Nai Baat:
2025-04-13@19:42:16 GMT

فوج اور سمگلنگ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

فوج اور سمگلنگ

وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر بجا طور پرکریڈٹ لیتے ہیںکہ انہوںنے چینی کی سمگلنگ روک دی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب چینی سرپلس بھی ہے اورایکسپورٹ ہو کر پچاس کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ بھی دے رہی ہے جبکہ پہلے یہ صرف بحران دیتی تھی۔ ایک سیاسی رہنما کی غلط فہم و فراست کی وجہ سے سوشل میڈیا پر اینٹی فوج بیانیے کی وجہ سے الزام لگا یاجاتا ہے کہ سرحدوں پر فوج ہوتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ فوج کی ملی بھگت کے بغیر سمگلنگ ہوجائے۔ جو لوگ نہ تفصیلات سے آگاہ ہیں اور نہ ہی جوابی بیانیے سے، وہ اس پروپیگنڈے سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ میں اعداد و شمار میں بعد میں جاﺅں گا، پہلے ایک ’جٹکی‘ دلیل کے مقابلے میں ویسی ہی دلیل پیش کروں گا کہ اگر فوج یا نیم فوجی ادارے ہی سمگلنگ میں ملوث ہیں تو وہ صرف افغانستان یا ایران کے سرحدی علاقوں میں سمگلنگ کیوں کرواتے ہیں، یہی ادارے اور ان کے افسر انڈیا اور چین کی ساتھ ملنے والی سرحدوں پر بھی ہیں تو وہاں سے مال کیوں نہیں بناتے؟ مان لیجئے ہزاروں ایسے آئٹمز ہیں جو ایران یا افغانستان کی بجائے انڈیا اور چین سے سمگل ہوکر یہاں کی مارکیٹ میں بڑا پرافٹ دے سکتے ہیں۔
چلیں، کچھ اعداد وشمار دیکھیں، پاکستان کا مجموعی بارڈرتقریبا7303 کلومیٹر طویل ہے ، افغانستان کے ساتھ2640 کلومیٹر جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتاہے ،ایران پاکستان بارڈر 959 کلومیٹر، چین پاکستان بارڈر 559کلومیٹر اور انڈیا کے ساتھ 3190 کلومیٹر یعنی یہ سب سے طویل۔ پہلے ہم افغانستان کی بات کر لیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی اضلاع میں رہنے والے صدیوں سے سامان کی نقل و حمل میں مصروف ہیں بلکہ یہ کہیں کہ ان علاقوں کے آدھے زیادہ خاندان اسی کاروبار سے وابستہ ہیں، سو وہ اسے سمگلنگ نہیں تجارت کہتے ہیں۔ وہ اسے بند کرنے یا اس پر سختی کے ہرگز حامی نہیں اور یہاں وہ ایک جائز مطالبہ کرتے ہیںکہ اگر ریاست اس ’تجارت‘ کو بند کرتی ہے تو وہ شہریوں کومتبادل روزگار دے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو اسلام آباد، لاہور یا کراچی میں اس سمگلنگ کو بند کرنے پر پاکستان کی حکومت اور فوج کو سراہتی ہیں انہی کے نچلی تنظیمیں کوئٹہ یا پشاور میں اس کی مخالفت کرتی ہیں مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ افغان ٹریڈ ہماری معیشت کے کئی سو ارب ڈالر کھا جاتی ہے اور اب یہ قابل قبول نہیںہے۔ میرا موضوع یہ ہے کہ پاک فوج کو اس پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اوراصل بات یہ ہے کہ اس سمگلنگ کے ساتھ جرائم کی دنیا جڑی ہوئی ہے اور اس جرائم کی اس دنیا کو اسی سمگلنگ سے ہر روز کئی سو ارب روپوں کی کمائی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سمگلنگ ختم کرنے کے خلاف ہزاروں لوگوں کے ایسے دھرنوں کے خرچے اٹھا لئے جاتے ہیں جو کئی کئی ماہ تک چلتے ہیں، اسی مقامی طور پر جائز اور ضروری’تجارت ‘ کے ساتھ دہشت گردوں کی بھی نقل وحمل ہوجاتی ہے جو ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کوشہید کر کے واپس افغانستان چلے جاتے ہیں۔
