سورج نیلا کیوں پڑ گیا تھا سائنسدانوں نے 200 سال پرانی گتھی سلجھا لی
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2025ء)سائنسدانوں کی ٹیم نے اس بات کا پتہ لگایا ہے کہ تقریباً 200 سال قبل سورج کا رنگ پراسرار طور پر نیلا کیوں ہوگیا تھا۔ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سموشیر نامی دور دراز جزیرے پر آتش فشاں ایک بڑے پیمانے پر پھٹنے کا ذریعہ تھا جس نے پورے زمین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ جزیرہ اِس وقت روس اور جاپان کے درمیان کا متنازعہ علاقہ کہلاتا ہے۔
سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق سنہ 1831 میں ایک بہت بڑا آتش فشاں پھٹنے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار ہوا میں پھیل گئی تھی، جس کی وجہ سے سورج نیلا نظر آنے لگا اور دنیا میں غیر معمولی سطح پر ٹھنڈ میں اضافہ ہوا تھا۔اسکاٹ لینڈ میں سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے محققین نے اپنی دریافت کی حمایت کے لیے آئس کور ریکارڈز کا مطالعہ کیا۔(جاری ہے)
انہوں نے نوٹ کیا کہ 1831 کے پھٹنے کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے کیونکہ ایسا ایک دور دراز، غیر آباد جزیرے پر ہوا تھا۔
شریک مصنف ول ہچیسن نے اس لمحے کو بیان کیا جب انہوں نے لیب میں راکھ کا تجزیہ کیا اور کہا کہ یہ ایک سنسنی خیز دریافت تھی جب انہوں نے آتش فشاں سے برف کے مرکز میں پائی جانے والی راکھ کو ملایا۔ول ہچیسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برف کی کیمسٹری کا باریک بینی سے جائزہ لیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ دھماکہ کب ہوا تھا۔ انہوں نے پایا کہ سنہ 1831 کے موسم گرما میں آتش فشاں پھٹا تھا اور یہ انتہائی طاقتور تھا۔سائنس دانوں نے خبردار کیا کہ اس بات کا امکان ہے اسی طرح کا ایک اور آتش فشاں دوبارہ پھٹ سکتا ہے جو نظام جو کرہ ارض پر زندگی کو درہم برہم کر سکتا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے
پڑھیں:
ٹرمپ حلف برداری: چینی نائب صدر کی شرکت کے اعلان کو تجزیہ کار غیر معمولی کیوں قرار دے رہے ہیں؟
ویب ڈیسک —
چین نے جمعے کو کہا ہے کہ نائب صدر ہان چنگ پیر کے روز نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کریں گے۔
بیجنگ نے کہا ہے کہ اس کا مقصد امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینا، باہمی احترام ، پرامن بقائے باہمی اور اس تعاون میں اضافہ کرنا ہے جس سے دونوں ملک فیض یاب ہو سکیں۔
چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’ہم گفتگو اور رابطوں کو بڑھانے، اختلاف رائے میں مناست توازن لانے، باہمی طور پر فائدہ مند تعاون بڑھانے ، مستحکم، صحت مند اور پائیدار چین امریکہ تعلقات میں اضافے اور ایک ساتھ آگے بڑھنے کا صحیح راستہ تلاش کرنے کے لیے نئی امریکی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
چین کی طرف سے یہ بیان، صدر شی جن پنگ اور دیگر غیرملکی رہنماؤں کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے دعوت نامے بھیجنے کے ایک ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد سامنے آیا ہے۔
چین کی جانب سے حلف برداری کی تقریب میں نائب صدر کی شرکت کا اعلان ایک غیرمعمولی واقعہ ہے کیونکہ تاریخی اعتبار سے حلف برداری کی تقاریب میں سفیر ہی شرکت کرتے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے بیجنگ کا حلف برداری کی تقریب میں اپنے نائب صدر کو بھیجنا، نئی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے خیر سگالی کا اظہار ہے۔
