اسلام آباد(طار ق محمودسمیر)حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دورکاانعقادمشکلات کاشکارہوگیاہے اور تحریک انصاف مذاکراتی کمیٹی کی اپنے بانی چیئرمین سے اڈیالہ جیل میں آزادانہ فضامیں ملاقات کا مطالبہ حکومت نے تسلیم کرنے سے انکارکردیاجب کہ دوسری جانب عمران خان کی طرف سے متنازع ٹویٹس کے بعد نومئی اور 26مئی کے واقعات کاذمہ دارایک بارپھر اسٹیبلشمنٹ کو قراردینے کے بعد اس بات کے امکانات واضح ہوگئے ہیں کہ مذاکرات کاتیسرا دورممکن نظرنہیں آرہا،معاملات طے نہ ہونے کے باعث صورتحال آئندہ ہفتے تبدیل ہوجائے گی اور 190ملین پاؤنڈریفرنس کا فیصلہ احتساب عدالت کے جج ناصرجاویدرانا13جنوری پیرکے روز اڈیالہ جیل کی عدالت میں سنادیں گے اور فیصلہ سنانے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں،جب بھی دومخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کاعمل شروع ہوتاہے تو مخالفانہ بیان بازی کاسلسلہ روک دیاجاتاہیتاکہ فضاخراب نہ ہولیکن تحریک انصاف کے بعض ہارڈ لائنرزنے بیان بازی کاسلسلہ نہ روکابلکہ عمران خان کے ٹویٹراکاونٹ سے اسٹیبلشمنٹ کی اہم شخصیت کے باریمیں بھی منفی تبصرے کئے گئے اور یہاں تک کہ وزیراعظم شہبازشریف کوآرمی چیف کا اردلی ہونے کا طعنہ بھی دیاگیا،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازکے متحدہ عرب امارات کے صدر  شیخ محمد بن زید النہیان سے ہاتھ ملانے کی تصویرکوجوازبناکربھی تحریک انصاف کے رہنماوں نے بے بنیادپروپیگنڈا کیا،عمران خان نے جمعہ کو اڈیالہ جیل میں اپنی ہمشیرہ علیمہ خان ،وکلاء اور صحافیوں سے جوباتیں کی ہیں اور جو لب ولہجہ اختیارکیاہے اس سے واضح ہوگیاہیکہ عمران خان کی سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ،عمران خان نے اپنے اس بیان میں نومئی کے واقعات کو فالس فلیگ آپریشن قراردیتے ہوئے الزام لگایاکہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ نے کرایاجب کہ 26نومبر کے واقعات کے حوالے سے بھی انہوں نے اسی طرح کی الزام تراشی کی اور وہ کہتے ہیں کہ حکومت وقت ضائع کررہی ہے،عمران خان نے یہ بھی واضح کردیاہے کہ اگر تیسری میٹنگ میں کمیشن تشکیل نہ دیاگیاتو تحریک انصاف مذاکراتی عمل کا بائیکاٹ کردے گی،ایک طرف عمران خان نومئی کے واقعات پرالزام تراشی کررہے ہیں اور دوسری جانب فوجی عدالتوں سے 100سے مجرمان کو سزائیں ہوچکی ہیں اور ان میں ان کابھانجاحسان نیازی بھی شامل ہے،ان سزاوں کے خلاف تحریک انصاف ہائی کورٹ میں اپیلیں دائرکررہی ہے لگتاہیکہ عمران خان 20جنوری کا انتظار کررہے ہیں کہ امریکی صدرٹرمپ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور وہاں سے ایک ٹیلی فون کال آئے جب کہ حکومت کسی قسم کے بیرونی دباوکو قبول نہ کرنے کے اعلان کرچکی ہے،190ملین پاؤنڈکیس کافیصلہ تین بارسنانے کی تاریخ تبدیل کی گئی اور اس دوران یہ تبصرے اور افوائیں شروع ہوگئیں کہ عمران خان کی ڈیل ہوگئی ہے اسی لیے فیصلہ نہیں سنایاجارہالیکن اب اطلاعات آرہی ہیں کہ فیصلہ سنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور13جنوری کو اس کیس کافیصلہ سنایاجائے گاکیافیصلہ ہوگااس پر تو حتمی بات نہیں کی جاسکتی اگرعمران خان کے خلاف فیصلہ آیاتو مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوسکتاہے اوراگرعمران خان کے حق میں آگیاتو ان کے سیاسی مخالفین اسے ڈیل کانتیجہ قراردیں گے،شیرافضل مروت اورسلمان اکرم راجہ کے درمیان لفظی گولہ باری جاری ہے عمران خان سلمان اکرم راجہ پراعتماد کرتے ہیں اور مروت کے بیانات پر برہمی کااظہاربھی کیاہے لیکن یہ ایک افسوسناک امرہے کہ تحریک انصاف کے رہنمااپنے لیڈرکورہاکرانے کی جدوجہدکوآگے بڑھانے کے بجائے آپس میں الجھ رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: تحریک انصاف کے کہ عمران خان کے واقعات