پروپیگنڈے پر مت جائیںبلکہ سوچیں کہ سرحدوں پر موجود ادارے ہی سمگلنگ کے واحد اور بااختیار پلیئر ہوتے تو وہ صرف افغانستان اور ایران کے بارڈرز پر سمگلنگ کیوں کرواتے، وہ انڈیا اور چین کی سرحدوں پر بھی اس کو جاری رکھتے۔ اب آپ کہیں گے کہ انڈیا ا ور چین کی بارڈر پر موجود سیکورٹی فورسز اس کی اجازت نہیں دیں گی تو یہی میرا مقدمہ ہے کہ یہ سمگلنگ کبھی ایک طرف کی اجازت سے نہیں ہوسکتی اور نہ ہی ایک طرف کی پابندی سے روکی جاسکتی ہے۔پاکستان کی فوج اور حکومت اس وقت پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس سمگلنگ کو روک دیا جائے لیکن افغانستان کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں ہے بلکہ پاکستان کی پانچ، چھ چوکیوں کے بعد ایک افغان چوکی ہے اور وہ بھی مکمل چوکنی اور فعال نہیں۔ افغانستان کے ساتھ اڑھائی ہزار سے کچھ زیادہ کلومیٹروں کی سرحد بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ یوں ہے کہ کسی جگہ پر ایک سرحدی نگرانوں کے پاس پچاس ، ساٹھ کلومیٹر کا علاقہ ہے اور بیشتر پہاڑی،جس پر ہر وقت پٹرولنگ یا نظر رکھنا ممکن ہی نہیں۔ یوں علاقائی لوگوں کو ایف سی اور رینجرز وغیرہ کی موجودگی کے باوجود بیچ میں ایسے راستے مل جاتے ہیں کہ وہ سرحد پار کرجاتے ہیں۔ شائد آپ کو میری اس دلیل کے بعد بات پوری طرح سمجھ آئے کہ امریکا کو میکسیکوکی سرحد کے ساتھ مسائل کا سامنا ہے۔ امریکا وہ ملک ہے جو کہتا ہے کہ دنیا میں کہیں سوئی بھی گرے تواس کی ٹیکنالوجی کی نظر سے چھپی نہیں رہ سکتی مگر اس کے باوجود صدر ٹرمپ کو اپنے پچھلے دور میں وہاں دیوار تعمیر کرنا پڑی اور اب بھی وہ اسی معاملے پر چیخ رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، ہماری فوج پروفیشنل بھی ہے اور ٹیلنٹڈ بھی اور اس نے امریکی فوج سے بڑھ کے یہاں پر نتائج دئیے ہیں۔
میں نے معاملے کا ایک پہلو بیان کیا کہ افغانستان سے سمگلنگ کو وہاں کے لوگ معمول کی تجارت سمجھتے ہیں اورجنہیں روکا جائے ان کے پاس متبادل روزگار ہونا چاہئے۔ دوسرا معاملہ یہ ہے کہ جب ہم پاکستان کے ان اضلاع کی طرف دیکھتے ہیں جہاں پر ایرانی ڈیزل اور پٹرول آتا ہے تو ہمیں دیکھناپڑے گا کہ یہ پٹرول اور ڈیزل استعمال کہاں ہوتا ہے۔ بہت سارے علاقے وہ ہیں جہاں پی ایس او سمیت ہمارے پٹرولیم مصنوعات کے قومی اداروں کی رسائی ہی نہیں ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سخت سردی میںزندگی کو برقرار رکھنے کے لئے جنریٹر چلانا ضروری ہے اور اس کے لئے ڈیزل۔ سمگلنگ روکی جا رہی ہے اور پہلے جو ایرانی ڈیزل ساٹھ ، ستر روپے لیٹر مل جاتا تھا اب وہ طلب و رسد کے اصول کے وجہ سے دو سو روپے لیٹر سے او پر جا چکا ہے۔کئی لوگ کہتے ہیں کہ جب تک ان دور دراز علاقوں میں میں تیل کی سپلائی کا تسلی بخش نظام نہ ہوسمگلنگ کو روکنا اس علاقے کوموت کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گا یعنی سمگلنگ روکنے کے حل کے ساتھ کئی دوسرے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں جن کا حل ہونا ضروری ہے اور سب سے بڑا اور خوفناک معاملہ یہ ہے کہ سمگلنگ کے ساتھ سیاست اور دہشت گردی کا ٹرائینگل ہے جو سب ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ یہ وہ گرہیں جو ہم نے یا شائد قدرت نے صدیوں میں لگائی ہیںاور اب انہیں کھولنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو وہ حالات کی گرد پڑنے کے بعد بہت سخت ہوچکی ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھوںکی لگائی ہوئی کئی گرہیں دانتوںسے کھولنی پڑتی ہیں مگر ان تمام باتوں کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف نے عشروں ( یا صدیوں) سے بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ کہتے ہیں کہ سمگلروںکے ساتھ ساتھ پراپرٹی مافیا اوراس کے ایجنٹوں کی بھی آرمی چیف تک رسائی ختم ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بگڑے معاملات یوں درست ہوتے جا رہے ہیں جیسے ان کے پاس جادو کی چھڑی ہو۔

