Daily Ausaf:
2025-01-18@13:11:19 GMT

ہم ہی ان کے وارث اور محافظ ہیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

نو مئی بیس تئیس کو ایک ایسا واقعہ پیش آیاتھاجس کی دُھول میں اِس سے پہلے وقوع پذیر ہونے والےتمام واقعات دب کر رہ گئے تھے۔ اِن میں سب سے زیادہ قابل ذکر سانحہ رہا تھا دہشت گردوں کے ہاتھوں جی ایچ کیو کی اینٹ سےاینٹ بجانا۔ اس حملے کے ملزمان کو اگر پھانسی چڑھا دی جاتی تو نو مئی جیسا کوئی واقعی کبھی رونما نہ ہوتا بلکہ اس کے بعد ملک میں دہشت گردی کی جو بدترین لہر آئی تھی جس کے اثرات اب تک نظر آرہے ہیں یہ نہ نظر آرہے ہوتے۔ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان اور بٹے ہوئے دہشت گرد احسان اللہ احسان کو جہاں چڑیا بھی پَر نہیں مار سکتی تھی وہاں سے فرار نہ ہونے دیاجاتا تو آج اس دہشت گرد گروہ الخوارج کی پوری ’’قیادت‘‘ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہوتی اور ملک بشمول پڑوسی ملک میں دہشت گرد اور خودکش بمبار تیار کرنے کے جو تربیتی مراکز اسلام کے تصورِ جہاد کو مسخ کرنےکی لیے بنے ہوئے ہیں وہ برقرار نہ رہ پاتے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کا ڈھانچہ بنانےوالےایسی حکمت عملیاں بناتے ہیں جن کا ’’سر ہوتا ہے نہ ہی پیر، چونچ ہوتی ہے نہ ہی دُم‘‘ ایسے ہی حکمت عملی بنانے والوں کے ہاتھوں قوم برس ہا برس سے بے وقوف بنی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ملک کی ترقی اور خوش حالی، بدحالی کا نشان بن کر رہ گئی ہے، ملک آگے بڑھنا شروع ہوتا ہےتو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے یا کوئی بھی منصوبہ، نقشہ یا خاکہ ترتیب دے دیا جاتا ہے جو اِن ثمرات کی فصل کو اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
اگرچہ نو مئی کے واقعات کی ویسی تحقیقات نہیں کی گئیں جیسی ہونی چاہیے تھیں، نہ ہی اُن ویڈیو فوٹیجز کو سامنے لایا گیا جس میں ملوث بڑی تعداد میں مجرموں کا سراغ مل سکتا جو اِس سب میں ملوث پائے گئے اور انہیں پہلے چند دنوں تک ویڈیوز کی شکل میں دکھایا جاتارہاتھا جن کے اصل یا نقل ہونے کی بات بعد کی تھی کہ ان ویڈیوز کا بھی فرانزک کرایاگیا کہ نہیں کہ ان کی اصلیت سامنے لائی جاسکے کیونکہ عوام میں ان ویڈیوز نے جو گہرے اثرات چھوڑا تھے اسے پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات کا حصہ بنا لیا تھا۔ بہرحال یہ امر خوش کن قرار دیاجاسکتا ہےکہ نو مئی واقعات کےحوالے سےجہاں ملزمان کو مجرم سمجھتے ہوئے دس سال تک کی سزائوں سے ہم کنار کیا گیا وہیں اب اِس واقعہ کے انیس مجرمان کی سزاؤں کی معافی کا اعلان کردیا گیا ہے اور کچھ لوگوں کی رہائی عمل میں بھی آچکی ہے اور اِس سانحہ کے مجرموں کی سزاؤں پرعمل درآمد کے دوران، کئی مجرمان نے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے رحم اور معافی کی درخواست دائر کیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق مجموعی طور پرسڑسٹھ مجرمان نےرحم کی درخواست دائرکیں۔ اڑتالیس درخواستوں کو قانونی کارروائی کے لیے ’’کورٹس آف اپیل‘‘ میں نظر ثانی کے لیے ارسال کردیا گیا۔ انیس مجرمان کی درخواستوں کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر قانون کے مطابق منظور کیا گیا۔ جبکہ اب دیگر مجرموں کی جانب سے دائر کی جانے والی رحم کی درخواستوں پر عمل درآمد مقررہ مدت میں قانون کے مطابق کیا جائے گا۔ مجرمان کو ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے کےبعدرہا کیاجارہا ہے اور دیگر تمام مجرمان کے پاس بھی اپیل کرنے کا حق جبکہ قانون اور آئین کے مطابق دیگر قانونی حقوق برقرار ہیں۔ فوج کے ترجمان کے بقول ’’سزاؤں کی معافی ہمارے منصفانہ قانونی عمل اور انصاف کی مضبوطی کا ثبوت ہے۔ یہ نظام ہمدردی اور رحم کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔‘‘ اس سے قبل اپریل بیس چوبیس میں قانون کے مطابق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بیس مجرمان کی رہائی کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ کل تک جو لوگ فوجی عدالتوں کو جائز قرار دیتے رہے ہیں آج وہی بڑھ چڑھ کر اس کی مخالفت کررہے ہیں جس پر کئی اطراف سے تنقید کی جارہی ہے، یہاں معاملات کو الجھایا جارہا ہے، کل تک سیاسی کارکنوں کو سزائیں نہیں دی گئی تھیں اب لاکھ کہاجائےسزا پانے اور رہا ہونے والے بہرحال سیاسی کارکن ہیں جنہوں نے جوش جذبات میں آکر توڑ پھوڑ کی اور قانون کو ہاتھ میں لیا تھا اب وہ تائب ہوچکے ہیں اور انہیں سمجھ آگیا ہے کہ کچھ بھی ہو ادارے اور عمارتیں بھی ہماری اپنی ہی ہیں کوئی دشمن ملک کی نہیں اور یہ ہمارے ہی ادا کیے گئے ٹیکس سے بنائی گئی ہیں، ہم ہی اِن کے وارث اور محافظ ہیں۔ جہاں تک شائستہ انداز میں احتجاج کی بات ہے تو بلاشک و شبہ ایسا ہی پُر امن احتجاج ہونا چاہیے جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد شہبازشریف نے اس کی ایک جھلک دکھائی کہ انہوں نے بیرون ملک دورے میں کچھ آوازیں سنیں ’’اوووووں، اوووووں‘‘ پتہ چلا کہ مزدوروں کو تنخواہ نہیں ملی اس لیے وہ کام کے دوران احتجاج کررہے ہیں۔ اس امر کی وزیرِاعظم نے ستائش کی۔ ماضی قریب کی بات ہے جب ایک جماعت نے سپریم کورٹ پرحملہ کیا تھا اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور اسی سے جلا پاتےہوئے سرکاری ٹی وی پر بھی بعد میں حملہ کیا گیا پھر نو مئی کا واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ سب واقعات میں ایک قدر مشترک ہے کہ اس سے پہلے اس ’’اووووں، اووووں‘‘ طرز احتجاج کا کسی کو علم نہ تھا وگرنہ یہ سانحات نہ ظہور پذیر ہوتے۔ اب لازم ہے جو بھی احتجاج کرنا چاہے وہ یہی طریقہ اپنائے، جب اُن سے کوئی پوچھنے آئے خواہ وہ صدر مملکت ہوں، وزیرِ اعظم ہوں یا وزرائے احتجاج کرنے والے ایک ساتھ ’’اووووں، اووووں‘‘ کرکے بتا دیں کہ مسئلہ کیا ہے۔
یہ انتقام ہے یا احتجاج ہے، کیا ہے
یہ لوگ دھوپ میں کیوں ہیں شجر کے ہوتے ہوئے
لیکن اِس سے بھی بڑھ کر بھوکی، ننگی اور مسائل زدہ عوام کی محبوب حکومت کو اپنی ’’کاہ بینا‘‘ کے ٹائی ٹینک کو مزید وزنی کرنے کے لیے کچھ نئے بھاری بھر کم ’’بوجھ‘‘ کی اُفتاد آن پڑی ہے اور شُنید ہے کہ اَب وفاقی کابینہ میں اضافہ کرکے مزید ’’اصحابِ شہباز‘‘ کو مشرف بہ ’’خدمتِ خلق‘‘ کیاجانےوالا ہے اورنئےخدمت گاروں کا اضافی بوجھ عوام سے موصول شدہ ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدن میں بھی شامل ہونے والا ہے۔ کابینہ میں توسیع کے حوالے سے قرعۂ فال اس بار اَب تک رہ جانے والے خدمت گار حنیف عباسی، طارق فضل چوہدری، پیر عمران شاہ، ڈاکٹر توقیر شاہ، طلال چوہدری اور دیگر کے نام نکلا ہے۔
وفاقی کابینہ میں توسیع اور رَدوبدل کے سلسلے میں وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے ضروری صلاح مشورے مکمل کرلیے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے نئے وزرأ سے جلد حلف لیے جانے کا قوی امکان ہے۔ وفاقی کابینہ فی الوقت اٹھارہ ارکان پر مشتمل ہے جبکہ حکومت کے قلم دانوں کی مجموعی تعداد تیتیس ہے، دو وزرائے مملکت، تین خصوصی معاونین اور ایک مشیر وفاقی حکومت کا حصہ ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اہم قلم دانوں میں زیادہ رَد و بدل کی توقع نہیں تاہم چار سے پانچ وزرائے مملکت کو ذمہ داریاں سوپنے جانے کا امکان ہے۔ کسی نامعلوم شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
وُہ تازہ دَم ہیں نئے شعبدے دکھاتے ہوئے
عوام تھکنے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
اللہ سبحان و تعالیٰ وطنِ عزیز اور یہاں رہنے و بسنے والوں پر اپنا فضل و کرم بنائے رکھے اور وطنِ عزیز کو ہمیشہ پھلتا، پھولتا رکھے آمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: وفاقی کابینہ کے مطابق کیا گیا ہے اور

