقافت اور معاشرے کے دیگر ایشوز پر مبنی تھا۔

اس پروگرام کے میزبان بھی اعزاز احمد آذر اور ڈاکٹر محمود قریشی ہوا کرتے تھے۔ ان دونوں پروگرامز کے پروڈیوسر آذر صاحب کے چھوٹے بھائی افتخار مجاز ہوا کرتے تھے۔

آذر صاحب فنونِ لطیفہ کی مستند اور محدود اصناف سے بھی کہیں بڑھ کر فن کی دنیا کے غواض اور شناور تھے۔ 1988میں شایع ہونے والے ان کے شعری مجموعہ کا نام ’’دھیان کی سیڑھیاں‘‘ ہے۔

اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر اے بی اشرف نے لکھا جو اُس وقت بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سربراہ شعبہ اُردو سے منسلک تھے، وہ اپنے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ’’ آذر ہمارے معاشرے کے منافقانہ رویوں اور سماجی رابطوں کا چشم دید گواہ ہے اور اس نے اپنی غزل میں ان کی گواہی دی ہے، اس کی گواہی معتبر ہے کہ وہ باشعور فنکار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہاں کوئی کسی کا دکھ نہیں بانٹتا۔ کوئی کسی کا درد محسوس نہیں کرتا یا دوسروں کے لیے اپنی آنکھ نم نہیں کرتا۔

اس لیے اس کی غزل میں فراق کا درد بھی ہے اور ملن کی چاہت بھی۔ یہ دونوں گھمبیر جذبے مل کر آذر کی غزل کی غنائیت اور اس کے لہجے کو مٹھاس عطا کرتے ہیں۔‘‘

آذر صاحب کے اسی شعری مجموعہ ’’دھیان کی سیڑھیاں‘‘ کے فلایپ کے طور پر عرش صدیقی رقم دراز ہے کہ ’’ اعزاز احمد آذر وسیع تر معنوں میں محبت کا شاعر ہے، اسی لیے اس کا لہجہ، اس کا اسلوب، اس کا تکلم اپنے اندر بے پناہ معنوی اور جمالیاتی کشش رکھتا ہے۔‘‘

یہ بات حقیقی معنوں میں سو فیصد درست ہے کہ آذر صاحب محبت کا شاعر ہے اور میرے خیال میں دنیا میں ایسا کوئی شاعر نہیں جو محبت کے بنا مکمل ہو۔ بلکہ میں انھیں محبت کا شاعر نہیں بقول جان کاشمیری کہ ’’گویا اعزاز احمد آذر یہاں فکری سطح پر احساسِ جدائی کو محسوس کر کے تخلیقی سطح پر اس کا اظہار کر رہا ہے نتیجتاً میرے اس خیال کو مزید تقویت پہنچتی ہے کہ اعزاز احمد آذر جدائی سے زیادہ احساسِ جدائی کا شاعر ہے۔‘‘ اس لیے وہ خود سے بے نیاز ہو کر دوسروں کو سوچنے کا یوں مشورہ بھی دیتے ہیں۔

کیا گزرتی ہے بھری دنیا میں تنہا شخص پر

ایک لمحے کے لیے خود سے بچھڑ کر سوچنا

آذر صاحب کی غزل جدید ہونے کے باوجود روایت سے مربوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے ہاں ایسے اشعار کثرت سے پڑھنے کو ملتے ہیں جو جدید تر لبوں لہجے کے اعتبار سے حقیقی حقائق کے ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر حقیقت کا روپ دھارے موجودہ دورکی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں۔