 

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سمگلنگ کو کے ساتھ ہے اور ہیں کہ

پڑھیں:

افغانستان فوری طور پر دہشتگرد تنظیموں کو لگام ڈالے، وزیراعظم

افغانستان فوری طور پر دہشتگرد تنظیموں کو لگام ڈالے، وزیراعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 13 April, 2025 سب نیوز

لندن (سب نیوز)وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دہشتگرد تنظیمیں افغانستان سے آپریٹ کررہی ہیں، افغان حکومت دہشتگرد تنظیموں کو لگام ڈالے، افغانستان برادر اور ہمسایہ ملک ہے، اب یہ افغانستان پر منحصر ہے کہ ہمسایے کے طور پر رہتا ہے یا تنازعات کے ساتھ، دوحہ معاہدہ تھا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی، ہم نے افغان عبوری حکومت کو کئی بار اس حوالے سے پیغام بھی بھیجا ہے، پاک فوج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، ڈیڑھ لاکھ نوجوانوں کو بیلا روس میں روزگار ملے گا، میاں نوازشریف کی قیادت میں ملک وقوم کی خدمت کررہا ہوں ، تیزی سے ترقی کرتا پاکستان ہماری منزل ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دورہ بیلاروس اچھا رہا، بیلاروس کی زراعت کے شعبے میں مہارت سے فائدہ اٹھائیں گے، بیلاروس میں بننے والے زرعی مشینری کے جوائنٹ وینچرز پاکستان میں بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے پاکستان کو معدنیات کے خزانے عطا کیے ہیں، بیلاروس میں مائنز اینڈ منرلز کے حوالے سے مشینری بنانے والی فیکٹری کا بھی دورہ کیا، اس شعبے میں بھی ان شا اللہ تعاون بڑھائیں گے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ لاکھ ہنر مند پاکستانی نوجوانوں کو بیلاروس میں روزگار کی فراہمی کے لیے بیلاروس سے ہماری مفاہمت ہوئی ہے جو ہم ان شا اللہ بالکل میرٹ پر بھیجیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اسپیڈ جو تھی وہ بھی پاکستان اسپیڈ تھی جو اب سپر پاکستان اسپیڈ ہے، نواز شریف کی ہی قیادت میں ہم قوم کی خدمت کر رہے ہیں، ترقی کرتا ہوا، خوش حالی کی طرف تیزی سے بڑھتا ہوا پاکستان ان شا اللہ ہماری منزل ہے۔انہوں نے کہا کہ اجتماعی کاوشوں اور پوری قوم کی دعاں سے شبانہ روز محنت کرکے یہ منزل ان شااللہ حاصل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ افغانستان ہمارا ایک ہمسایہ برادر ملک ہے، ہمیں ہمسائے کے طور پر ہمیشہ رہنا ہے، یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اچھے ہمسائے کے طور پر رہیں یا تنازعات پیدا کریں۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو ہم نے متعدد بار یہ پیغام دیا ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق وہ کسی طور پر بھی افغانستان کی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن بد قسمتی سے ٹی ٹی پی، آئی ایس کے پی اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں وہاں سے آپریٹ کرتی ہیں اور پاکستان کے بے گناہ لوگوں کو انہوں نے شہید کیا ہے۔صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں یہ قربانیاں جو پاکستان کے عوام، افواج پاکستان، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے دے رہے ہیں، یہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو میرا ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ فی الفور ان دہشت گرد تنظیموں کو لگام ڈالے اور اپنی دھرتی کو ان کے ہاتھوں استعمال ہونے کی قطعا اجازت نہ دے۔ان کا کہنا تھا کہ آج اوور سیز کنونشن کا آغاز ہو چکا ہے اور الحمدللہ یہ بہت بڑا، تاریخی کنونشن ہو رہا ہے، اوورسیز پاکستانی اپنے گھر پاکستان میں تشریف لا رہے ہیں، دن رات محنت کرکے اوورسیز پاکستانی پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں اور ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلات زر بھجواتے ہیں۔شہباز شریف نے بتایا کہ اس سال اوورسیز پاکستانیوں کی بھجوائی گئی ترسیلات زر میں کافی اضافہ ہوا ہے، کنونشن ان سے بات چیت کرنے کا بہت شان دار موقع ہے، کنونشن میں اوورسیز پاکستانیوں کے جائز مطالبات کو غور سے سنیں گے اور ان پر جس قدر ہو سکا تیزی سے عمل کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • خون کے آخری قطرے تک فلسطین کے عوام کے ساتھ رہیں گے،فضل الرحمان
  • افغانستان فوری طور پر دہشتگرد تنظیموں کو لگام ڈالے، وزیراعظم
  • پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے ،گرینڈ اپوزیشن الائنس کامعاملہ پھرلٹک گیا
  • ہم آسان راستہ یا ڈیل نہیں مانگ رہے، رؤف حسن
  • سندھ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے: وزیر اطلاعات پنجاب
  • افغانستان؛ طالبان نے 4 مجرموں کو اسٹیڈیم میں سرعام موت کی سزا دیدی
  • افغانستان:   4 افراد کواسٹیڈیمز میں پر سرعام سزائے موت
  •  افغانستان میں امریکہ کی واپسی
  • افغانستان: تین افراد کی سزائے موت پر سر عام عمل درآمد
  • تنہائی کا المیہ