اے ایف ڈی کی پارٹی کانفرنس، مخالفین کے مظاہرے
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جنوری 2025ء) جرمن چانسلر اولاف شولس کی سہ جماعتی اتحادی حکومت کے خاتمے کے بعد جرمنی میں 23 فروری کو پارلیمانی انتخابات ہونا ہیں۔ اس سلسلے میں جرمنی کی تین بڑی سیاسی جماعتیں آج ہفتہ 11 جنوری کو اپنے اجتماعات منعقد کر رہی ہیں جس میں ملک بھر میں ہونے والے ان انتخابات کے لیے امیدواروں کے ناموں کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
جرمنی: اے ایف ڈی کی تعریف کرنے پر ایلون مسک پر نکتہ چینی
اقتصادیات، جرمن انتخابات میں سب سے بڑا مدعا
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی کے خلاف ڈریسڈن میں ترتیب دیے گئے مظاہروں کے منتظمین کا اندازہ ہے کہ آج ہفتے کے روز اس میں 10 ہزار سے زائد افراد شرکت کررہے ہیں۔
(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے 70 شہروں سے 100 سے زائد بسوں میں لوگ اس مقصد کے لیے ڈریسڈن پہنچ رہے ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق مظاہرین کے ایک چھوٹے گروپ نے ڈریسڈن کے قریب ہائی وے کی مشرق کی طرف جانے والی لین کو بلاک کر رکھا ہے۔
ان مظاہرین کی طرف سے اے ایف ڈی کی ریلی کے مقام کی طرف جانے والے راستوں کو بھی بلاک کرنے کا منصوبہ تھا۔
برلن سے قریب 130 کلومیٹر جنوب میں واقع شہر ڈریسڈن کے حکام نے کسی تشدد کے خدشے کے پیش نظر شہر کے اندر مختلف کنٹرول زون قائم کیے ہیں۔
پولیس کے مطابق اے ایف ڈی کے حامیوں کو ان کے لیے مختص مقامات کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق شہری حدود میں پولیس کا ایک ہیلی کاپٹر بھی اس دوران فضا میں موجود رہے گا، جبکہ دیگر قریبی ریاستوں کی مدد سے صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے ڈرونز کا بھی استعمال کیا جائے گا۔
اے ایف ڈی کی طرف سے اپنی اس دو روزہ کانفرنس میں پارٹی کا الیکشن منشور بھی منظور کیا جائے گا اور اپنی پارٹی لیڈر ایلِس وائیڈل کے نام کا چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار کے طور پر اعلان کیا جائے گا۔
سی ڈی یو کا اے ایف ڈی سے اتحاد نہ کرنے کا اعلاندوسری طرف سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے موجودہ سربراہ اور چانسلر بننے کے امیدوار فریڈرش میرس نے اس امکان کو سختی سے رد کر دیا ہے کہ ان کی جماعت اے ایف ڈی سے سیاسی اتحاد قائم کرے گی۔
یہ بات انہوں نے جمعہ 10 جنوری کی شام جرمن براڈ کاسٹر اے آر ڈی سے بات کرتے ہوئے کہی۔
میرس کا کہنا تھا، ''مجھے یہ بات ریکارڈ کے لیے دہرانے دیں، میری لیڈرشپ میں جرمنی کے اندر سی ڈی یو کا (اے ایف ڈی سے) کوئی تعاون نہیں ہو گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجوہات واضح ہیں۔ میرس کے بقول، ''ہم ایک ایسی پارٹی کے ساتھ کام نہیں کریں گے، جو غیر ملکیوں کے خلاف ہے، سامیت مخالف ہے اور جس میں دائیں بازو کے شدت پسند لوگ شامل ہیں۔ ایک ایسی جماعت جو روس کے ساتھ دوستی دکھاتی ہے اور نیٹو اور یورپی یونین کو چھوڑنا چاہتی ہے۔‘‘
جرمنی کی مشرقی ریاست سیکسنی اے ایف ڈی کا ایک مضبوط گڑھ ہے اور گزشتہ انتخابات میں اس جماعت نے وہاں سے 26.
