چین نے زبردست ترقی کرتے ہوئے اپنی ثقافت اور اقدار کو برقرار رکھا ہے، سابق وزیراعظم مصر
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
“انڈرسٹیڈنگ چائنا” بین الاقوامی کانفرنس چین کے شہر گوانگ چو میں منعقد ہوئی۔ مصر کے سابق وزیر اعظم عصام شرف سمیت 600 سے زائد چینی اور غیر ملکی مہمانوں نے کانفرنس میں شرکت کی ۔عصام شرف نے گزشتہ20 سالوں میں 46 بار چین کا دورہ کیا ہے اور چینی طرز کی جدیدکاری کی شاندار کامیابیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہفتہ کے روز چائنا میڈیا گروپ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں شرف نے کہا کہ وہ چین کو اس معاملے میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ چین نے زبردست ترقی کرتے ہوئے اپنی ثقافت اور اقدار کو برقرار رکھا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ چین کے نظریات اور اقدامات دنیا میں امید اور روشنی لائیں گے۔
مصر کے سابق وزیر اعظم عصام شرف نے مزید کہا کہ چین ایک طاقتور ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کی مدد کرنے کا خواہاں ہے۔ یہی وجہ سے چین دوسرے ممالک سے مختلف ہے۔ چین کے اقدامات کے پیچھے اس کی اپنی اقدار موجود ہیں اور انہی اقدار پر چین کی جدیدیت قائم ہے۔ چین ایک “زندہ تہذیب” ہے۔ چین میں 56 قومیتیں موجود ہیں جو ہم آہنگی کے ساتھ رہتی ہیں۔ چین کی جدیدکاری اس کے تمام عوام کو فوائد پہنچاتی ہے۔ اس کی وجہ چین کا سیاسی نظام ہے اور سماجی انصاف بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ چین کے گلوبل اینشی ایٹوز کے ذریعے چین کی جدید کاری کی اقدار کو دنیا تک پہنچایا گیا ہے۔ شرف کے مطابق مستقبل کا تعلق گلوبل ساؤتھ سے ہے۔ ماضی میں چین ایک غریب ترقی پذیر ملک تھا جس کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کا شکار تھی۔ اب چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت، دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک اور دنیا کی سب سے بڑی مینوفیکچرنگ پاور بن گیا ہے۔ اب ہر ایک ترقی پذیر ملک سوچتا ہے کہ ہم چین کی مثال کیوں نہیں اپنا سکتے؟ انہوں نے مزید کہا کہ جدت طرازی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے کلیدی کردار کے بغیر کوئی بھی تصور نہیں کر سکتا کہ چین صرف 10 یا 20 سالوں میں اس مقام تک پہنچاہے جہاں وہ آج ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور معیشت ہمیشہ وہ قوتیں رہی ہیں جو ممالک کو آگے بڑھاتی ہیں۔ جدت طرازی چینی طرز کی جدیدکاری کا بنیادی عنصر ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز
حافظ نعیم الرحمن نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلاتمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط لکھ کر ان کی توجہ غزہ میں جاری صہیونی سفاکیت کی طرف دلائی ہے اور اہل فلسطین کی مدد کے لیے عملی اقدامات کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل جمعہ کو عالمی سطح پر یوم احتجاج منانے کی بھی تجویز دی ہے۔ مسلم سربراہان کے نام جاری خطوط میں انھوں نے کہا کہ وہ آپ کو غزہ میں جاری ہولناک انسانی بحران پر گہرے دکھ اور تشویش کے ساتھ یہ خط لکھ رہے ہیں۔ تباہی اور انسانی تکالیف کی شدت عالمی برادری کی فوری اور مشترکہ کارروائی کا تقاضا کرتی ہے۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب ہولوکاسٹ، بوسنیا کی نسل کشی، یا کوسوو کے تنازعے جیسے شدید انسانی بحران پیش آئے، تو دنیا نے اہم موڑ پر انسانی وقار اور انصاف کے تحفظ کے لیے متحد ہو کر قدم اٹھایا۔
انھوں نے خط میں کہا کہ آج ہم غزہ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ نسل کشی سے کم نہیں۔ معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، بلا تمیز قتل کیے جا رہے ہیں۔ اسپتال، صحافی، اسکول، اور پناہ گاہیں جو بین الاقوامی قوانین کے تحت محفوظ تصور کی جاتی ہیں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی یا بے عملی انتہائی تشویشناک ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک کی حکومتوں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر جاری قتل عام کو روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کریں۔ جدید ہتھیاروں کی تباہ کن صلاحیت جو اسرائیل کو آزادی سے اور غیرمتناسب طور پر میسر ہے، سوشل میڈیا اور براہِ راست نشریات کے ذریعے آج دنیا ان مظالم کو لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہی ہے۔ عالمی سطح پر شعور بے مثال ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اور امن پسند لوگ غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور درد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے ملک کے عوام بھی ہمارے درد اور غم میں برابر کے شریک ہیں، جیسا کہ دنیا کے بے شمار دوسرے لوگ بھی۔
انھوں نے مسلم سربراہان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لمحہ ہے جو جرات مندانہ اور اخلاقی قیادت کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم آپ سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ فوری طور پر مسلم ممالک کے رہنماوں کا اجلاس بلایا جائے تاکہ ایک واضح اور اجتماعی حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے۔ اگر دنیا خاموش رہی، تو ہم ایک اور انسانی ناکامی کے باب پر افسوس کرتے رہ جائیں گے بالکل جیسے روانڈا میں ہوا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس بار پوری دنیا یہ سب براہِ راست دیکھ رہی ہے۔ ہم یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ تمام ریاستی سربراہان کا ایک خصوصی اجلاس بلایا جائے جس کا واحد ایجنڈا غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنا ہو۔ تعمیر نو اور بحالی کے اقدامات بعد میں کیے جا سکتے ہیں، لیکن سب سے پہلے اس خونریزی کا خاتمہ ضروری ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مسلم ممالک کسی نہ کسی سطح پر بین الاقوامی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے مثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ مزید برآں ہم یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ جمعہ، 20 اپریل کو سرکاری طور پر یوم عالمی احتجاج قرار دیا جائے۔ اس دن کو ریلیوں، جلوسوں، خصوصی دعاوں، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے عالمی مظاہروں سے منایا جانا چاہیے۔ ہم بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اس اتحاد اور ظلم کے خلاف مزاحمت کے دن کی توثیق کریں۔