غزہ میں گزشتہ 48 گھنٹوں میں 32 افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جنوری 2025ء) غزہکی وزارت صحت نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 109,571 افراد زخمی ہو چکے ہیں، جو فلسطینی گروپ کے سات اکتوبر، 2023 کے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد ریکارڈ سے 40 فیصد زیادہ، لینسیٹ
غزہ امن مذاکرات میں کچھ پیشرفت ہوئی مگر ڈیل ابھی نہیں، ذرائع
غزہ کی وزارت صحت نے ہفتے کے روز ہلاکتوں کی تعداد میں 499 اموات کا اضافہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے ان فائلوں کی شناخت کی تصدیق کی ہے جن کی معلومات نامکمل تھیں۔
وزارت کے اعداد و شمار جمع کرنے کے محکمے کے ایک ذریعے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ تمام 499 اضافی اموات گزشتہ کئی ماہ کے دوران ہوئی تھیں۔
(جاری ہے)
برطانوی طبی جریدے دی لانسیٹ میں جمعے کے روز شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ کے پہلے نو ماہ کے دوران غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد وزارت صحت کے ریکارڈ سے تقریبا 40 فیصد زیادہ تھی۔
اقوام متحدہ غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کو قابل اعتماد قرار دیتی ہے۔ اسرائیل کے یمن میں نئے حملےاسرائیل نے میزائل اور ڈرون حملوں کے جواب میں جمعے کے روز یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جن میں ایک پاور اسٹیشن اور ساحلی بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری ایک بیان میں، ''تھوڑی دیر پہلے۔
۔۔ اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے مغربی ساحل اور اندرون ملک یمن میں حوثی دہشت گرد حکومت کے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔‘‘بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حملے حوثی میزائلوں اور ڈرون حملوں کے جواب میں کیے گئے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان اہداف میں ''ہزاز پاور اسٹیشن میں فوجی انفراسٹرکچر شامل ہیں، جو حوثیوں کے لیے توانائی کا مرکزی ذریعہ ہے۔
‘‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے حدیدہ اور راس عیسیٰ کی بندرگاہوں پر فوجی ڈھانچے کو بھی نشانہ بنایا۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حملوں کے بعد ایک بیان میں کہا کہ حوثیوں کو ان کے ملک پر بار بار حملوں کی سزا دی جا رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''جیسا کہ ہم نے وعدہ کیا تھا، حوثی اپنے کیے کی قیمت ادا کر رہے ہیں اور وہ ہمارے خلاف اپنی جارحیت کی بھاری قیمت ادا کرتے رہیں گے۔
‘‘دوسری طرف اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ اسرائیل حوثی دہشت گرد تنظیم کے رہنماؤں کا سراغ لگائے گا۔
انہوں نے ایک ویڈیو بیان میں کہا، ''حدیدہ بندرگاہ مفلوج ہو چکی ہے، اور راس عیسیٰ بندرگاہ میں آگ لگی ہوئی ہے۔۔۔کسی کو استثیٰ نہیں ملے گا۔‘‘
صنعا کو کنٹرول کرنے والے حوثیوں نے اکتوبر 2023 میں غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کی طرف میزائل اور ڈرون داغے ہیں۔
وہ ان حملوں کو غزہ کے باشندوں کے ساتھ یکجہتی کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں نے اسرائیل کی جانب زمین سے زمین تک مار کرنے والے تقریباﹰ 40 میزائل داغے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو ناکام بنا دیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے تقریباﹰ 320 ڈرون حملوں کی بھی اطلاع دی ہے جن میں سے 100 سے زیادہ کو اسرائیلی فضائی دفاع نے فضا میں تباہ کر دیا۔
ا ب ا/ک م، ع ت (اے ایف پی، اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی فوج میں کہا کی تعداد کے بعد
پڑھیں:
نتن یاہو، اسرائیل کے وجود کو لاحق اندرونی خطرہ
اسلام ٹائمز: چینل 12 پر تجزیئے میں ایہود بارک نے کہا ہے کہ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ ان احمقانہ اقدامات کو اشتہارات، ٹیلی ویژن شوز اور قومی یکجہتی کے کھوکھلے نعروں کے دھوئیں اور غبار کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، یہ سب کچھ اسرائیلی جمہوریت کو آمرانہ ریاست کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے، جسے ایک مسلسل اور جاری جنگ کی آڑ میں انجام دیا جا رہا ہے۔ باراک نے شن بیٹ کے سربراہ کو برقرار رکھنے کے اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شاید اسرائیلی سپریم کورٹ کے اس ہفتے کے فیصلے نے ہمیں چند ہفتوں کی مہلت دی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم گہری کھائی میں گرنے سے ایک قدم دور ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود باراک نے بینجمن نیتن یاہو کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کے چینل 12 ٹیلی ویژن کی نیوز ویب سائٹ پر شائع ہونے والی یاداشت کی ابتدا میں انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کے پاگل پن پر مبنی اقدامات اور ان کے ساتھ ظالم و جابر ٹولے کی موجودگی متنبہ کرتی ہے کہ ہم اپنے الفاظ میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لیں، جیسا کہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہمیں کوئی شکست نہیں ہوئی نہ ہی ہو سکتی ہے، ان اقدامات کے تسلسل سے اسرائیلی ریاست کے خاتمے کا آغاز ایک غیر متوقع انداز میں ظاہر ہوگا اور ہمیں ایسی صورت حال پیش آئے گی کہ جسے ہم روک نہیں سکیں گے۔