پڑھیں:

امریکی کانگریس کے وفد کی اہم ملاقاتیں

امریکی کانگریس کا ایک تین رکنی وفد آج کل پاکستان کے دورہ پر ہے۔اس دورہ کے حوالے سے پہلے تحریک انصاف میں بہت جوش و خروش تھا۔یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ امریکا میں مقیم تحریک انصاف کے دوست ہی ان کانگریس مین کو پاکستان بھیج رہے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جا رہا تھا کہ ان کانگریس مینز کا وفد پاکستان پہنچ ہی تحریک انصاف کی مدد کے لیے رہا ہے۔

ہمیں تو یہی بتایا جا رہا تھا کہ اس وفد کو ایسے ہی سمجھیں جیسے ٹرمپ خود آرہے ہیں۔ یہ وفد پاکستان کی سیاست میں ایک طوفان لے آئے گا اور اسٹبلشمنٹ کے لیے مسائل پیدا کر دے گا۔ پہلے تو یہ تاثر تھا کہ کانگریس کا یہ وفد پاکستان پہنچتے ہی سب سے پہلے اڈیالہ میں قید بانی تحریک انصاف کو ملنے پہنچ جائے گا بعد میں تحریک انصاف کی قیادت سے ملے گا۔ پھر بانی تحریک انصا ف کی بہنوں سے ملے گا۔ پھر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ سے ملے گا۔ وہ پاکستان کے بارے میں جو بتائیں گے اس کے بعد اس پر پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کی باز پرس کرے گا۔ اس لیے تحریک انصاف امریکا نے کانگریس کے اس وفد کے دورہ کی اہمیت پر زور دیا تھا اور اس سے بہت سے امیدیں بھی باندھ لی تھیں۔

لیکن کھیل تو بدل گیا۔ بقول تحریک انصاف کے جس وفد کو انھوں نے پاکستان بھجوایا تھا وہ تو اڈیالہ نہیں گیا ہے اور اس نے اڈیالہ جانے کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا ہے۔ یہ وفد تو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو مل رہا ہے، وفاقی وزیر احسن اقبال کو مل رہا ہے، حکومتی نمایندوں کو مل رہا ہے۔

سب سے زیادہ تو اس نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کر لی ہے۔ ابھی یہ وفد پاکستان میں ہے اس کی مزید ملاقاتیں ہونی ہیں۔ لیکن ابھی تک دورے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ تو پاکستانی حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ یہ وفد پاکستان اور امریکا کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے دورے پر ہے۔ حالانکہ تاثر تو یہ بنایا گیا تھا کہ یہ تحریک انصاف کے ایجنڈے پر پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔

ابھی کی صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے امریکا میں مقیم دوست سوشل میڈیا پر ان کانگریس مینز سے اپیلیں کر رہے ہیں کہ آپ اڈیالہ جائیں، آپ علیمہ خان سے ملیں۔ لیکن تادم گفتگو مجھے ایسی کسی ملاقات کا کوئی علم نہیں اور نہ تحریک انصاف پاکستان ہی ایسی کسی ملاقات کی تصدیق کر رہی ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر اپیلوں کا ایک چکر چل رہا ہے۔

بیرسٹر شہزاد اکبر نے لندن بیٹھ کر تحریک انصاف امریکا کے دوستوں کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اور ان کا موقف ہے کہ کھیر بے شک تحریک انصاف امریکا نے پکائی تھی لیکن کھا اسٹبلشمنٹ گئی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ تحریک انصاف امریکا کے دوستوں میں ایسے غدار ہیں جنھوں نے اس وفد کی آرمی چیف سے ملاقات کی راہ ہموار کی ہے اور ان کے مطابق یہ تحریک انصاف کی ایک بڑی ناکامی ہے۔ ان کے مطابق اب کھیل ہاتھ سے نکل بھی رہا ہے اور جدوجہد لمبی بھی ہو گئی ہے اب جلدی کچھ ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

