لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف اقلیت درست راستے پر نہیں، سیکریٹری جنرل مسلم ورلڈ لیگ
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف اقلیت درست راستے پر نہیں، سیکریٹری جنرل مسلم ورلڈ لیگ WhatsAppFacebookTwitter 0 11 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل اور تنظیم کے چیئرمین شیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے کہا ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی مخالف اقلیت درست راستے پر نہیں۔
تفصیلات کےمطابق ہفتہ کو اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق دو روزہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اس کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ کانفرنس بنیادی طور پر مسلم ورلڈ لیگ کا اقدام ہے تاکہ لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کانفرنس کا مقصد یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے حقیقی اسلامی تصور کو اجاگر کیا جائے اور اس حوالے سے غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔ کانفرنس سے قبل علمائے کرام کے اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علما نے اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ تمام علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جس طرح مردوں کے لیے تعلیم ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے۔‘
مسلم ورلڈ لیگ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں دنیا بھر سے وزرائے تعلیم، سفارت کاروں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے متحرک ملالہ یوسفزئی نے شرکت کی جن کی تعلیم کے حوالے سے خدمات قابل قدر ہیں۔ کانفرنس کے اختتام پر ایک ’اعلان اسلام آباد‘ جاری ہوگا جس سے اسلام اور اسلام میں عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے دنیا بھر کو ایک اچھا پیغام جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس کانفرنس کے اثرات دور رس ہوں اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس سے مستفید ہوں۔ اسی لیے اس کانفرنس کے دوران کئی عالمی تنظیموں کے ساتھ معاہدے ہوں گے۔ افتتاح تقریب میں بھی او آئی سی اور مسلم ورلڈ لیگ کے درمیان معاہدہ ہوا جس کے تحت خواتین کی تعلیم کے لیے وظائف جاری کیے جائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم بارہا یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر کو یہ پیغام جائے کہ اسلام کے تمام مکاتب فکر عورت کی تعلیم کے حق میں ہیں اور معاشرے کی ترقی کے لیے عورت کو تعلیم دینا ہوگی۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے کہا کہ ’عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے جو غلط فہمیاں ہیں اس کانفرنس کے دوران ہونے والی تقاریر نے ان کی نفی کی ہے۔ اس لیے ہم ان تقاریر کو دنیا بھر میں پھیلائیں گے۔ جب یہ بات پھیلے گی تو جو لوگ عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح کر رہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جو لوگ عورتوں کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل ہی موجود نہیں۔ علما اس بات پر متفق ہے کہ عورت کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے اور جو اقلیت اس بات مصر ہے کہ عورتوں کی تعلیم ٹھیک نہیں وہ اقلیت غلط راستے پر ہے اور اس کا اسلام سے کعئی تعلق نہیں۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’اس کانفرنس کا مقصد کسی خاص ملک یا کمیونٹی کو ہدف بنانا نہیں بلکہ ہمارا پیغام تمام لوگوں کے لیے ہے۔ یہ سچ ہے کہ کچھ لوگوں کو عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے تحفظات ہیں اور ہم نے ان کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ لوگ عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور کچھ کسی خاص شعبہ میں عورتوں کی سپیشلائزیشن کے خلاف ہیں لیکن اسلام میں ایسی کوئی قدغن سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس لیے ہم نے اس تاثر کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: لڑکیوں کی تعلیم سیکریٹری جنرل کی تعلیم کی کانفرنس کے اس کانفرنس دنیا بھر راستے پر اسلام ا ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
چہ پدی چہ پدی کا شوربہ
لیجیے کچھ مزاحیہ خبریں پیش خدمت ہیں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کا بیان کہ کراچی کے طلبہ اور طالبات کے ساتھ ہونے والی زیادتی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہ بیان انہوں نے کراچی کے بورڈ آف انٹر میڈیٹ کے دھاندلی زدہ نتائج پر طلبہ و طالبات کے احتجاج ہے بعد دیاہے۔ ادھر سے سابق مئیر کراچی فاروق ستار نے بھی سیاسی انگڑائی لی اور بیان داغا ہے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے طلبہ و طالبات کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ کراچی میں میڑک اور انٹر کے نتائج کو جان بوجھ کر کم کیا جارہا ہے جب کہ اندرون سندھ کے نتائج کو کامیاب قرار دے کر حقائق کو چھپا یا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ گورنر سندھ اور فاروق ستار کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے آگے بڑھنے سے پہلے یہ شعر ملاحظہ فرمائیے
