(گزشتہ سے پیوستہ)
ایران اوراسرائیل کے درمیان تقریباً 2152 کلومیٹرکازمینی فاصلہ ہے اورایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچاکریہ توثابت کردیاہے کہ جس میزائل پروگرام پروہ کافی عرصے سے کام کررہاہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ایران کے میزائل پروگرام کومشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑااورمتنوع سمجھا جاتا ہے۔ 2022ء میں امریکی سینٹرل کمانڈکے جنرل کینتھ میکنزی نے کہاتھاکہ ایران کے پاس3000 سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں۔دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطی میں اگرکسی ملک کے پاس جدیدترین میزائلوں کاذخیرہ ہے تووہ اسرائیل ہے۔
میزائلوں کایہ ذخیرہ اس نے گذشتہ چھ دہائیوں میں امریکاسمیت دیگردوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یااپنے طورپرملک ہی میں تیارکیے ہیں۔سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کےمطابق اسرائیل کئی ملکوں کومیزائل برآمدبھی کرتا ہے۔ اسرائیل کے مشہورمیزائلوں میں ڈیلائیلا، جبریئل، ہارپون،چریکو1،جریکو2، جریکو3، لورااورپوپیئی شامل ہیں لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جوکہ کسی بھی قسم کے میزائل یاڈرون حملے کوبروقت روکنے کی صلاحیت رکھتاہے۔غزہ سے حماس اورلبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کومتواتر فضا میں ہی تباہ کرکے وہ آج تک اپنالوہامنواتا رہا ہے۔ اسرائیلی میزائیل ڈیفنس انجینیئراوزی روبن کے مطابق آئرن ڈوم کی طرح کادنیامیں کوئی اوردفاعی نظام نہیں اوریہ بہت کارآمدشارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران،اسرائیل سے بہت زیادہ بڑاملک ہے اوراس کی آبادی اسرائیل سے دس گنازیادہ ہے لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگاناقطعی درست نہیں ہوگاکہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتورملک ہے۔اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مدمیں خرچ کرتاہے اوراس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔اگرایران کادفاعی بجٹ 10ارب ڈالرکےقریب ہے تواس کےمقابلے میں اسرائیل کا بجٹ24ارب ڈالرسے ذرازیادہ ہے۔جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضرسروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباًچھ گنازیادہ ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعدادچھ لاکھ دس ہزارجبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعدادایک لاکھ سترہزار ہے ۔
اسرائیل کےپاس جس چیزکی برتری ہے وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اوربہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ ہے۔اس کے پاس 241لڑاکا طیارے اور48تیزی سےحملہ کرنے والے ہیلی کاپٹرہیں جبکہ ایران کےپاس جنگی طیاروں کی تعداد186ہے اور اس کے بیڑے میں صرف 13جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کامظاہرہ تونہیں کیالیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پرنہ بھی ہو،پھربھی ایران کی بحری فوج کے پاس101 جہازجبکہ اسرائیل کے پاس67 ہیں۔ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعدسے اپنے میزائل سسٹم اورڈرونزپرزیادہ کام کیااورشارٹ اورلانگ رینج میزائل اورڈرونز بنائے جومبینہ طورپراس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنےحریفوں کوبھی مہیاکیے ہیں۔ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہواتھاکہ وہ ایرانی ساخت کےتھے۔ایران کےمیزائلوں میں شہاب ون میزائل ہےجس کی رینج تین سو کلومیٹر ہے جبکہ اسی کادوسراورژن شہاب ٹو500کلومیٹرتک مارکرسکتا ہے۔ شہاب سیریز کا تیسرامیزائل شہاب3 دو ہزارکلومیٹر تک مارکرنےکی صلاحیت رکھتاہے۔ اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں 700 کلو میٹرتک مارکرنے والا ذوالفقار، 750 کلومیٹر تک مارکرنے والاقائم 1 بھی شامل ہیں۔ ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح -110ہائپرسونک میزائل ہیں جو 300سے 500 کلو میٹرتک ہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی ادارے پیس انسٹیٹیوٹ کے مطابق مشرق وسطی میں ایران کے پاس سب سے بڑااورمتنوع بیلسٹک میزائلوں کاذخیرہ موجود ہے۔ساتھ ہی ساتھ ایران خطے کاواحدملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں لیکن اس کے بیلسٹک میزائل دوہزار کلومیٹرکے فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ بیلسٹک ٹیکنالوجی تودوسری عالمی جنگ کےوقت بن چکی تھی،تاہم دنیامیں صرف چندہی ممالک کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خوداس ٹیکنالوجی کی مددسے بیلسٹک میزائل بناسکیں۔
ایران نے گزشتہ دودہائیوں کے دوران شدید نوعیت کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی حاصل بھی کی اوربیلسٹک میزائل بھی تیار کئے۔ ایرانی رہبراعلی نے حال ہی میں ایک خطاب میں کہاتھاکہ جس عسکری اورمیزائل پروگرام سے مغرب پریشان ہے،وہ سب پابندیوں کےدوران بنا۔2006ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نےایک قرارداد منظورکی جس کے تحت کسی بھی قسم کی جوہری ٹیکنالوجی یاموادکی ایران کوفروخت پرپابندی عائدکردی گئی۔اس میں ایساسامان بھی شامل تھاجسے کسی اورمقصدکے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کے لئے بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔تین ہی ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک اورقرارداد میں ایران سے روایتی ہتھیاروں یااسلحہ کی لین دین پربھی مکمل پابندی لگادی جس میں عسکری ٹیکنالوجی بھی شامل تھی۔اس قراردادکے تحت لگنے والی پابندیوں کی زدمیں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام بھی آیا۔ایسےمیں ایران کیلئیروس اورچین جیسے ممالک سےبھی اسلحہ خریدنا آسان نہ رہاجن سے وہ عراق جنگ کے وقت سے سامان خریدرہاتھا۔