پڑھیں:

فضل الرحمن کی سیاسی حیثیت عمران کے مقابلے جتنی نہیں‘ گنڈاپور

پشاور (صباح نیوز) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن تمہاری سیاسی حیثیت عمران خان کے مقابلے جتنی نہیں، تمہاری حیثیت نہیں کہ عمران خان کے ساتھ بیٹھ سکو۔ مولانا فضل الرحمن صاحب حلقے کھول لیں، آپ کا مینڈیٹ چوری نہیں ہوا، آپ کے
ساتھ دھوکا ضرور ہوا ہے، جنہوں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا ان کا نام لیں۔ مذاکراتی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختو نخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو خیبر پختونخوا کے انتخابات پر اعتراض ہے تو آئیں حلقے کھول لیتے ہیں، آپ کے جو 4 ،5لوگ ہیں وہ بھی فارم 47کے ہیں، آپ کا مینڈیٹ چوری نہیں ہوا، آپ بلوچستان سے بھی فارم 47سے آئے ہیں، آپ کے ساتھ دھوکس ضرور ہوا ہے، جنہوں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، ان کا نام لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اس طرح کے بیانات دے گا تو بطور وزیراعلیٰ اس کا جواب دوں گا، جنہوں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا ہے ان کا نام لیں ہمارے اوپر بات نہ کریں۔ مولانا فضل الرحمن کہتا ہے میری تیسرے درجے کی لیڈر شپ عمران خان سے ملے گی، مولانا فضل الرحمن تمہاری سیاسی حیثیت عمران خان کے مقابلے جتنی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پہلے سے پتا تھا سزا ہوگی، یہ سب صرف پی ٹی آئی کے پیچھے لگے ہیں، شوکت یوسفزئی
  • غزہ میں صحافیوں کی قربانیاں بھی یاد رکھی جائیں گی
  • تاریخ کا پہلا وزیراعظم رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیا، مریم نواز
  • 190ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پر بانی پی ٹی آئی کا  کیا کیا؟بیرسٹر گوہر نے بتا دیا
  • فضل الرحمن کی سیاسی حیثیت عمران کے مقابلے جتنی نہیں‘ گنڈاپور
  • پی ٹی آئی کا ٹرمپ کی حلف برداری میں شرکت کی دعوت ملنے کا دعویٰ
  • پی ٹی آئی کا ٹرمپ کی حلف برداری میں شرکت کی دعوت ملنے کا دعویٰ
  • بیشک اللہ کی پکڑ بڑی دردناک ہے
  •  حکمران اشرافیہ سے وسائل چھین کر عوام کو ان کا وارث بنائیں گے، حافظ نعیم الرحمن 
  • مجھے اووو اووو والا احتجاج پسند نہیں، ایسے تو گیدڑ کرتے ہیں، شیر افضل