ہے غارت چمن میں اسی کا ہاتھ
شاخوں پر انگلیوں کے نشاں دیکھتا ہوں میں
تمام مسائل کے بعد بھی ایسا کیا ہوگیا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے رہنے والے بچّے اتنے گئے گزرے ہوگئے کہ اسّی فی صد بچّے انٹر کے امتحانات میں ناکام ہوگئے اور اندرون سندھ کے بچّوں میں سے اسّی فی صد کامیاب ہوگئے بچّے چاہیے دہی سندھ کے ہوں یا شہری سندھ کے، سارے اپنے ہی ہیں یہ بات سندھ حکومت بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہضم نہیں کر پاتی یہ بات ہوائی نہیں ہے بلکہ اس پارٹی کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا طرز حکمرانی اور پھر اس جماعت کا تسلسل سے ایسے ہی رویّے کا اظہارکررہی ہے اور اس لکیر کو گہرا کرتی چلی جارہی ہے اس جماعت نے دہی سندھ کے بچّوں کو اپنے غلاموں کے بچّے سمجھا ہے اور اب ان کا ارادہ ہے کہ شہری سندھ کے بچّوں کو بھی اپنا غلام بنائیں۔ اور اب یقین ہو چلا ہے کہ یہ تفریق ان کی پالیسی کا غیر اعلانیہ حصّہ بن چکی ہے کوئی اس کا انکار کرتا ہے تو وہ سورج کی طرف سے آنکھیں بند کرکے روشنی کا انکار کرتا ہے۔ کراچی شہر کے بہت سارے اس جماعت کے ورکر بھی اس بات کو سمجھتے ہیں مگر مفادات کی وجہ سے اس بات پر مصر ہیں کہ یہ جماعت کراچی کے ساتھ کچھ بہتر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
کراچی کی ترقی کے زوال کے تمام اسباب کا تذکر ہ تو اس مختصر سے کالم میں کرنا ممکن نہیں مگر تعلیمی تنزلی کا تذکر تو ہوہی جائے گا۔ کراچی قیام پاکستان سے اسّی کی دھائی کے آغاز تک اپنی علمی شناخت کی وجہ سے ملک بھر میں جانا جاتا تھا کراچی کے دفاتر میں زیادہ تر افراد کراچی کے ہی تھے جو خدمات انجام دیتے تھے ان میں ڈاکٹر انجینئر اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہوا کرتے تھے یہ تمام لوگ کراچی کے انہی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب نے کوٹا سسٹم سندھ میں متعارف کرایا اس کا جواز انہوں نے یہ پیش کیا کہ اندروں سندھ میں تعلیم کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اندرون سندھ کے لوگ روز گار اور تعلیم میں پیچھے رہ جائیں گے ان کو تمام شعبوں میں برابری کی سطح پر لانے کے لیے یہ قدم اٹھا یا گیا ہے یہ پالیسی دس سال کے لیے لائی گئی تھی مگر اب لگ بھگ باون سال ہونے والے ہیں کوٹا سسٹم ختم ہوکر نہیں دے رہا ہے۔ ایم کیوایم کے قیام کے مقاصد میں یہ ایک مقصد تھا کہ کوٹا سسٹم ختم کریں گے مگر آج تک کوٹا سسٹم جاری ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں میں نقل مافیا کو پال پوس کر توانا کرنے کی خدمت بھی ایم کیوایم نے انجام دی آج نقل ہر تعلیمی ادارے کی روح میں داخل ہوچکی ہے۔ اس طرح تعلیم کے معیار کا جنازہ اٹھانے کی خدمت موصوف گورنر اور سابق مئیر فاروق ستار کی پارٹی نے کی۔ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا جو بھی منشور ہے وہ لکھی ہوئی صورت میں جو ہے وہ تو سب جانتے ہیں مگر تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے۔ سندھ اسی وقت جاگے گا جب تعلیم کے مراکز صحیح معنوں میں آباد ہوں گے۔ اندرون سندھ میں بالخصو ص دہی آبادیوں کے ساتھ یہ کھیل کئی دہائیوں پر مشتمل ہے یہ کھیل پہلے جبراً جاگیر دار اور وڈیر ے کھیلا کرتے تھے اور کسی اسکول کو اپنے علاقوں میں قائم ہونے نہیں دیتے تھے اگر اسکول بن بھی جاتے تو یہ ہر وہ کام کرتے جس کے نتیجے میں تعلیم کے زیور سے وہاں کے رہنے والے آراستہ نہ ہوسکیں اساتذہ کو ڈرا دھمکا کر بھگادیتے تھے۔ اس کا مشاہدہ آپ نے بارہا کیا بھی ہوگا کتنے ہی اسکول کی عمارتیں بھینسوں کے باڑے اور چرسیوں جرائم پیشہ افراد کے اڈّوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ آزادی کے بعد یہی وڈیرے اور جاگیر دار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئے اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ گئے خصوصاً صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا مشاہد ہ کریں تو یہ مکمل طور پر جاگیرداروں، وڈیروں پر مشتمل ہے۔ جس طرح انہوں نے دہی آبادیوں کو برسوں سے اپنا غلام بناکر رکھا ہے اسی طرح اب شہر ی آبادیوں کو کنٹرول کرنا ان کا ایجنڈا ہے کام میں معاونت کے لیے ایم کیو ایم سے بہتر جماعت نہیں مل سکتی ایم کیو ایم چہ پدی نہ پدی کا شوربہ خیرات میں فارم سینتالیس کے ذریعے وزارت تک پہنچائے جانے والے کیا کراچی کے طلبہ وطالبات کے خلاف زیادتیوں کو روکیں گے۔ کراچی کے لوگوں نے آپ کو مسترد کردیا ہے تعجب ہے گورنر کامران خان ٹیسوری اور فاروق ستار کو اپنی اوقات معلوم ہوچکی ہے اور پھر ایسی بے تکی ہانک رہے ہیں۔