ایک بات اور سمجھیں کانگریس مینز کا یہ وفد کوئی امریکی حکومت کا وفدنہ ٹرمپ کے نمایندے ہیں، یہ کوئی امریکی انتظامیہ کے نمایندے نہیں۔ ان کا امریکی حکومت میں کوئی کردار نہیں۔ یہ کانگریس مین اپنے طور پر پاکستان کے دورے پر ہیں اور ان کے دورے کا امریکی پالیسی پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ البتہ یہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کا یہی پراپیگنڈا تھا کہ اس وقت ایک امریکی کانگریس مین نے پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ کے نام سے ایک بل جو تجویز کیا ہوا ہے۔ یہ کانگریس مینز اس بل کی کامیابی میں کردار ادا کریں گے اورکانگریس مینز کے اس وفد سے اس بل کی راہ ہموار ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا ہے، یہ سب پراپیگنڈا ثابت ہوا ہے۔  یہ دورہ ابھی تک سفارتی پروٹوکول کے مطابق ہی چل رہا ہے ا ور اس میں سفارتی آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جا رہا ہے۔ اس لیے مجھے تو اس دورے کے نتائج پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور حکومت کے حق میں نظر آرہے ہیں۔

جب سے ٹرمپ کی حکو مت آئی ہے اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور امریکا کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔پہلے ٹرمپ نے اپنے صدارتی خطاب میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ جب کہ ماحول تو یہ بنایا گیا تھا کہ ٹرمپ تب تک پاکستان میں کسی سے بات نہیں کریں گے جب تک بانی تحریک انصاف اقتدار میں نہ آجائیں گے۔

ماحول تو یہ تھا کہ ٹرمپ آئے گا تو تحریک انصاف بھی آجائے گی۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا۔ پہلے صدارتی خطاب میں شکریہ، پھر منرلز کانفرنس میں اعلیٰ سطح کے وفد کی آمد، ٹرمپ کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ۔اب اس وفد کی آرمی چیف سے ملاقات سب اشارے تو اس حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے حق میں جا رہے ہیں۔ رچرڈ گرنیل بھی خاموش ہو گئے ہیں۔ اب صرف جو ولسن رہ گئے ہیں۔ جو کانگریس کے اس وفد میں شامل نہیں ہیں۔

اوور سیز کنونشن کو بھی اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ بھی پوری دنیا کو پیغام ہے کہ اوور سیز پاکستانی بھی اس حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ کنونشن بھی اس ساری پراپیگنڈے کو ختم کرے گا۔ جس میں یہ تاثر پیدا کیاجا رہا تھا کہ اوورسیز تو سارے تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ لیکن اب تو ایک بڑی اکثریت حکومت کی حامی بھی سامنے آئی ہے۔

اس کا بھی بیرونی دنیا پر اثر ہوگا اور پاکستان کی حکومت کے مخالف کام کرنے والی لابی کو نقصان پہنچے گا۔ آرمی چیف کی کانگریس مینز سے ملاقات پر تحریک انصاف کے اندر ایک صدمہ کی کیفیت ہے۔ان کا دکھ شدید ہے، وہ ایک دوسرے کو کوس رہے ہیں۔ اس کا ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں، اسے اپنی بڑی ناکامی تصور کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے دوست بھول گئے تھے کہ تعلقات حکومتوں کے ہوتے ہیں، تعلقات ممالک کے ہوتے ہیں، تعلقات ریاست کے ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں، اداروں کے اداروں کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔ یہی نظر آرہا ہے۔ باقی سب شور تھا۔ اور کچھ بھی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فواد چوہدری نے پی ٹی آئی وکلا اور موجودہ قیادت پر سنگین الزامات لگادیئے
  • مائنز منرلز بل بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر پاس نہیں ہوگا، شیخ وقاص اکرم
  • امریکی کانگریس کے وفد کی اہم ملاقاتیں
  • کل عمران خان سے اہل خانہ کی ملاقات کا دن ہے، سلمان اکرام راجہ کا ٹویٹ
  • فواد چوہدری کے پی ٹی آئی وکلاء اور موجودہ قیادت پر سنگین الزامات
  • عمران خان سے ملاقات کون کرے گا؟ فیصلہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کرے گی
  • تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کا نیا لائحہ عمل: عمران خان سے ملاقات صرف منظور شدہ فہرست کے ذریعے ممکن
  • جتنے مرضی کیسز کر لیں ہم نے بانی کا ساتھ نہیں چھوڑنا: زرتاج گل
  • اسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کا میرے علم میں نہیں، بانی سے ملاقات کے بعد حقائق سامنے آئینگے‘سلمان اکرم راجہ
  • سرد جنگ؛ ملتان سلطانز کے مالک نے پھر بورڈ پر “سنگین الزامات” لگادیے