بیجنگ کی سنگوا یونیورسٹی میں سینٹر فار انٹرنیشنل سیکیورٹی اینڈ اسٹرٹیجی کے سینئر فیلو چو بو کہتے ہیں کہ ’چین میں صدر کو دیگر ملکوں کے سربراہان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی اجازت دینے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔‘
انہوں نے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے نائب صدر کو بھیجنا ایک بہترین آپشن ہے اور یہ اقدام منتخب صدر ٹرمپ کے لیے بیجنگ کی جانب سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کرتا ہے‘۔
تاہم کئی دوسرے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہان چنگ کی حلف برداری کی تقریب میں حاضری بڑی حد تک رسمی رہے گی۔
امریکی ریاست پینسلوینیا میں قائم بلکن یونیورسٹی میں چین کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک ماہر ژی کن ژو کہتے ہیں کہ اگرچہ حلف برداری کی تقریب میں ہان کی شرکت کی نوعیت رسمی ہے لیکن اس کے باوجود بیجنگ ٹرمپ انتظامیہ کے عہدے کی دوسری مدت میں امریکہ چین تعلقات کے لیے ایک اچھی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔
انہوں نے ٹیلی فون پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’توقع ہے کہ اس سے ایک دوستانہ ماحول قائم ہو گا جو آنے و الے ہفتوں اور مہینوں میں برقرار رہے گا۔ چنانچہ جب دونوں فریق اہم مسائل پر بات چیت کے لیے بیٹھیں گے تو ممکن ہے کہ کوئی ڈیل ہو جائے‘۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی واپسی نے چین کے لیے غیریقینی صورت حال پیدا کر دی ہے جسے حالیہ برسوں میں معاشی مسائل کا سامنا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران، ٹرمپ نے چینی مصنوعات پر 60 فیصد تک محصولات عائد کرنے کا عزم کیا تھا۔ ژو کہتے ہیں کہ زیادہ محصولات کے امکان نے بیجنگ کو ٹرمپ انتظامیہ کی دوسری مدت کے تحت امریکہ چین کے تعلقات کے حوالے سے محتاط کر دیا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہمیں معلوم نہیں کہ ٹرمپ اپنے پتے کیسے کھیلیں گے، اس لیے میرا خیال ہے کہ بیجنگ یہ جاننے کے لیے انتظار کرے گا کہ چین کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیاں کیا ہوتی ہیں‘۔
چینی درآمدات پر محصولات عائد لگانے کی دھمکی کے باوجود، ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات ہو سکتے ہیں اور وہ نمائندوں کے ذریعے چینی رہنماؤں سے رابطے میں ہیں۔
انہوں نے 6 جنوری کو قدامت پسند ٹاک شو کے میزبان ہیو ہیوٹ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ، ’ مجھے لگتا ہے کہ شاید ہم بہت اچھی طرح سے چلیں گے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تعلقات دو طرفہ ہونے چاہییں۔
امریکہ چین تعلقات مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس کا کچھ اندازہ ان اعلیٰ عہدے داروں کی تعناتیوں سے بھی ہو سکتا ہے جنہیں ٹرمپ لانا چاہتے ہیں۔ ان میں سینیٹر مارکو روبیو وزیرخارجہ اور رکن کانگریس مائیک والٹز وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر بنائے جانے کا امکان ہے۔ وہ دونوں چین کے بارے میں سخت موقف رکھتے ہیں۔
ژو کا کہنا تھا کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ چین کے حوالے سے اپنی پالیسیاں کس طرح تشکیل دیں گے، اس لیے واشنگٹن اور بیجنگ دونوں ہی محتاط انداز میں آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا، ’ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران دونوں فریقوں کو ایک خوفناک تجرنے سے گزرنا پڑا تھا، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ وہ اس بار نئے سرے سے شروعات کرنا چاہتے ہیں‘۔
(وی او اے نیوز)