چھوڑ بھی دے ضد آذرؔ مرحلے کٹھن ہیں یہ

اُس طرف زمانہ ہے تو اِدھر اکیلا ہے

آذرؔ یہ شہر اُجڑے ہوئے عمر ہو گئی

چھوڑو کہ دل نہ بستا دکھائی بھی دے کبھی

…٭…

وہ جس نے مجھ کو دیا ظلمتوں کا اندھا سفر

سنا ہے چاند بھی اس کے ہی گھر میں اُترا تھا

اُردو کے علاوہ پنجابی میں بھی انھوں نے خوب شاعری کی۔ ان کی تصانیف میں دھیان کی سیڑھیاں (نظمیں، غزلیں)، محبت شعلہ تھی (نظمیں اور گیت)، تتلی، پھول اور چاند (بچوں کے لیے نظمیں اور گیت)، دھوپ کا گلابی رنگ ،’’ نمایندہ غزلیں (انتخاب)‘‘ و دیگر شامل ہیں، مگر ان کی سب سے زیادہ مقبول ہونے والی نظم ’’ شہید دی بھین‘‘ بہت مقبول ہوئی ۔

اس کے علاوہ اُردو کی ایک اور نظم ’’ فرض کرو‘‘ جو ان کی مقبولیت کی پہچان بن گئی۔آذر صاحب کی شاعری میں کیف و مستی، موسیقیت، رنگینی اور احساس کی کیفیت پائی جاتی ہے،کیونکہ وہ لفظوں کو موتی لوحِ قلم سے صفحہ قرطاس پر سجانے والے ایک محبت پرورآدمی تھے۔

ان کی وفات 15 مئی 2015  کو ہوئی ۔ ان کے بارے میں بڑے وثوق سے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی کم پیش پانچ دھائیاں کار زارِ ادب میں کامیابی سے گزاریں۔ ان کی چھٹی برسی کے موقعے پر دل آج بھی غم زدہ اور آنکھیں نم دیدہ ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت انھیں اپنے حضور اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم جیسے ہنر مندوں کو مزید زورِ قلم عطا فرمائے تاکہ ہم آذر صاحب جیسے ادبی ستاروں کی یاد میں اپنی یادوں کی خوشبو سے آنے والی فضاؤں کو معطر رکھ سکیں،آخر میں ان کا ہی ایک شعر کہتا ہوا اجازت چاہوں گا۔

موت برحق ہے مگر مرنے کا بھی انداز ہے

موت جس پر لوگ مر جائیں، بڑا اعزاز ہے

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شخصیت کا انھوں نے کا شاعر ہے کہ ا ہے اور کے لیے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا حکومت کا احساس گھر پروگرام، قرضہ کے حصول کی شرائط کیا ہیں؟

خیبر پختونخوا حکومت نے پی ٹی آئی فلیگ شب پروگرام احساس کی احساس اپنا گھر اسکیم کے تحت بلا سود قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع کر دیا ہے جس کے لیے کم آمدنی والے افراد بینک آف خیبر میں 8 مئی تک درخواست دے سکتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بینک آف خیبر کے ذریعے یہ قرضے فراہم کرے گی، جو ان افراد کے لیے ہے جو کم آمدنی کے باعث اپنے مکان تعمیر نہیں کرسکتے، حکومتی اعلامیے کے مطابق اسکیم کے تحت 15 لاکھ روپے تک بلا سود قرضے جاری کیے جائیں گے۔

اسکیم کم آمدن والوں کے لیے، لیکن کم از کم تنخواہ کتنی ہونی چاہیے؟

صوبائی حکومت کے مطابق یہ اسکیم کم آمدنی والے تنخواہ دار یا دیگر افراد کے لیے ہے، جو اپنی آمدن سے گھر بنانے سے قاصر ہیں، حکومت نے قرضے کی حد، ادائیگی، عمر سمیت دیگر شرائط بھی رکھی ہیں۔

قرض کے مستحق ہونے کی شرائط کے مطابق قرضے کے خواہشمند درخواست گزار کی ماہانہ آمدن یا تنخواہ کم از کم ایک لاکھ روپے ہونی چاہیے جبکہ اس کی عمر 18 سے 55 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ سب سے بڑھ کر درخواست گزار کا صوبے کا رہائشی ہونا بھی لازمی شرط ہے۔