ا ب ا/ک م (ڈی پی اے)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے کی طرف
پڑھیں:
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کی پریس کانفرنس ان کے گلے کی ہڈی بن گئی
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کے عہدے پر چند آخری دن ان کے گلے کی ہڈی بن گئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق خاص طور پر گزشتہ 48 گھنٹے انٹونی بلنکن کے لیے انتہائی متنازع، بے عزتی اور شرمندگی والے رہے۔
انہیں غزہ اور اسرائیلی جنگ پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن ممکنہ طور پر اپنی الوداعی پریس کانفرنس کو یادگار اور اچھا بنانا چاہتے تھے لیکن وہ ان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی۔
حال ہی میں پریس کانفرنس میں موجود 2 صحافیوں اور ایک خاتون نے غزہ جنگ پر شدید احتجاج کیا اور انٹونی بلنکن کو خوب کھری کھری سنائی۔
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کی پریس کانفرنس کے دوران افرا تفری بھی پھیل گئی تھی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق پریس کانفرنس میں امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن غزہ میں 15 ماہ کی جنگ کے دوران بائیڈن انتظامیہ کے فیصلوں اور پالیسیوں کا دفاع کر رہے تھے کہ اس دوران صحافی سام حسینی نے بولنا شروع کیا اور خوب کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر آئی سی جے (انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس) تک ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی اور قتل و غارت کر رہا ہے اور آپ مجھے اس عمل کا احترام کرنے کو کہہ رہے ہیں؟
اس موقع پر یہ معاملہ ختم ہونے لگا تھا تاہم چند لمحوں بعد صحافی خاموش بیٹھا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار ان کی طرف آئے اور انہیں وہاں سے زبردستی اٹھانا کر باہر لے جانے لگے۔
صحافی اس دوران کہتے رہے کہ چھوڑو مجھے، مجھے تکلیف ہو رہی ہے، کیا تم اس کو آزاد میڈیا کہتے ہو؟ میرے ساتھ بدتمیزی مت کرو، مگر اہلکاروں نے انہیں گھسیٹا اور اٹھا کر باہر لے گئے۔
اس موقع پر صحافی نے غصے سے امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کو مجرم بھی کہا۔
اس واقعے کے بعد پریس کانفرنس والے کمرے میں خاموشی چھا گئی اور امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے غزہ میں امریکا کی پالیسیوں کا دفاع جاری رکھا۔
انہوں نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے لیے امریکا کی حمایت کا دفاع کیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق بعد ازاں امریکی وزیرِ خارجہ جیسے ہی اگلے سوال کی طرف بڑھنے لگے تو اس موقع پر ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ جب مئی میں معاہدہ ہو گیا تھا تو پھر آپ غزہ میں بم کیوں برسا رہے تھے؟
اس کے بعد صحافی نے امریکی وزیرِ خارجہ سے کئی سوالات کیے اور انہیں صہیونی قرار دے دیا۔
صحافی زور زور سے پوچھتے رہے کہ آپ نے میرے دوستوں کا قتلِ عام کیوں ہونے دیا؟ آپ نے ان کے گھر کیوں تباہ ہونے دیے؟
اس موقع پر محکمۂ خارجہ کے اہلکار انہیں بھی زبردستی وہاں سے اٹھا کر باہر لے گئے۔
صحافی نے جاتے ہوئے انٹونی بلنکن کو ’نسل کشی کا سیکریٹری‘ قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے سسر اور آپ کے دادا اسرائیل کے حمایتی تھے، کیا آپ اسرائیل سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟
صحافی نے یہ بھی کہا کہ آپ نے ہمارے زمانے کے ہولوکاسٹ کو کیوں ہونے دیا؟ آپ کی وراثت کو نسل کشی ہونے پر کیسا لگتا ہے؟