ایہود باراک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کچی مٹی اور ڈھلوان کے کنارے پر کھڑا ہے، آج اسرائیل کو واضح طور پر ایک ایسے خطرے کا سامنا ہے جس سے ریاست کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اندرونی طور پر داخلی قوتیں انتشار کا شکار ہیں، جو پورے ریاستی ڈھانچے پر سوالیہ نشان ہے، ان واضح اور شفاف حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کے لیے کسی کو اندھا، احمق یا بزدل ہونا پڑے گا، یہ حقائق بہت تکلیف دہ بھی ہیں، دو سال سے نیتن یاہو ایک ایسے بھگوڑے کی طرح کام کر رہے ہیں جو سب کچھ تباہ کرنے پر تلا ہو، وہ اسرائیل میں قائم ہر چیز کو تباہ کر رہا ہے اور اسرائیلیوں کے باہمی تعلقات کو کمزور کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ ان احمقانہ اقدامات کو اشتہارات، ٹیلی ویژن شوز اور قومی یکجہتی کے کھوکھلے نعروں کے دھوئیں اور غبار کے نیچے چھپانے کی کوشش کرتا ہے، یہ سب کچھ اسرائیلی جمہوریت کو آمرانہ ریاست کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے، جسے ایک مسلسل اور جاری جنگ کی آڑ میں انجام دیا جا رہا ہے۔ باراک نے شن بیٹ کے سربراہ کو برقرار رکھنے کے اسرائیلی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شاید اسرائیلی سپریم کورٹ کے اس ہفتے کے فیصلے نے ہمیں چند ہفتوں کی مہلت دی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم گہری کھائی میں گرنے سے ایک قدم دور ہیں۔
ایہود باراک کے اعتراف کے مطابق نیتن یاہو حالیہ دورہ امریکہ سے شکست خوردہ اور ذلیل ہو کر واپس آیا ہے، جبکہ امریکہ نے ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کر دیئے ہیں اور اردگان ٹرمپ کے اچھے دوست بن چکے ہیں اور صدر ٹرمپ ان لوگوں کے ساتھ اپنے مسائل حل کرلیں گے۔ کسٹم ٹیرف کے بارے میں امریکیوں نے کہا ہے کہ آپ جو ہم سے سالانہ 4 بلین ڈالر کی امداد لیتے ہیں، (اب آپ کو ایسا کوئی اور مطالبہ نہیں کرنا چاہیے)، شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ ٹرمپ نیتن یاہو کے متعلق مزید صبر سے کام نہیں لیں گے، جو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اس خطے کا سفر کرنے والے ہیں اور توقع ہے کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اس دورے کے دوران 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کر لیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ممکنہ طور پر اس سفر کے دوران غزہ کی جنگ کو ختم کرنے کی کوشش بھی کریں گے اور اس کے لئے وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں گے۔ شاید اس مرحلے پر، وہ نیتن یاہو کو فری ہینڈ بھی دیں لیکن وہ انہیں یاد دلائیں گے کہ یہ جنگ مستقبل قریب میں ختم ہونی چاہیے۔ اس لئے ایسے حالات اور اتنے قلیل عرصے کے دوران اس جنگ سے کوئی تزویراتی نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم نے خبردار کیا ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے اس سے ایک خطرناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نیتن یاہو نے اسرائیل ہی کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے، وہ جنگی قیدیوں کو اپنے اقدامات کے ذریعے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایک فریب ہے، اسی لئے نتن یاہو تحققیاتی کمیٹی کو کام نہیں کرنے دے رہا تاکہ اس کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے، نیتن یاہو کا طرزعمل مفادات کے ٹکراؤ پر مبنی ہے اور جس سے ہمارے قومی باہمی رشتے اور اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ ایہود باراک نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہمیں کھائی میں گرنے سے روکنے کا واحد طریقہ نیتن یاہو کی برطرفی ہے اور انہیں وزیراعظم کے طور پر کام جاری رہنے سے روکنا ہے، عدلیہ میں اس کی ہمت ہونی چاہیے، شاید یہ پراسیکیوٹرز اور ان کے معاونین یا شن بیٹ کے سربراہ کے تعاون سے کیا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں سپریم کورٹ کو بغیر کسی خوف اور خدشے کے اس حوالے سے صحیح فیصلہ کرنا چاہیے۔