بیلسٹک میزائل جوہری وارہیڈ(یعنی جوہری ہتھیار)لےجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مغربی ممالک کے مطابق چونکہ ایران نے بیلسٹک ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے اس لیے وہ جوہری توانائی کے حصول اورجوہری ہتھیار بنانے کے لئے ضروری سطح تک یورینیم کو افزودہ کرنے کی کوئی کوشش ترک نہیں کرے گا۔جولائی 2015 ء میں ایران اورچھ عالمی طاقتوں کے درمیان مشترکہ جامع پلان آف ایکشن معاہدےکےاختتام اورپھرقرارداد 2231ء کی منظوری کے بعد،ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام پابندیاں ہٹادی گئیں۔تاہم’’ٹرگر،سنیپ بیک میکانزم‘‘کے نام سےجانی جانے والی شق نے ہتھیاروں کی پابندیوں کوبرقرار رکھاجس کے تحت خاص طور پرپانچ سال تک ایران کے میزائل پروگرام کی نگرانی ہونی تھی۔یہ ایران پردباؤڈالنے اوراس کے میزائل پروگرام کوکنٹرول کرنے کاایک حربہ تھا۔
تاہم ایران نے اپنامیزائل پروگرام اس حد تک بڑھایاکہ مارچ 2016ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس اورجرمنی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک مشترکہ خط لکھتے ہوئے ایران پرمیزائل تجربات کرنے کاالزام لگایااورکہاکہ اس نے’’جے سی پی او اے‘‘ معاہدے کے بعدسلامتی کونسل کی قرارداد 2231ء کی خلاف ورزی کی ہے۔بالآخر2020ء میں ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کافیصلہ کیا۔امریکاکے اس معاہدے سے دستبرداری کی ایک وجہ ایران کے میزائل پروگرام کے خطرے سے نمٹنے اوراس پروگرام کامعائنہ اورتصدیق کرنے کیلئےدرکارطریق کارکی کمی تھی۔اگرچہ ایران نے یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی کہ وہ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کاحصہ ہے لیکن قرارداد2231ء میں طے شدہ ڈیڈ لائن کےخاتمے کے ساتھ ہی،ایرانی حکومت نے اکتوبر2021ء میں روس اورچین سے ہتھیاروں کی خریداری کے لئے اشتہارات دیے لیکن پابندیاں ابھی تک برقرارہیں اورانہوں نے ایران کواب تک اس خواہش کے حصول سے بازرکھاہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایران کے میزائل میزائلوں میں اقوام متحدہ اسرائیل سے اسرائیل کے کی صلاحیت میں ایران ایران نے کہ ایران کے ساتھ کے پاس
پڑھیں:
وہ دن دور نہیں کہ ہم آزاد فلسطین کا نقشہ دنیا پر دیکھیں گے، علامہ مقصود ڈومکی
جیکب آباد میں نماز جمع کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ شہدائے آزادی فلسطین کے پاکیزہ لہو نے آزادی فلسطین کی تحریک کو ایک نیا روح اور ولولہ عطا کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے فلسطین کی مجاہد قوم کے ساتھ اس معرکہ حق و باطل میں حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن، حشد شعبی عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران نے جس جرات و بہادری کے ساتھ مظلوم فلسطین کا ساتھ دیا، وہ لائق صد تحسین ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامع مسجد امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام جیکب آباد میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے غزہ اور فلسطین کی بہادر قوم کو استقامت صبر اور کامیابی پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ غزہ اور فلسطین کے بہادر عوام، حماس اور جہاد اسلامی کے مجاہدوں کی تاریخی استقامت نے اسرائیل غاصب اور امریکہ کو ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ شہدائے آزادی فلسطین کے پاکیزہ لہو نے آزادی فلسطین کی تحریک کو ایک نیا روح اور ولولہ عطا کیا ہے۔ اب وہ دن دور نہیں کہ ہم آزاد فلسطین کا نقشہ دنیا پر دیکھیں گے۔ فلسطین کی مجاہد قوم کے ساتھ اس معرکہ حق و باطل میں حزب اللہ لبنان، انصار اللہ یمن، حشد شعبی عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران نے جس جرات و بہادری کے ساتھ مظلوم فلسطین کا ساتھ دیا، وہ لائق صد تحسین ہے۔ حزب اللہ کے بہادر قائد سید حسن نصر اللہ اور دیگر عظیم مجاہدوں کی شہادت کے باوجود اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ جبکہ اسرائیل اپنے ظلم اور بربریت کی وجہ سے پوری دنیا میں ذلیل اور رسوا ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج دنیا اسرائیل اور اس کے وزیراعظم نتن یاہو کو عصر حاضر کے فرعون کے نام سے پہچانتی ہے۔ جس نے فرعون کے ظلم کی یاد تازہ کرتے ہوئے 50 ہزار بے گناہ انسانوں کو اپنے بم دھماکوں ظلم اور تشدد کا نشانہ بنا کر قتلِ کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کو زخمی کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس معرکہ حق و باطل میں حق کو فتح ہوئی ہے اور باطل کو ذلت اور رسوائی نصیب ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بعض نادان دوست، مکار دشمن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس معرکے میں مایوسی کا پیغام دے رہے ہیں، جبکہ 50 ہزار شہداء کی قربانیاں دینے والے مظلوم فلسطینی قوم کے حوصلے کوہ ہمالیہ سے زیادہ بلند ہیں اور ان کا یقین اور ایمان قابل دید اور قابل فخر ہے۔