4 ارب روپے قرضے کی مد میں مختص، واپسی کتنے سال میں؟

صوبائی حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق حکومت نے احساس گھر اسکیم کے لیے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں، جو قرضے کی واپسی کے ساتھ درخواست گزاروں میں دوبارہ بطور قرض فراہم کیے جائیں گے۔

بینک آف خیبر کے مطابق قرضہ حاصل کرنیوالے شہری آسان اقساط میں 7 سال کے عرصہ میں اپنا قرضہ واپس کرسکیں گے، جس میں ماہانہ ادائیگی  کی قسط 18 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔

درخواست گزار کے نام پر 5 مرلہ یا اس سے کم سائز کا پلاٹ ہونا لازمی ہے،  جس پر قرض کے پیسوں سے تعمیرات شروع کی جاسکے، حکومتی اعلامیے کے مطابق درخواست دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

دوسری جانب احساس اپنا گھر اسکیم کی شرائط پر تنخواہ دار طبقے نے سوالات اٹھا دیے ہیں، ان کا موقف ہے کہ کم از کم ایک لاکھ روپے تنخواہ کی شرط کی وجہ سے اصل حق دار محروم رہیں گے۔

ایک نجی ادارے سے وابستہ فیض احمد کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے کم ہے، ان کے مطابق اصل حقدار وہ اور ان جیسے دیگر لوگ ہیں جو نجی اداروں میں کام کرتے ہیں اور کم تنخواہ سے اپنا ذاتی مکان نہیں بنا سکتے۔

’میری ماہانہ آمدن ایک لاکھ روپے سے کم ہے تاہم بینک کی ماہانہ قسط آسانی سے ادا کرسکتا ہوں، لیکن کم از کم آمدن کی شرط کی وجہ سے قرض کی درخواست بھیجنے سے ہی قاصر ہوں۔‘

مزید پڑھیں:

علی نثار سرکاری ملازم ہیں، ان کے مطابق ان کی تنخواہ 80 ہزار روپے ہے۔ ‘جب ایک سرکاری ملازم کی تنخواہ ایک لاکھ نہیں تو پرائیوٹ ملازمین کی تنخواہ کنتی ہو گی۔‘

ان کے مطابق اگر احساس اپنا گھر اسکیم واقعی کم آمدنی والے طبقے کے لیے ہے تو کم از کم آمدن کی شرط ختم ہونا چاہیے تاکہ 50 ہزار روپے ماہانہ آمدنی والے شہری بھی درخواست دے سکیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احساس اپنا گھر اسکیم بینک آف خیبر پاکستان تحریک انصاف صوبائی حکومت کم آمدنی ماہانہ آمدنی

متعلقہ مضامین

  •   ہر دل عزیز سیاسی شخصیت کی ٹارگٹ کِلنگ
  • شوبز کی چمک میں بھی بیوی سے سچی محبت ،شجاع اسد کی انوکھی لو اسٹوری
  • پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی پر لاہور قلندرز کو بڑا اعزاز حاصل
  • خیبر پختونخوا حکومت کا احساس گھر پروگرام، قرضہ کے حصول کی شرائط کیا ہیں؟
  • وطن کی محبت میں بندھی اوورسیز کی آواز!
  • احساس پروگرام کے پی کا اہم منصوبہ‘ تاخیر قبول نہیں: گنڈا پور 
  • اْمتِ خیرِ البشر !کیا تمہیں احساس نہیں؟
  •   پاکستانی جج کے لئے کے لئے امریکہ کی یونی ورسٹی کا اعلیٰ اعزاز
  • میچ فکسنگ کے خدشات،الرٹ جاری کردیاگیا
  • مولانا فضل الرحمان افغانستان کی محبت میں اندھے ہو کر پاکستان کو کوسنے دینے لگے